
تحریر:۔سجاد عباسی
سوات کے سانحے میں سیالکوٹ کے ایک ہی خاندان پر لمحوں میں قیامت گزر گئی۔دل دہلا دینے والا یہ منظر کسی فلم یا ڈرامے کا سین نہیں بلکہ جیتے جاگتے انسانوں کے موت کے منہ میں جانے کا بھیانک منظر ہے۔جس طرح مٹھی میں ریت سرکتی ہے، اسی طرح ان کے پاؤں کے نیچے سے زندگی لمحہ لمحہ سرکتی رہی اور وہ ایک ایک کر کے موت کی وادی میں گم ہوتے رہے۔ان میں بچے بھی تھے، خواتین بھی اور شاید ایک دو معمر افراد بھی۔۔ڈیڑھ گھنٹے کا وقت کچھ کم نہیں ہوتا مگر اس دوران ان بے بسوں اور بے کسوں کی چیخ و پکار کا درد محسوس کر کے فضا میں کوئی ہیلی کاپٹر پھڑ پھڑایا، نہ کوئی رسی زندگی کی امید بن کر ہوا میں لٹکی، کوئی اسپیڈ بوٹ حرکت میں آئی نہ وزیراعلی یا گورنر ہاؤس کہ پرسکون ماحول میں کوئی جنبش پیدا ہوئی۔
ایک لمحے کے لیے چشم تصور سے خود کو موت کے اس ٹیلے پر کھڑا محسوس کریں تو امید و بیم کی کیفیت،مدد کے لیے آگے بڑھتے ہاتھوں کے لمس کی طلب،دریائے سوات سے چند فٹ اوپر درد سے ساکت ہوتی دو درجن آنکھوں کے سمندر میں موجزن خوف کی لہریں ، پیاروں کے چہرے، اپنے رب سے زندگی کی بھیک مانگتی دعائیں اور اذکار، ان گنت تشنہ تکمیل حسرت بنتے خوابوں کا ہجوم اور اس سب سے بڑھ کر موت اور حیات کے درمیان فاصلہ بڑھانے کی حسرت اور اس دوران کسی انہونی کی امید کہ شاید وقت کا پہیہ الٹی سمت چل جائے اور وہ لمحہ ہاتھ آ جائے جب ہم نے تفریح کی خاطر خود کو موت کی آغوش میں دے دیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پہاڑی اور شمالی علاقہ جات میں حادثات کا شکار ہونے والے سیاحوں کی اکثریت اپنی کم علمی،متعلقہ علاقے سے عدم واقفیت، جوش جذبات اور سوشل میڈیا پر نمایاں ہونے کے احمقانہ جنون کے ہاتھوں موت کا رزق بنتی ہے مگر کیا پے در پے رونما ہوتے ان واقعات کو روکنے کے لیے حکومتی اور انتظامی سطح پر آج تک کوئی سنجیدہ قدم اٹھایا گیا ہے؟ کوئی پی ڈی ایم اے، کوئی این ڈی ایم اے، کوئی ریسکیو ادارہ حرکت میں آیا یا صرف ان اداروں کے سالانہ فنڈز اور وسائل ہی بڑھتے رہے؟ اسی دریائے سوات پر چند برس پہلے گھنٹوں مدد کے لیے چیخ و پکار کرتے چار یا پانچ دوستوں کے ڈوبنے کا دلدوز منظر ہو یا الائی چیئر لفٹ پر درجن بھر افراد کے پھنسنے کا واقعہ،ایک وقتی ابال کے بعد انتظامیہ کے لیے زندگی "معمول” پر آ جاتی ہے،کیونکہ ہمارے ہاں غریب کی اجتماعی موت بھی غیر معمولی واقعہ نہیں سمجھی جاتی۔ اس کی ایک جھلک آپ کو سانحہ سوات کے حوالے سے درج ذیل خبر میں بھی ملتی ہے جو سینیئر صحافی سید شہاب الدین نے رپورٹ کی ہے۔
"حادثے میں اپنے پیارے کھونے والےسیالکوٹ کے ایک متاثرہ شخص محمد شہباز نے روتے ہوئے کہاکہ یہ جگہ پہلے خشک تھی،کوئی پانی نہیں تھا. ہمارے بچے اس میں سے گزرکر گئے ۔نہ ہوٹل والوں نے کچھ بتایا، نہ انتظامیہ نے خبردار کیا۔ اگر مجھے خطرہ معلوم ہوتا تو اپنے بچوں کو کبھی نہ جانے دیتا۔ میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی بھی جاں بحق ہوگئے ہیں۔ ہمارے خاندان کے دس کے دس افراد اس سانحے کی نذر ہوگئے۔شہباز نے مزید کہا کہ ریسکیو اہلکار موقع پر آئے، رسی باندھی، پھر چلے گئے، اور تقریباً ایک گھنٹے بعد دوبارہ واپس آئے، وہ بھی بغیر کسی خاطرخواہ سامان یا تیاری کے۔ شہباز کے مطابق اگر بروقت اور مؤثر امداد پہنچتی تو کئی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔
اس المناک واقعے کا ایک سفاک پہلو یہ بھی ہے کہ اجتماعی موت کے اس ہولناک منظر کو درجنوں موبائل کیمروں نے فلمبند کیا مگر کسی ویڈیو میں مدد کے لیے آگے بڑھتے ہاتھ دکھائی دئیے، نہ جائے حادثہ کی جانب دوڑتے قدموں کی چاپ سنائی دی۔۔بس چند انسانی ہیولوں کی بے بسی اور بے کسی کا ایک ہی منظر ہے جو دل کو چھیدتا اور روح کو گھائل کرتا جا رہا ہے۔۔۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos