بجٹ منظوری کے بعد کامران ٹیسوری کو ہٹانے کی چوتھی کوشش کامیاب ہونے کا امکان ہے- ذرائع ، فائل فوٹو
 بجٹ منظوری کے بعد کامران ٹیسوری کو ہٹانے کی چوتھی کوشش کامیاب ہونے کا امکان ہے- ذرائع ، فائل فوٹو

کیا اس بار کامران ٹیسوری کا پتہ کٹ جائے گا ؟

نمائندہ امت :

گورنر سندھ کامران ٹیسوری کو عہدے سے ہٹانے کے لیے ایک بار پھر سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ اس حوالے سے اس مرتبہ مسلم لیگ نواز کے اندر دبائو بڑھ رہا ہے کہ سندھ میں ٹیسوری کی جگہ نواز لیگ سے تعلق رکھنے والی شخصیت کو گورنر سندھ بنایا جائے۔

کامران ٹیسوری کو ہٹانے کے لئے تین بار پہلے بھی کوششیں کی گئی تھیں، جو ناکام رہیں۔ کامران ٹیسوری کی غیر موجودگی میں اسپیکر سندھ اسمبلی اویس قادر شاہ کے قائم مقام گورنر سندھ بننے کے بعد انہیں گورنر ہائوس کے تمام دفاتر تک رسائی نہ ملنے اور اس سلسلے میں قائم مقام گورنر کی جانب سے عدالت سے رجوع کرنے کی نوبت آنے کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت کی ناراضگی بھی کامران ٹیسوری پر بڑھ گئی ہے۔ قائم مقام گورنر کو گورنر ہائوس کے دفاتر تک مکمل رسائی نہ ملنے پر گورنر سندھ کے پرنسپل سیکریٹری اور کنٹرولر کو حکومت سندھ نے معطل کرنے پر بھی غور شروع کیا تھا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے بیشتر رہنما بھی صرف دکھاوے کی حد تک گورنر کے ساتھ ہیں۔

اکتوبر دو ہزار بائیس میں کامران ٹیسوری نے جب گورنر سندھ کا منصب سنبھالا تو اس وقت سیاسی طور پر یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ پی ڈی ایم اے کی حکومت نے اتحادی کی حیثیت سے متحدہ قومی موومنٹ کو خوش کرنے کے لئے ان کی سفارش پر کامران ٹیسوری کو گورنر سندھ بنایا ہے۔ جبکہ اس وقت بھی متحدہ قومی موومنٹ کے بیشتر رہنما کامران ٹیسوری کے گورنر بننے پر خوش نہیں تھے۔ نواز لیگ کی قیادت کے سامنے ان کا یہ موقف رہا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے کسی سینیئر رہنما کو گورنر بنایا جائے، تاہم وہ یہ بات منوانے میں ناکام رہے۔

تقریباً پونے تین سال سے گورنر سندھ کے منصب پر رہنے والے کامران ٹیسوری کو منصب سے ہٹوانے کے لئے پہلے بھی تین بار کوششیں ہوچکی ہیں۔ اب ایک بار پھر انہیں ہٹانے کے لئے سرگرمیاں شروع کی گئی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بار نواز لیگ کی قیادت پر شدید دبائو ہے کہ سندھ میں پارٹی کو مستحکم کرنے کے لئے کامران ٹیسوری کی جگہ نواز لیگ سے تعلق رکھنے والی شخصیت کو گورنر سندھ بنایا جائے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے آپس میں یہ طے کیا تھا کہ پنجاب اور کے پی کے میں پیپلز پارٹی کی سفارش کردہ شخصیات کو اور سندھ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کے باعث ان صوبوں میں نواز لیگ کی سفارش کردہ شخصیات کو گورنر مقرر کیا جائے گا۔

اسی فارمولے کے تحت پنجاب اور کے پی کے میں پیپلز پارٹی کی سفارش کردہ شخصیات گورنر کے منصب پر موجود ہیں۔ بلوچستان میں نواز لیگ کی سفارش کردہ شخص گورنر بنے ہوئے ہیں۔ اور سندھ کی گورنر شپ بھی نواز لیگ کے حصے میں آتی ہے۔ اس سلسلے میں نواز لیگ سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ سطحی ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے بعض رہنما کامران ٹیسوری سے بھلے خوش نہ ہوں، لیکن پھر بھی نواز لیگ نے انہیں متحدہ قومی موومنٹ کے کوٹے پر ہی گورنر بنایا۔ مذکورہ ذرائع کا کہنا تھا کہ جب یہ حکومت بنی تھی اس وقت صورت حال کچھ اور تھی کیونکہ اتحادی کی حیثیت سے متحدہ قومی موومنٹ کو بھی حکومت میں سے کچھ حصہ دینا تھا اور اس وقت وفاقی کابینہ میں متحدہ کا صرف ایک وزیر تھا، لیکن اب انہیں دو مزید وزارتیں دی گئی ہیں۔ اس لئے گورنر سندھ کا عہدہ اب نواز لیگ کو ملنا چاہیے۔

جہاں تک پیپلز پارٹی کی قیادت کی بات ہے تو شروع سے ہی کامران ٹیسوری انہیں پسند نہیں تھے۔ لیکن ایسی بات بھی نہیں تھی کہ کامران ٹیسوری کے گورنر ہوتے ہوئے حکومت سندھ یا پیپلز پارٹی کی سیاست پر کوئی اثر ہورہا ہو۔ اور ویسے بھی حکومتی امور میں گورنر کا کوئی خاص کردار نہیں ہوتا۔ آئینی طور پر وہ صوبے میں وفاق کا نمائندہ ہی ہوتا ہے۔ اس لئے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے کامران ٹیسوری کو ہٹوانے کے لئے کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ تاہم بیس جون دو ہزار پچیس کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت اندرونی طور پر کامران ٹیسوری سے کافی ناراض نظر آرہی ہے۔

اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کامران ٹیسوری سے ناراضگی کی جہاں تک بات ہے تو اس کے ذمہ دار گورنر سندھ خود ہیں۔ کیونکہ دو جون کو جب وہ حج کی سعادت حاصل کرنے کے لئے سعودی عرب گئے تو آئینی طور پر اسپیکر سندھ اسمبلی گورنر کی موجودگی میں قائم مقام گورنر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہیں۔ لیکن اسپیکر سندھ اسمبلی اویس قادر شاہ قائم مقام گورنر سندھ کی حیثیت سے جب بھی گورنر ہائوس گئے تو انہیں گورنر ہائوس کے تمام دفاتر تک رسائی نہیں دی گئی۔ اور قائم مقام گورنر ایسے ہی گورنر ہائوس کے چکر لگاکر اپنی رہائش گاہ چلے جاتے تھے ۔

باقی اسپیکر کی حیثیت سے سندھ اسمبلی کی عمارت میں ان کا چیمبر تو ویسے ہی موجود ہے۔ لیکن بیس جون کو صورتحال کشیدہ اس وقت ہوئی جب بقول اسپیکر سندھ اسمبلی کے انہوں نے بیس جون کو امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے قائم مقام گورنر کی حیثیت سے گورنر ہائوس میں اجلاس طلب کیا تھا۔ جس میں آئی جی سندھ پولیس، کراچی کے تین ڈی آئی جیز ایسٹ، ویسٹ اور سائوتھ زون کے ساتھ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اور اسپیشل برانچ کے افسران کو شرکت کرنی تھی۔ بقول اسپیکر سندھ اسمبلی کے کہ انہوں نے گورنر ہائوس کے افسران کو جب گورنر کے چیمبر کھولنے کے احکامات دیئے تو انہیں یہ کہا گیا کہ مذکورہ چیمبر کو تالا لگا ہوا ہے۔ اور مذکورہ تالے کی چابیاں گورنر صاحب خود لے گئے ہیں۔ جس کے بعد نوبت یہاں تک آگئی کہ قائم مقام گورنر کو سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرنا پڑا۔

عدالت نے قائم مقام گورنر کی درخواست منظور کرتے ہوئے اسی روز سماعت کی۔ اور عدالت نے یہ احکامات جاری کئے کہ قائم مقام گورنر کو بھی گورنر ہائوس کے تمام دفاتر عملے ، افسران کے متعلق وہی اختیارات حاصل ہوتے ہیں جو گورنر کو حاصل ہیں۔ عدالت نے تالے کھول کر قائم مقام گورنر کو ماسوائے رہائشی عمارتوں کے باقی تمام دفاتر تک رسائی دینے کے احکامات جاری کئے ۔ حکومت سندھ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں حکومت سندھ نے گورنر سندھ کے پرنسپل سیکریٹری ساجد جمال ابڑو اور کنٹرولر کو معطل کرنے پر بھی غور شروع کیا تھا۔ اور یہ معاملہ ناصرف وزیر اعلیٰ سندھ بلکہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت تک بھی پہنچ گیا تھا۔ جس کے بعد اس معاملے کو ٹھنڈا کیا گیا۔ اور اس سلسلے میں گورنر ہائوس کے ترجمان کا یہ بیان سامنے آیا کہ جو کچھ ہوا ہے ، ایسا نہیں تھا ۔ یہ غلط فہمی کی وجہ سے ہوا ہے۔

قائم مقام گورنر صاحب نے امن و امان کے متعلق جو اجلاس بلایا تھا اس حوالے سے آئی جی سندھ پولیس، ڈی آئی جیز اور دیگر افسران گورنر ہائوس کے کانفرنس ہال میں موجود تھے۔ معاملہ بڑھ جانے کے باعث بقول ترجمان کے گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے اپنے پرنسپل سیکریٹری سے رابطہ کرکے انہیں چوبیس گھنٹے میں انکوائری کرکے رپورٹ دینے کے بھی احکامات جاری کئے تھے۔ اور پھر گورنر کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ گورنر ہائوس ہمیشہ عوام کے لئے کھلا ہے۔ اور اویس قادر شاہ بطور اسپیکر اور ذاتی حیثیت میں بھی قابل احترام ہیں۔

کامران ٹیسوری نے تیئیس جون کو وطن واپس آکر اپنے عہدے کا منصب سنبھال لیا ہے۔ جس کے بعد گورنر ہائوس سے جاری کردہ بیان میں یہ کہا گیا کہ قائم مقام گورنر سندھ کو گورنر ہائوس میں پورا پروٹوکول دیا جارہا تھا۔ عدالت نے گورنر ہائوس کا موقف سنے بغیر فیصلے دیا۔ بیان میں یہ بات بھی کہی گئی کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرسکتے ہیں۔ تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ گورنر سندھ کے واپس آنے کے بعد سندھ ہائی کورٹ میں قائم مقام اسپیکر کی جانب سے دائر کردہ درخواست غیر موثر ہوگئی ہے۔ واضح رہے کہ فاضل عدالت نے قائم مقام اسپیکر کی درخواست پر گورنر ہائوس کو تئیس جون تک اپنا جواب جمع کرانے کا کہا تھا۔

اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر ہائوس کسی شخص کی ذاتی ملکیت نہیں۔ بلکہ گورنر کی طرح قائم مقام گورنر کی بھی آئینی حیثیت ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ قائم مقام گورنر کو گورنر ہائوس تک مکمل رسائی نہ دی جائے۔ دوسری جانب گورنر سندھ کو ہٹانے کے لئے نواز لیگ کی قیادت پر دبائو کی جہاں تک بات ہے تو اس کے متعلق وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ اس بار گورنر سندھ کو ہٹانے کی کوششیں کامیاب ہوں گی یا پھر ناکام۔ اس حوالے سے بجٹ منظور ہوجانے کے بعد ہی صورتحال واضح ہوجائے گی۔