امت رپورٹ :
اپریل دو ہزار آٹھ میں، ایک سینئر برطانوی انٹیلی جنس اہلکار اپنے اسرائیلی ہم منصبوں کو دھماکہ خیز معلومات پہنچانے کے لیے تل ابیب گیا۔ انٹیلی جنس حکام کے مطابق، جاسوس نے قیمتی انفارمیشن فراہم کی تھی۔ ایسی انٹیلی جنس جو مغربی دارالحکومتوں کو تہران کے خلاف سخت پابندیاں عائد کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے کافی تھیں۔ اس جاسوس کی شناخت کافی عرصے سے خفیہ تھی۔ لیکن گیارہ جنوری دو ہزار تئیس کو ایران میں علی رضا اکبری نامی سابق نائب وزیر دفاع کو جاسوسی کے الزام میں پھانسی دینے سے وہ بات سامنے آئی جو پندرہ سال سے چھپی ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ علی رضا اکبری برطانوی ایم آئی 6 کا ایجنٹ تھا۔ علی رضا اکبری نے طویل عرصے سے دوہری زندگی گزاری۔ عوام کے لیے، وہ ایک مذہبی پرجوش اور پاسداران انقلاب کا ایک سینئر فوجی کمانڈر اور نائب وزیر دفاع تھا جو بعد میں لندن چلے گیا اور پرائیویٹ سیکٹر جوائن کیا۔ لیکن اس نے کبھی بھی ایران کے رہنمائوں کا اعتماد نہیں کھویا۔ دو ہزار چار میں ، اس نے برطانوی انٹیلی جنس کے ساتھ ایران کے جوہری راز بانٹنا شروع کئے۔اور دو ہزار انیس میں جاکر یہ انکشاف ہوا کہ اس نے ایران کی سب سے محفوظ اور خفیہ یورینیم افزودگی کے پلانٹ فوردو کی اطلاع برطانوی خفیہ ایجنسی کو دے دی ہے۔ یہ اطلاع ایران کو روسی انٹیلی جنس نے دی تھی کہ ان کا ایک اہم شخص مغربی ایجنسیوں کے ہاتھوں بک چکا ہے۔
علی رضا اکبری پر جوہری اور فوجی راز افشا کرنے کے الزام کے علاوہ، ایران نے یہ بھی کہا ہے کہ اس نے ایک سو سے زائد اہلکاروں کی شناخت اور سرگرمیوں کا انکشاف کیا، جن میں سب سے نمایاں ایرانی چیف ایٹمی سائنس دان محسن فخری زادہ شامل تھے، جنہیں اسرائیل نے دو ہزار بیس قتل کر دیا۔ برطانیہ نے کبھی بھی عوامی سطح پر یہ تسلیم نہیں کیا کہ علی اکبری، جو دو ہزار بارہ میں برطانوی شہری بنا، اس کا جاسوس تھا۔ برطانوی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’’انٹیلی جنس سے متعلق معاملات‘‘ پر تبصرہ نہ کرنا دیرینہ پالیسی ہے۔
تین مغربی انٹیلی جنس اور قومی سلامتی کے عہدیداروں کے مطابق، فوردو کے بارے میں جو انٹیلی جنس، اکبری نے فراہم کی تھی وہ ان انکشافات میں سے ایک تھی جو برطانوی انٹیلی جنس اہلکار نے دو ہزار آٹھ میں اسرائیلی ہم منصبوں اور دیگر دوست ایجنسیوں کو دی تھیں۔ اکبری کی سرگرمیوں کا درج ذیل بیان امریکی، برطانوی، اسرائیلی، جرمن اور ایران کے موجودہ اور سابق انٹیلی جنس اور قومی سلامتی کے حکام اور سینئر سفارت کاروں کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔ کچھ نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی کیونکہ وہ ریکارڈ پر بات کرنے کے مجاز نہیں تھے۔
علی رضا اکبری، جس کی عمر باسٹھ سال تھی جب اسے پھانسی دی گئی۔ وہ ایک غیر متوقع جاسوس تھا۔ اس کے بھائی مہدی اکبری اور اس کے جاننے والے لوگوں کے انٹرویوز کے مطابق، اس نے اسلامی جمہوریہ کے نظریات کے لیے جنونی وفاداری اور اس کے رہنماؤں کے لیے غیر متزلزل حمایت کا مظاہرہ کیا۔ اس کی سب سے نمایاں جسمانی شناخت اس کی پیشانی پر ایک گڑھا تھا۔ جو روزانہ کی نماز میں استعمال ہونے والا مٹی کے پتھر (مہر) کی وجہ سے تھا۔ وہ انتہا پسند سیاسی خیالات رکھتا تھا، جس کا اظہار اس کی شعلہ بیان تحریروں، تقاریر اور انٹرویوز سے ہوتا تھا۔ ایک سینئر ایرانی سفارت کار اور حکومت کے ایک مشیر کے مطابق، سرکاری ملاقاتوں میں اس نے دلیل دی کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہیے۔
مہدی اکبری نے کہا ’’میرا بھائی گہرا مذہبی اور بہت انقلابی تھا، ہمارے خاندان میں ایسا کوئی بھی نہیں تھا۔‘‘ اس کے بھائی کا مزید کہنا تھا ’’علی رضا اکبری شیراز شہر میں ایک قدامت پسند متوسط گھرانے میں پیدا ہوا، وہ نوعمر تھا جب انیس سو اناسی میں ایرانی انقلاب نے بادشاہت کا تختہ الٹ دیا اور اس کے بعد عراق کے ساتھ جنگ شروع ہوئی۔ انقلابی جذبے سے متاثر ہو کر، وہ اور ایک بڑا بھائی سپاہیوں کے طور پر بھرتی ہوئے، اور تقریباً چھ سال بعد جب اس نے اگلے مورچوں کو چھوڑ اتو وہ پاسداران انقلاب کا ایک کمانڈر تھا۔‘‘
ریٹائرڈ ہونے کے بعد علی رضا اکبری نائب وزیر دفاع کے عہدے پر فائز ہوا اور سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل اور دیگر سرکاری اداروں میں مشاورتی عہدوں پر بھی رہا۔ اس نے دو طاقت ور آدمیوں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے۔ ایک ایٹمی سائنس دان محسن فخری زادہ اور دوسرے کونسل کے سربراہ علی شامخانی، جن کے لئے وہ نائب اور مشیر کے طور پر کام کرتا رہا۔ یہ وہی علی شامخانی ہیں جو آج کل ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر ہیں۔ جنہیں حالیہ حملے میں اسرائیل نے مارنے کی کوشش کی تھی۔ یہ خبر بھی چل گئی تھی۔ تاہم بعد میں انہوں نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’’میں زندہ ہوں۔‘‘
حکومت اور پاسداران انقلاب کے قریب رہنے والے ایران میں پالیسی تجزیہ کار فواد ایزادی کے بقول علی رضا اکبری انتہائی جاہ طلب، اعلیٰ تحریر اور بولنے کی مہارت کے ساتھ ایک بہترین تجزیہ کار تھا اور لوگ اس پر بھروسہ کرتے تھے۔ اس کے پاس جوہری اور فوجی پروگراموں سے متعلق بہت سی حساس، خفیہ معلومات تھیں۔
دو ہزار چار میں، اسرائیل اور مغرب میں بڑھتے ہوئے شکوک کے درمیان کہ ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیاروں کے پروگرام پر عمل پیرا ہے، علی رضا اکبری کو تہران میں اہم سفارت خانوں کو اس بات پر قائل کرنے کی ذمہ دار ی دی گئی تھی کہ ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ وہ برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس کے سفیروں کے ساتھ باقاعدگی سے ملاقاتیں کرتا رہا۔
اپنے ایک اعترافی ویڈیو میں علی رضا اکبری اکبری نے کہا کہ وہ ’’لالچ کے سبب بھٹک گیا تھا۔‘‘ حالانکہ اس نے مالی مسائل سے بھی انکار کیا۔ ایرانی حکام کے مطابق اکبری نے ملک کے ساتھ غداری کی اور پیسے کے عوض ریاستی رازوں کا کاروبار کیا۔ اعترافی ویڈیوز میں اکبری نے کہا کہ اسے دو ہزار چار میں بھرتی کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ اسے اور اس کے خاندان کو برطانیہ کا ویزا دیا جائے گا۔ اگلے سال اس نے برطانیہ کا سفر کیا اور ایک ایم آئی 6 ہینڈلر سے ملاقات کی۔ اگلے چند برسوں میں اکبری نے آسٹریا، اسپین اور برطانیہ میں فرنٹ کمپنیاں بنائیں تاکہ اپنے ہینڈلرز کے ساتھ ملاقاتوں کے لیے کور فراہم کرسکے۔ ایرانی حکام کے مطابق ایم آئی 6 نے اکبری کو تقریباً دو ملین پائونڈ ادا کیے، جو کہ آج کے پاکستانی چھہتر کروڑ اکہتر لاکھ روپے سے زائد بنتے ہیں۔ علی رضا اکبری دو ہزار آٹھ میں اپنے سرکاری عہدوں سے ریٹائر ہوا، لیکن وہ علی شامخانی اور دیگر سینئر عہدیداروں کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دیتا رہا۔
دو ہزار آٹھ کے آخر میں اکبری کو برطانیہ کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار کر کے چار ماہ تک حراست میں رکھا گیا۔ تاہم پوچھ گچھ میں اعتراف جرم نہیں ہوا اور اکبری کے بہت سے طاقت ور دوستوں نے اس کی حمایت کی۔ چنانچہ اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ مقدمہ بند کر دیا گیا اور اسے آزادانہ سفر کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
اپریل دو ہزار آٹھ میں برطانیہ نے اسرائیل اور مغربی ایجنسیوں کے ساتھ فوردو ایٹمی پلانٹ کے بارے میں انٹیلی جنس حاصل کی اور شیئر کی، جو کہ ایک زیر زمین ملٹری کمپلیکس کے اندر یورینیم افزودگی کی تنصیب ہے۔ حال ہی میں امریکہ نے بنکر شکن بموں کے ذریعے اسے تباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔ جب دو ہزار آٹھ میں علی اکبری نے اس کی مخبری برطانوی خفیہ ایجنسی کو دی اور اس نے اسرائیل کو پہنچائی تو ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں دنیا کا تصور بدل گیا۔ اور سارا مغرب ایک بار پھر ایران کے جوہری پروگرام کے پیجھے پڑگیا تھا۔ اس وقت اسرائیل کے وزیر دفاع کے چیف آف اسٹاف یونی کورین نے دو ہزار انیس میں ایک انٹرویو میں کہا ’’فوردو کے بارے میں معلومات نے ہمیں چونکا دیا۔‘‘ ان کا کہنا تھا ’’ایرانی نیوکلیئر پراجیکٹ کے اندر سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کی مشترکہ مغربی کوششوں میں برطانویوں کا تعاون ہمیشہ عظیم رہا۔‘‘
برطانیہ نے دو ہزار آٹھ میں اسرائیل کے ساتھ جو انٹیلی جنس شیئر کی تھی وہ جلد ہی مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو منتقل کر دی گئی تھی، اس وقت جرمن انٹیلی جنس میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز شخص نے بتایا کہ ستمبر دو ہزار نو میں، پٹسبرگ میں گروپ آف سیون کے سربراہی اجلاس میں، صدر باراک اوباما نے برطانیہ اور فرانس کے رہنماؤں کے سامنے انکشاف کیا کہ فوردو ایک جوہری افزودگی کا پلانٹ ہے۔ مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو طویل عرصے سے سیٹلائٹ کی تصویروں کے ذریعے یہ تومعلوم تھا کہ ایران فوردو میں پہاڑوں کے اندر گہرائی میں ایک تنصیب بنا رہا ہے۔ لیکن ان کا خیال تھا کہ یہ سائٹ فوجی سازو سامان ذخیرہ کرنے کی جگہ ہے اور وہ اس کے خفیہ جوہری افزودگی سائٹ میں تبدیل ہونے سے لاعلم تھے۔
ایک سینئر ایرانی سفارت کار کے مطابق ادھر علی رضا اکبری کی مختصر گرفتاری اور سرکاری ملازمتوں سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایرانی وزارت خارجہ کے حکام نے اکبری سے مشورہ لینا جاری رکھا، اور اسے ریاستی پالیسیوں اور جوہری مذاکرات کے بارے میں بند کمرے کی ملاقاتوں کے بارے میں آگاہ کرتے رہے۔
اکبری باقاعدگی سے لندن جاتا تھا۔ اس کے بھائی نے بتایا کہ دو ہزار دس میں اسے وہاں دل کا دورہ پڑا اور وہ وہیں ٹھہر گیا۔ جلد ہی اس کی بیوی اور دو بیٹیاں بھی اس کے پاس چلی گئیں، اور بالآخر انہوں نے برطانوی شہریت حاصل کر لی۔ تاہم سینئر حکام سے روابط برقرار رکھنے کے لیے اکبری ایران کا سفر کرتا رہا۔ اعترافی ویڈیوز میں اکبری نے کہا کہ اس نے برطانیہ میں رہنے کے لیے ہارٹ اٹیک کا جھوٹ بولا۔
دو ہزار انیس میں ایک بار پھر اکبری ایران گیا جب، سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سربراہ علی شامخانی نے اسے بتایا کہ ملک کو ایک فوری جوہری اور دفاعی معاملے پر اس کی ضرورت ہے۔ تہران واپسی کے چند روز بعد اکبری کو وزارت انٹیلی جنس میں طلب کیا گیا۔ اس کے بھائی نے بتایا کہ پریشان ہو کر، اس نے علی شامخانی کو فون کیا، جنہوں نے اسے بتایا کہ حکام نے سنا ہے کہ وہ ایم آئی 6 کے ساتھ رابطے میں ہے اور اسے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے تعاون کرنے پر زور دیا۔ کئی روز کی پوچھ گچھ کے بعد اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اکبری کی گرفتاری کے ایک سال بعد دو ہزار بیس میں اسرائیل نے جوہری سائنس دان محسن فخری زادہ کو ایک ریموٹ کنٹرول روبوٹ کے ذریعے اس وقت قتل کر دیا جب وہ تہران کے قریب ایک پہاڑی گاؤں میں اپنے گھر جا رہے تھے۔
اکبری کو وزارت انٹیلی جنس نے حراست میں لیا اور کئی ماہ تک زیر زمین قید تنہائی میں رکھا گیا اور پھر تہران کی ایون جیل میں منتقل کردیا گیا۔ اہل خانہ کو پابند کیا گیا کہ گرفتاری کو خفیہ رکھا جائے۔ ایرانی حکام نے اس کی پھانسی کے بعد سرکاری میڈیا پر کہا کہ وہ دوران قید اکبری کو برطانویوں کے فراہم کردہ کمپیوٹر میں باقاعدگی سے لاگ ان کرنے اور انہیں گمراہ کرنے کے لیے اس کے ہینڈلرز سے بات چیت کراتے رہے۔اس کے برطانوی ہینڈلرز اس بات سے ناواقف تھے کہ وہ گرفتار کیا جاچکا ہے۔ اکبری کی گرفتاری کے تین سال بعد، جب ایران کئی مہینوں سے جاری حکومت مخالف مظاہروں، حکام کے کریک ڈاؤن اور بین الاقوامی پابندیوں کے نئے دور سے دوچار تھا، ایرانی حکام نے اعلان کیا کہ وہ ایک جاسوس تھا۔
جنوری دو ہزار تئیس میں اکبری کی گرفتاری کے منظر عام پر آنے کے چند ہی دن بعد جیل کے محافظوں نے طلوع آفتاب کے وقت اسے ایک دیوار والی بیرونی جگہ پر پہنچایا۔ اس کے گلے میں رسی ڈالی گئی اور چند منٹوں میں اس کا بے جان جسم پھانسی کے تختے سے لٹک رہا تھا۔
اکبری کو تہران کے مضافات میں ایک وسیع قبرستان میں اس کے رشتہ داروں کے علم یا موجودگی کے بغیر دفن کیا گیا۔ اس کے اہل خانہ نے کہا کہ حکام نے انہیں صرف ایک ویڈیو دکھائی جس میں اس کی لاش کو اسلامی رسومات کے مطابق غسل اور تیار کیا گیا تھا۔
برطانیہ نے اکبری کو پھانسی دینے پر تہران کی مذمت کی، اپنے سفیر کو مختصر طور پر واپس بلا لیا اور ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دیں۔
اکبری کے خاندان کو اس کی وفات کے چالیس دن بعد تہران میں ایک یادگاری تقریب منعقد کرنے کی اجازت دی گئی۔ خاندان کے لوگوں نے ایک مسجد میں ایک ہال کرائے پر لیا، سفید پھولوں کی ٹوکریاں ترتیب دیں اور حلوہ کی ٹرے رکھی۔ وہ دیواروں کے ساتھ لگی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ وہ اکبری کے ان دوستوں کا انتظار کررہے تھے جو چالیس سال اس کے ساتھ کام کرتے رہے۔ لیکن کوئی نہیں آیا۔
یہ اسٹوری ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں فرناز فصیحی نے دو برس پہلے لکھی تھی جو ایک ایرانی نژاد امریکی صحافی ہیں۔ موجودہ اسرائیل ایران جنگ کا پس منظر جاننے کے لیے یہ ایک اہم داستان ہے کہ کس طرح ایران کے اپنے ہی اس کی پیٹھ پر چھرا گھونپتے رہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos