فائل فوٹو
فائل فوٹو

کراچی میں مزید زلزلوں کی پیشگوئی

محمد نعمان:

ماہرینِ ارضیات نے کراچی میں مزید زلزلوں کی پیشگوئی کردی ہے۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر، درختوں کی کٹائی اور پانی کیلئے بورنگ نہ روکی گئی تو زلزلوں کی شدت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ساحلی علاقوں میں بھی پانی چوری اور کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر دھڑلے سے جاری ہے۔ جس کی وجہ سے سمندر میں آنے والا زلزلہ سونامی کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔

واضح رہے کہ کراچی کے علاقے ملیر، قائدآباد اور لانڈھی کے علاقوں میں ایک ماہ کے دوران 57 بار زلزلوں کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ یکم جون کو قائد آباد میں 3.6 شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا گیا۔ 2 جون کو گڈاپ ٹاؤن، قائد آباد، ملیر اور ڈی ایچ اے سٹی کے علاقوں میں دس بار زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ جن کی شدت 2.2 سے لیکر 3.2 تک ریکارڈ کی گئی۔ 3 جون کو ملیر، ڈی ایچ اے اور کورنگی سمیت دیگر علاقوں میں 12 بار زلزلوں کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ جن کی شدت 2 سے لیکر 3.4 تک رہی۔ 4 جون کو 4 بار زلزلے کے جھٹکے ملیر اور ڈی ایچ اے کے علاقوں میں 3.1 کی شدت کے زلزلے آئے۔

5 جون کو 2 بار زلزلے کے جھٹکے ملیر کے مختلف علاقوں میں محسوس کیے گئے۔ جن کی شدت 2.1 ریکارڈ کی گئی۔ 6 جون کو 4 بار زلزلے کے جھٹکے کورنگی اور ملیر میں آئے۔ جن کی شدت 2.7 تھی۔ 8 جون کو ملیر میں زلزلے کی شدت 3.5 ریکارڈ کی گئی۔ 9 جون کو ڈی ایچ اے میں 2.1 شدت کا زلزلہ محسوس کیا گیا۔ 12 جون کو 3 زلزلے ملیر کے مختلف علاقوں میں آئے۔ جن کی شدت 2.7 تھی۔ 14 جون کو ملیر میں 3.2 شدت کے زلزلے کے جھٹکے آئے۔ 15 جون کو بھی ملیر میں جھٹکے محسوس ہوئے۔

16 جون کو 5 زلزلے کے جھٹکے ڈی ایچ اے اور ملیر میں محسوس ہوئے۔ جن کی شدت 2.6 ریکارڈ ہوئی۔ 18 جون کو ملیر میں 2.8 کا جھٹکا محسوس ہوا۔ 19 جون کو کورنگی میں 2.2 شدت کا زلزلہ آیا۔ کورنگی اور ملیر 20 جون کو دو بار 2.8 کی شدت کے جھٹکے محسوس ہوئے۔ 21 جون کو ملیر میں 2 بار زلزلے آئے، جن کی شدت 3 ریکارڈ کی گئی۔ 22 جون کو 6 بار زلزلے کے جھٹکے ملیر اور ڈی ایچ اے کے مختلف علاقوں میں ریکارڈ ہوئے۔ جس کی شدت 3.8 ریکارڈ ہوئی۔ اب تک سب سے زیاد 33 زلزلے کے جھٹکے ملیر کے علاقوں میں محسوس ہوئے۔

کراچی میں زلزلوں کی شدت میں اضافہ ہونے پر ’’امت‘‘ کی جانب سے ماہرین ارضیات سے رابطہ کیا گیا تو جیو سائنٹسٹ، سابقہ چیئر پرسن شعبہ جیالوجی فیڈرل اردو یونیورسٹی پروفیسر سیما ناز نے بتایا کہ گزشتہ دنوں سری لنکا کی ایک یونیورسٹی نے رپورٹ جاری کی تھی، کہ کراچی کے علاقے لانڈھی، ملیر 2014ء سے 2020ء کے دوران 15.7سینٹی میٹر دھنس چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان علاقوں کے دھنسنے کی رفتار چینی شہر تیانجن کے بعد دنیا میں تیز ترین ہے۔ اس کی وجہ زیر زمین پانی نکالنا اور نئی بلند عمارتوں کی تعمیر ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ کراچی کا تین ارضی پلیٹوں انڈین، یورشین اور عربین کے باہمی ٹکراؤ کے مقام پر قریب واقع ہونا بھی وجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ لانڈھی اور ملیر کی زمین زیادہ تر ریت اور چکنی مٹی کی زمین ہے۔ یہاں پہلے باغات ہوا کرتے تھے اور زمین میں پانی تھا۔ جس کی وجہ سے یہ زمین نرم ہے۔ اب یہاں کثیر المنزلہ عمارتیں اور آبادی بڑھ گئی ہے۔ جبکہ ان علاقوں میں جگہ جگہ بورنگ کرکے پانی چوری کیا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے زمین کی پلیٹیں اپنی جگہ چھوڑ رہی ہیں۔ زلزلوں کے آنے کی وجہ زمین کی پلیٹیں اوپر نیچے ہونا ہے۔ جب زمین کی پلیٹس اوپر نیچے ہوتی ہیں تو یہ زلزلہ پیدا کرتی ہیں۔

اسی طرح سمندر میں بھی پلیٹیں ہیں۔ وہ ابھی تو فی الحال اپنی جگہ پر ہیں۔ لیکن سمندر کے اطراف بھی بڑی عمارتیں بننا شروع ہوگئی ہیں۔ خدشہ یہی ہے کہ یہ پلیٹوں کو نقصان پہنچائیں گی۔ جس کی وجہ سے سمندری زلزلہ سونامی کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ کراچی کی زمین میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی ہیں۔ جو خطرناک ثابت ہوں گی۔ نرم زمین پر بڑی بڑی عمارتیں بنائی جارہی ہیں۔ عمارتیں بنانے سے قبل کسی قسم کا سروے نہیں ہو رہا اور نہ ہی یہ دیکھا جارہا ہے کہ یہ زمین کتنا وزن برداشت کرسکتی ہے۔

پوری دنیا میں بڑی عمارت بنانے سے پہلے زمین کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں کوئی ایسا نظام ہی موجود نہیں۔ جگہ جگہ بورنگ کرکے پانی چوری کرنا زلزلوں کی شدت میں اضافہ کرتا ہے۔ 1935ء میں کوئٹہ میں زلزلہ آیا تھا۔ جس نے پورے کوئٹہ کو ختم کردیا تھا۔ اس زلزلے کی وجوہات بھی اٹھاکر دیکھ لیں ایک بار۔ ایک سوال پر پروفیسر سیما ناز نے کہا کہ ’’کراچی میں زلزلے آنے کی ایک بڑی وجہ درختوں کی کٹائی بھی ہے۔ درخت زمین میں موجود مٹی کو جکڑ کے رکھتا ہے۔ جب یہ درخت کٹ جاتے ہیں تو مٹی ایک جگہ نہیں رکتی۔ اس سے زمین اپنی جگہ چھوڑ دیتی ہے۔

کراچی کا موسم بدل گیا ہے۔ پہلے اتنی گرمی نہیں ہوتی تھی۔ موسم بدلنے کے ساتھ ساتھ زمین بھی بدلتی جارہی ہے۔ سری لنکا کے سروے کے بعد اور کراچی میں ایک ماہ کے دوران آنے والے زلزلوں کے بعد ہنگامی انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی مون سون سیزن شروع ہوجائے گا۔ آپ پہلے ہی انتظام کرلیں کہ پانی کتنا محفوظ کرنا ہے۔ کیونکہ زمین کو پانی چاہیے۔ حکومت کو درختوں کی کٹائی کے حوالے سے بھی کوئی سخت فیصلہ کرنا ہوگا‘‘۔

دوسری جانب محکمہ موسمیات پاکستان کے نیشنل سیزمک مانیٹرنگ سینٹر نے کہا ہے کہ کراچی میں آنے والے زلزلوں کی نگرانی کی جارہی ہے۔ کراچی میں کم شدت کے زلزلے ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ جن کی شدت 1.8 سے 3.8 کے درمیان رہی ہے۔ ان جھٹکوں کا تعلق لانڈھی فالٹ لائن کی سرگرمی سے جوڑا گیا ہے۔ ان زلزلوں سے کسی بڑے زلزلے کا خطرہ نہیں۔ کراچی انڈین اور پوریشین پلیٹوں کے سنگم پر واقع ہے۔ جہاں دبائو سے جمع ہونے والی توانائی حرکات کا سبب بن سکتی ہے۔