
امجد بٹ ۔ مری
منگول خدوخال اور پُرجلال شخصِیّت والے اِس درویش صِفت دانِشور اور صحافی سے تِین دہائیاں قبل میرا غائبانہ تعارُف اُس وقت ہُوا جب اُنہوں نے بحیثِیت مُدِیرِ اعلیٰ میرا ڈاک میں بھیجا مضمُون "عالمی زُبان اسپرانتو” کا تعارُف رُوزنامہ مرکز” کے نِصف صفحے پر شائع کِیا ۔ موصُوف سے راقم کی پہلی سرسری مُلاقات ڈاکٹر آصِف مَحمُود جاہ کی کِتاب ” اللّٰہ ، بندہ اور کعبہ ” کی تقرِیبِ رُونُمائی کے اِختتام پر اکادمی ادبیات پاکِستان ، اِسلام آباد کے ہال میں 2013ء میں ہُوئی ۔ جِس میں موصُوف نے وزِیرِ مذہبی اُمُور یُوسف خان کے تاخِیر سے آنے پر خُوب کلاس لی تھی ۔ لیکِن باقاعدہ مُلاقات کا موقع قریباً ایک برس کے اِنتظار اور میری دُنیا داری کی نذر ہو گیا ۔
میرے ایک شاگِرد اور بے باک صحافی راشد مُغل نے مُجھے پیغام دِیا کہ جناب جبّار مِرزا صاحب آپ کے شائع شُدہ قُرآنِ کرِیم بزُبانِ اسپرانتو کے حصُول کے لئے بےقرار ہیں ۔
دِل کے آپریشن (بائی پاس) کے باعث کافی عرصہ میری تمام سرگرمِیاں معطّل رہِیں ۔ بِالآخر 5 دسمبر 2024ء کو مِرزا صاحب کی دعوت پر اُن کے دولت خانے واقع(آئی ۔ 10) اِسلام آباد حاضِر ہُوئے ۔ جب اُنہیں ہمارے آنے کا عِلم ہُوا تو گھر کے باہر مرکزی شاہراہ پر سُفید لِباس و میرُون کوٹ پہنے خُود اِستقبال کے لئے تشریف لائے ۔ میں سوچ رہا تھا جِس شخص کو وطنِ عزِیز کے نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدِیر خان فخر سے اپنا دوست کہیں اور وہ خُود اِس ناچِیز کو خُوش آمدِید کہنے کے لئے کھڑے ہوں تو مُجھے یہ سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگی کہ کلامِ پاک کی اشاعت کے صدقے اللّٰہ کرِیم نے یہ عِزّت مُجھے عطا کی تھی ۔ مِرزا صاحب نے جِس گرم جوشی اور محبّت کے ساتھ ہاتھ چُوم کر گلے لگایا اور گھر لے گئے تو میری خُوشی اور فخر دونوں آنکھوں میں مِل کر تیر رہے تھے ۔
گھر کی ہر دِیوار کی المارِیوں میں کِتابیں ہی کِتابیں موجُود تھِیں ۔ پُرتکلّف دعوت کے دوران گِردوپیش میں کُتب کے ساتھ ساتھ آویزاں تصاوِیر کے جائزے سے اندازہ ہُوا کہ اِس گھر پر کِتابوں اور رانی بہن مرحُومہ کی برابر اور کامیاب حُکمرانی رہی ہے ۔ مِرزا صاحب کے مہمان خانے میں ڈاکٹر عبدالقدِیر سمیت مُلک کی نامور ادبی اور دِینی شخصیات تشرِیف لا چُکی ہیں ۔ اُن کے کمرے میں ہر طرف ہر نوع کی ادبی ، سائنسی ، اِسلامی اور تحقِیقی کُتب ، لُغات اور اِنسائیکلوپِیڈیا کے ساتھ ساتھ بِستر کِنارے پُورے خاندان کی تصاوِیر ثابت کر رہی تھِیں کہ کِتابیں اور گھر کا ہر فرد اُن کو کِتنا عزِیز ہے کہ ہر دم اُنہیں آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں ۔ کئی بار ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ یہ گھر اور کُتب خانہ جبّار مِرزا کی چار نسلوں کی تارِیخ اپنے اندر سمیٹے ہُوئے ہے جِسے کوئی جہاں دِیدہ اور صاحبِ عِلم لِکھاری ہی مُرتّب کر سکتا ہے ۔
اُن دِنوں مِرزا صاحب کے سامنے ایک بڑی الماری صِرف ختمِ نبُوّت کے عُنوان پر مُشتمِل سینکڑوں کُتب سے بھری پڑی تھی اور موصُوف اِسی موضُوع پر اپنی نئی کِتاب "تذکرہ مُحافظِینِ ختمِ نبُوّت” مُرتّب کر رہے تھے ۔ مِرزا صاحب نے اپنی تِین عدد کُتب (1. جو ٹُوٹ کے بِکھرا نہِیں ، 2 ۔ پہل اُس نے کی تھی ، 3 ۔ صحافتی یادیں) اعزازی تحرِیر رقم کر کے میری توقِیر میں اِضافہ کِیا ۔
راقم نے اپنی طرف سے تِین عدد کُتب (1 ۔ ترجمہ قُرآنِ کرِیم ، 2 ۔ ملکۂ کوہسار ۔ مری کے اہلِ قلم ، 3 ۔ ایک نادرۂ رُوزگار عالم "علامہ مُضطَر عباسی) اُن کی خِدمت میں پیش کِیں ۔
مِرزا صاحب کے صاحبزادے جناب مُحمّد شہریار مِرزا نے ایک تابع فرمان بیٹے کی طرح دو بار چائے سے ہماری تواضع کی اور تصاوِیر بنائیں ۔ اِن کی چھوٹی صاحبزادی تشریف لائیں اور بہت پُروقار انداز میں سلام کِیا جو شعبۂ تدرِیس کی بھرپُور نُمائندگی کر رہا تھا ۔ بچّوں کی تعلِیم و تربِیّت اور گھر میں موجُود سلِیقے سے رکھی ہر چِیز سے جناب جبّار مِرزا اور محترمہ شائستہ جبّار رانی مرحُومہ کا قریباً چار دہائیوں کا ساتھ واضح طور پر محسُوس ہو رہا تھا ۔ مُختلِف موضُوعات پر تبادلۂ خیال والی اِس بھرپُور نشِست کے بعد گھر واپسی تک سارے سفر کے دوران مِرزا صاحب کی خُوشگوار یادیں ذہن کے پردے پر ایک فِلم کی مانِند چلتی رہِیں ۔
خاکسار اپنی زِندگی میں جناب جبّار مِرزا ، جناب مُحمّد آصِف مِرزا ، جناب پروفیسر طارق حبِیب خان ، جناب راشد عباسی اور جناب سجاد عباسی کے عِلاوہ کِسی ایسے ادیب دانِشور سے نہِیں مِلا جو اپنے اہلِ خانہ سے اِسقدر عِشق کی حد تک محبّت کرتا ہو ، لیکِن جبّار مِرزا اِن سب پر اِس لئے سبقت لے گئے کہ اُنہوں نے اپنی ازواجی یادوں کو کِتابی صُورت میں محفُوظ بھی کر لِیا ۔
جبّار مِرزا اور شائستہ جبّار رانی نے زِندگی کے سرد و گرم زمانہ سے 37 مُشترک بہاریں کشِید کی ہیں ۔ اِن کی بے لوث محبّت ، ازواجی زِندگی کا ایک ایسا تاج محل ہے جو ہر خاندان کے لئے مشعلِ راہ ہے ۔
اہلیہ کی رحلت کے بعد 143 روز تک زِندگی بھر کی ازواجی یادوں کو مُجتمع کر کے نہ صِرف اپنی بلکہ ہم سب کی زِندگیوں کا خُلاصہ تیّار کر لِیا ۔ اِس حوالے سے جناب احمد ندِیم قاسمی صاحب کے دو شعر مُلاحِظہ ہوں :
ترے جمال کا پرتو ہے سب حسِینوں میں
کہاں کہاں تُجھے ڈھُونڈُوں کِدھر کِدھر جاؤں؟
ترے سِوا کوئی شائستہ وفا بھی تو ہو
میں تیرے در سے جو اُٹھُوں تو کِس کے گھر جاؤں ؟
بحیثیت صحافی مِرزا صاحب کو مُتعدّد ذہنی اذِیّتوں سے دوچار ہونا پڑا ۔ اگر اِن حالات میں اہلِیہ اِن کا حوصلہ نہ بڑھاتِیں تو جبّار صاحب عسکری جبر کا مُقابلہ نہ کر پاتے ۔ ایک واقعہ آپ کی نذر ہے :
ایٹمی دھماکوں کے زمانے میں ڈاکٹر عبدالقدِیر کو بطور قومی ہِیرو پیش کرنے پر "نامعلُوم” بہت نالاں تھے ۔ باوردی آ کر ڈاکٹر ثمر مُبارک مند کو ہِیرو بنانے پر اِصرار کرتے ۔ گولی کی زُبان سمجھنے والے کیا جانیں کہ اُستاذ ، شاعر اور ہر شعبے کے راہنُما فِطری اور پیدائشی ہوتے ہیں ، بنائے نہِیں جا سکتے ۔ لہٰذا اُنہیں ایڈِیٹر کے عہدے سے ہٹا کر ، 400 افراد کی کوشِشوں اور محنتوں سے چھپنے والا اخبار ایک سابقہ میجر کے ذریعے خرِید لِیا گیا ۔ نِیز اِسلام آباد کے سیکٹر (جی۔14) اور مِیڈیا ٹاؤن میں صحافیوں کو مِلنے والے پلاٹوں کی فہرِست سے نذِیر ناجی ، رؤف کلاسرا اور جبّار مِرزا و دِیگر کے نام خارج کروا دِیئے گئے ۔
جبّار مِرزا صاحب کو شعبۂ صحافت سے زیادہ محکمہ صحت کے مُلک بھر سے کُچھ ڈاکٹروں اور اُن کے دلالوں نے ذہنی ، جِسمانی اور مالی اذِیّت سے دوچار کِیا تھا جو اپنے کمِیشن کے لئے خُونی رِشتوں کو بھی نہِیں بخشتے ۔ راولپنڈی چاندنی چوک ، باؤ جی بریانی کے قرِیب اور میلوڈی مارکِیٹ ، اِسلام آباد میں بیٹھے ادویات ساز اِداروں اور ڈاکٹروں کے اِن دلالوں کی صحت کے میدان میں مُکمّل اِجارہ داری ہے ۔ اِن کے عِلاوہ کوئی اور اِدارہ چھاتی کے سرطان سے مُتعلّق ادویات اور ٹیسٹوں کا اِختیار نہِیں رکھتا ۔ اگر کوئی کوشِش کرے تو محکمۂ صحت اُن کے لائسینس منسُوخ کر دیتا ہے ۔ کِیُوں کہ افسران اور مُتعلقہ ڈاکٹروں کو کمِیشن کی مد میں ہر ماہ اِضافی تنخواہیں ، خاندان سمیت بیرُون مُلک دورے اور گاڑیوں کے تحائف مِل جاتے ہیں ۔ اِن ساری نعمتوں سے اِستفادہ کرنے والوں میں کہُوٹہ ریسرچ لیبارٹری (KRL) کے ڈاکٹر رِفعت مَحمُود ( بظاہر دِین دار) اور اُن کا عملہ بھی برابر کا شرِیک ہے ۔ 6 لاکھ کا خرچہ بتا کر سفارش کا احسان جتاتے ہُوئے 85 ہزار کے مصارف طے ہوتے ہیں ۔ کینسر کے تِیسرے درجے والی مریضہ کو ٹُوٹا کندھا جوڑنے کے لئے بغیر چیک کِیے مُکمّل صحتمندی اور آپریشن کے قابل کا سرٹِیفِیکیٹ جاری کر دِیا جاتا ہے ۔ کندھے میں ڈالنے کے لئے "ہیمرس” نامی ایک آلہ(سرجِیکل آئٹم) لینے کے لئے اپنے دلال یاسر کے پاس سفارش کر کے بھیجا کہ یہ میرے جاننے والے ہیں ، اِنہیں ڈیڑھ لاکھ کا نہ دینا ، تو ایک لاکھ بِیس ہزار طے ہوتا ہے ۔ یہی "ہیمرس” جب مِرزا صاحب اپنے جاننے والوں سے مع لوازمات صِرف آٹھ ہزار میں لے کر ڈاکٹر رِفعت کے پاس پہنچتے ہیں تو لگانے سے اِنکار کر دِیا جاتا ہے ۔ اِس دوران راولپنڈی جنرل ہسپتال ، سی ایم ایچ اور فوجی فاؤنڈیشن وغیرہ اکثر جگہوں سے رائے لی گئی ۔ آر جی ایچ کے ڈاکٹر عبدالسلام و ڈاکٹر عُمر سے لے کر ڈاکٹر عامر نیازی ، ہولی فیملی کے پروفیسر ڈاکٹر زبیر ، ڈاکٹر زاہد چُغتائی سمیت نُوری لیبارٹری کے خُود ساختہ ڈاکٹر فہِیم ، پاکِستان اِنٹرنیشنل ہسپتال (گِیگا مال کے ساتھ) کے کرنل بِلال اور بریگیڈئیر سُلطان ، بریگیڈئیر جاوید اِقبال اور حکِیم اِنعام ایک ہی تھیلی کے چٹّے بٹّے نِکلتے ہیں ۔ شفاء انٹرنیشنل ہسپتال کے ڈائریکٹر جنرل(سرجری و آرتھوپیڈک مُشِیر) پروفیسر میجر جنرل سُہیل حفِیظ کی نااہلی کے باعث رانی بہن کے جِسم میں کینسر پھیلا ۔
جہاں تک ضِلع قصُور کے زاکر بابا سے لے کر کوٹلی ستیاں کے ناحق خطِیب کرتُوتی اور مِرزا صاحب کی پڑوسن( ہربل رُوحانی مُعالج) مِسز طاہر کا تعلق ہے اِن دھوکے باز فراڈیوں نے بہن شائستہ جبّار کی بِیماری ، مجبُوری ، ضعِیف الاعتقادی اور جبّار مِرزا صاحب کی اِن سے بے پناہ محبّت کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہُوئے متعدّد بار دم کروانے اور "سِسٹم سے گُزرنے” کے نام پر مہِینوں سفر کی اذِیّت اور لاکھوں رُوپے کا نُقصان پہنچایا ۔
اللّٰہ کرِیم کی اِس رنگا رنگ دُنیا میں نیک لوگ بھی موجُود ہیں ۔ سِٹی لیب کے مالک ڈاکٹر جمال ناصر کے والد معرُوف کالم نِگار اور دانِشور جناب نِثار احمد نِثار مِرزا صاحب کے دوست تھے ۔ لہٰذا اِن کے حوالے سے عِلاج کے لئے جہاں جاتے خُوب پذِیرائی اور احترام مِلتا ۔ ڈاکٹر جمال کی تنبِیہ کے باوجُود رانی بہن سرجری اور کیموتھراپی نہ کرانے پر بضِد رہِیں ۔ لہٰذا اُن کے ساتھ ساتھ مِرزا صاحب کو بھی اُن ساری اذِیّتوں کو برداشت کرنا پڑا جو کینسر کے آخری مرحلے والے مرِیضوں کا نصِیب ہوتی ہیں ۔ ڈاکٹر جمال ناصر نے اپنے والدِ گرامی کی دوستی کو نِبھاتے ہُوئے مِرزا صاحب سے ہر قِسم کے ٹیسٹوں کا اڑھائی لاکھ رُوپے کا بِل وصُول نہِیں کِیا ۔
مِرزا صاحب کی اِس کِتاب ” جو ٹُوٹ کے بِکھرا نہِیں ” میں نہ صِرف اپنی اہلِیہ سے محبّتوں کا ایک جہاں آباد ہے بلکہ یہ کِتاب مُعاشرتی ناہموارِیوں اور محکمۂ صحت و اِنسانیت کے مسِیحاؤں کے خِلاف ایک ایف آئی آر ہے جِس کا اِنصاف اور حِساب خُونی اِنقلاب کے بغیر صِرف میدانِ حشر میں مُمکِن ہو گا۔
اگرچہ اِسلام آباد کے قبرستانوں میں5 فُٹ چوڑا اور گیارہ فُٹ لمبا مُفت پلاٹ اِنتہائی کم قِیمت (قریباً ایک ہزار رُوپے) میں یہاں کے شہریوں کا حق ہے لیکِن اگر جگہ کم پڑ جائے تو اِس کا حصُول کِسی اعلیٰ یُونِیورسِٹی میں بغیر میرٹ کے داخلہ لینے سے کم مُشکِل نہِیں اور یہی کُچھ مِرزا صاحب کے ساتھ ہُوا ۔
مِرزا صاحب کی بڑی بیٹی سحرش کی وقت اور تارِیخِ پیدائش 17 جنوری 10 بجے دِن ہے اور یہی تارِیخ و وقت اِن کی اہلِیہ محترمہ کی وفات کا ہے ۔ مِرزا صاحب لِکھتے ہیں ” سوچتا ہُوں اب 17 جنوری کو سحرِش کیا کرے گی اپنی وِلادت کا جشن منایا کرے گی یا اپنی ماما کا ماتم ”
6 جنوری 2019ء کے بعد ہولی فیملی کے ڈاکٹر عادِل شفِیع نے کیموتھراپی کا فیصلہ کِیا لیکِن محترمہ شائستہ رانی کی عزِیزہ نے امرِیکہ سے فُون پر سرجری کے خِلاف بھڑکا کر قصُور کے ایک زاکر بابے کے رُوحانی عِلاج کا راستہ دِکھایا اور پھِر یہ سِلسِلہ چل نِکلا ۔ ہومیو ڈاکٹر سُہیل( سی بلاک ، سٹیلائٹ ٹاؤن) ، چنیوٹ کا حکِیم ناصر ، بشارت علی سیّد کا سوانجنا قہوہ ، دم کرنے والا صُوفی وسِیم و حکِیم مُنِیر ڈار ( ٹنچ بھاٹہ) کے عرقِیات ، مُرشد پِیر گُل شاہ ، اوپن یُونِیورسِٹی کے ڈائریکٹر سلِیم اختر اور اِسلامی یُونِیورسِٹی کے سیّد شکِیل شاہ سب کے سب جھُوٹ کا بازار ثابت ہُوئے ۔
رانی بہن گاڑی اور رائفل چلانے میں مُہارت رکھتی تھِیں ۔ وہ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ، والد کی اِس قدر لاڈلی اور خُوش لِباس تھِیں کہ ہفتے میں دو سُوٹ نئے بنواتِیں ۔ شادی کے بعد مِرزا صاحب نے یہ لاڈ 36 سال ، 9 مہِینے اور 11 دِن تک پندرہ روزہ بُنیادوں پر نِبھایا ۔ رحلت سے ایک روز پہلے بھی نیا سُوٹ لائے تو شائستہ رانی بہن نے درزی کو فُون کر کے بُلایا کہ نیا سُوٹ سِلائی کے لئے لے جائے لیکِن اُن کے نصِیب میں تو اب دائمی سفر کا” سفید سُوٹ ” تھا ۔
ڈاک میں مِرزا صاحب کے نام آنے والی کِتابوں کے تبصرے اور دیباچے پڑھ کر اُنہیں اِن کُتب کا تعارُف کروا دیتِیں ۔ گھر میں موجُود کِتابوں میں سے پسند کی کِتابیں نِکال کر اپنی الگ لائبریری بنا رکھی تھی ۔ دُنیا میں کِتنے اہلِ قلم اور صاحبِ کُتب ہوں گے جِن کو ایسی شرِیکِ حیات نصِیب ہو؟ اِس کِتاب میں رانی بہن سے منسُوب دانائی اور جبّار مِرزا سے محبّت و احترام کی اِتنی باتیں ہیں کہ کِتاب ایک ہی نشِست میں مُطالعے کی مُقتضی ہے ۔ مثلاً قُرآنِ کرِیم کے صفحات اُنگلی کو زُبان سے گِیلا کر کے نہ پلٹے جائیں ۔ مورُوثی جائیداد سے مِلنے والی ساری رقم جبّار مِرزا صاحب کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دِی اور کِسی کے اعتراض پر کہا کہ جبّار ہی میری چیک بُک ہیں ۔
جبّار مِرزا صاحب نے اپنی شادی سے پہلے کے پیار (چوھدرانی) کے مُتعلّق کِتاب ” پہل اُس نے کی تھی ” شائع کی تو رانی بہن نے کہا ” جبّار اِس پہلُو پر غور کریں کہ جب چوھدرانی کے بچّوں اور خاوند کو پتہ چلے گا تو وہ جِیتے جی مر جائے گی” اِس کِتاب کے ردِعمل کے طور پر جبّار صاحب کے نام رانی بہن کا مکتُوب بڑی خاص تحرِیر ہے جِس میں اُن کی ازواجی توحِید پسندی اپنے عُروج پر نظر آتی ہے ۔ اب اِس کِتاب پر قارئِین و ناشرِین کے تبصرے پڑھ کر تو جی چاہ رہا ہے کہ یہ کِتاب چھوڑ کر اُسے پڑھنا شُرُوع کر دُوں بلکہ ایک نُسخہ "اپنی چوھدرانی” کو بھی پیش کرُوں ۔ لیکِن "جو ٹُوٹ کے بِکھرا نہِیں” میں ، مِرزا صاحب کی بھرپُور زِندگی کے تمام رنگ اِنفرادی کشِش کے حامِل ہیں ۔ منگنی سے لے کر رانی بہن کی دائمی جُدائی تک مِرزا صاحب کی زِندگی کِسی فِکشن سے کم نہِیں ۔ ایسی فِلم آنکھوں کے سامنے چلنے لگتی ہے گویا کِسی مُغل شہزادے کی زِندگی کے دیومالائی واقعات دیکھ رہا ہُوں اور اِسی مُغل شہزادے پر بہادر شاہ ظفر کے خاندان کی طرح ایسا وقت بھی آتا ہے کہ بچّے کی داخلہ فِیس جمع کروانے کے لئے اپنے ادیب دوستوں اور ماتحتوں سے باوقار انداز میں قرض لینا پڑتا ہے تو بڑے نامور ادب پرور دوست بھی کِردار کے چھوٹے بلکہ بونے دِکھائی دیتے ہیں یہاں تک کہ داخلہ فِیس کے لئے اُدھار لی ہُوئی رقم بھی "دوستانہ دھوکے” میں لُٹ جاتی ہے لیکِن سیکرٹری ایجُوکیشن بورڈ کی صُورت میں اللّٰہ جی کی غیبی مدد نہ صِرف اِن زخموں کو مُندمِل کر دیتی ہے بلکہ غیر معمُولی سبق بھی سِکھا دیتی ہے ۔
زمانۂ خُوشحالی میں شہریار بیٹے کی پیدائش کی خُوشی میں اہلِیہ کی فرمائش پر مِرزا صاحب نے سارے خاندان کو عُمرے کا تحفہ دِیا ۔ طواف کے دوران شہریار اور انعم بیٹی کو اُٹھائے دیکھ کر ایک فلسطِینی نے اُنہیں مُشکِل میں محسُوس کِیا ۔ مِرزا صاحب نے اُس کی درخواست پر انعم بیٹی کو فلسطِینی کے حوالے کر دِیا کہ طواف کے خاتمے پر مقامِ اِبراہِیم پر واپس لے لیں گے ۔ بظاہر وقتی مُشقّت کم ہُوئی لیکِن طواف کے دوران ہی جب رانی بہن کو ماجرا معلُوم ہُوا تو دھاڑیں مار کے کہنے لگِیں ” شہریار دے دیتے ، آپ نے انعم کِیُوں دِی ؟ بیٹیوں کا مُعاملہ بہت نازُک ہوتا ہے ، میں دس شہریار انعم پر قُربان کر سکتی ہُوں ” طواف کے خاتمے پر فلسطِینی مقامِ اِبراہِیم کے قرِیب انعم کو اُٹھائے ، حسبِ وعدہ کھڑا تھا ۔ بیٹیوں کے لئے ممتا کی ایسی تڑپ ربِ مُتعال مخصُوص رُوحوں کو عطا کرتا ہے ۔
مِرزا صاحب کے اِس جُملے میں پاکِستانِیوں کی اکثریت کی کِتاب دوستی کی تارِیخ موجُود ہے کہ ” یورپ و امرِیکہ میں کِتاب چھپے تو لِکھاری کروڑ پتی ہو جاتا ہے لیکِن پاکِستان میں کِتاب چھپے تو کِتاب لِکھنے والا مقرُوض ہو جاتا ہے” اور اگر جعلی کرامات پر مبنی کِتاب ” فیُوضاتِ قلندر ” چھپے تو وہ بلاوڑہ شریف کے ناحق خطِیب کو ارب پتی بنا دیتی ہے ، اُس کی فرمائشی تقرِیظ ڈاکٹر عبدالقدِیر سے لِکھوانے میں سابق وفاقی وزِیرِ داخلہ ملک نسِیم آہِیر اور جبّار مِرزا صاحب کو نہ چاہتے ہُوئے بھی اپنا کِردار ادا کرنا پڑا ۔ اِس کے باوجُود ناحق خطِیب کی پھُونکیں اور "خصُوصی سِسٹم” رانی بہن کے کینسر کا مداوا نہ کر سکا ۔
یہ کِتاب پڑھ کر سمجھنے میں دیر نہِیں لگتی کہ جناب جبّار مِرزا نے اپنی زِندگی کو محبّتیں بانٹ کر بھرپُور بنایا ہے ۔ اِن کی زِندگی میں ڈاکٹر عبدالقدِیر خان ، جسٹس نذِیر اختر اور ڈاکٹر جمال ناصر ، اللّٰہ کی رحمت بن کر شامِل ہُوے ہیں ۔ زِندگی میں بانٹی گئی محبّتیں مِرزا صاحب نے رانی بہن کی رحلت ، تدفِین ، قُل ، اور قبر پکّی کرنے کے موقع پر اور بیٹی سحرِش فراز کے بےلوث جذبوں کی صُورت میں سمیٹی ہیں ۔
راقم نے یہ کِتاب ایسے کئی مقامات پر ڈبڈباتی آنکھوں کے ساتھ پڑھی ہے ۔ آج کِتنے پڑوسی ایسے ہیں جو مِرزا صاحب کے پڑوسی جناب مُجاہد خان کی طرح ماتم کے دِنوں میں تمام مہمانوں کا ناشتہ اور تِین ماہ تک بجلی و گیس بِل بھی ادا کر دیں ۔ جبّار مِرزا صاحب کی زِندگی خُود داری کے ساتھ دُوسروں کے کام آتے ہُوئے گُزری ہے لہٰذا اِن کے غم اکثر لوگوں نے خُوشی سے بانٹے ہیں اور اِنہیں رانی بہن کے غم سے ٹُوٹ کر بِکھرنے نہیں دِیا ۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos