(ضیاء چترالی)
غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے حوالے سے جاری امریکی و اسرائیلی بیانات کے دوران، امریکی تجاویز کے کچھ نکات سامنے آنے لگے ہیں، جو ثالث ممالک کے ذریعے اسلامی مزاحمتی تحریک کو پیش کیے جانے والے ایک نئے معاہدے کی شکل میں زیر غور ہیں۔ دو روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل” پر اعلان کیا تھا کہ اسرائیل نے غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی کے لیے درکار شرائط کو قبول کر لیا ہے۔ اس معاہدے کی حتمی شکل قطر اور مصر جیسے ثالث ممالک پیش کریں گے۔ مجھے امید ہے کہ مزاحمت اس معاہدے کو قبول کرے گی، کیونکہ یہ اس سے بہتر نہیں ہو گا، بلکہ وقت کے ساتھ مزید سخت ہوتا جائے گا۔
مزاحمت نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ وہ اعلیٰ سطح کی قومی مشاورت کے ذریعے نئی تجاویز کا جائزہ لے رہی ہے، تاکہ ایک ایسا معاہدہ طے پا سکے جو نہ صرف حملوں کا خاتمہ کرے بلکہ اسرائیلی انخلا اور فوری انسانی امداد کو یقینی بنائے۔
امریکی مجوزہ منصوبہ، اہم نکات:
ذرائع کے مطابق، امریکی دستاویز میں درج ذیل نکات شامل ہیں:
1. 60 روزہ جنگ بندی:
ٹرمپ کی ضمانت کے تحت غزہ میں دو ماہ کی جنگ بندی کی جائے گی، جو مکمل طور پر برقرار رکھی جائے گی۔
2. قیدیوں کا تبادلہ:
معاہدے میں 10 اسرائیلی زندہ قیدیوں اور 18 لاشوں کی واپسی کا نظام الاوقات درج ہے، جس کی تفصیل یوں ہے:
* پہلا دن: 8 زندہ قیدی رہا کیے جائیں گے۔
* ساتواں دن: 5 اسرائیلی لاشیں واپس کی جائیں گی۔
* تیسواں دن: مزید 5 لاشیں دی جائیں گی۔
* پچاسواں دن: 2 مزید زندہ قیدی رہا کیے جائیں گے۔
* ساٹھواں دن: آخری 8 لاشیں حوالے کی جائیں گی۔
قیدیوں کی رہائی مکمل طور پر سادگی سے ہو گی، یعنی نہ کوئی سرکاری تقریب ہو گی اور نہ کسی قسم کی نمائش یا جشن۔
3. فوری انسانی امداد:
19 جولائی کو معاہدے کے مطابق، اقوام متحدہ اور ریڈ کریسنٹ (ہلال احمر) کی شراکت سے فوری اور وافر مقدار میں انسانی امداد غزہ میں داخل کی جائے گی۔
4. اسرائیلی فوج کا انخلا:
* 8 قیدیوں کی رہائی کے بعد اسرائیلی افواج شمالی غزہ کے مخصوص علاقوں سے، باہمی رضامندی سے طے شدہ نقشوں کے مطابق، پیچھے ہٹ جائیں گی۔
* ساتواں دن اسرائیلی انخلا جنوبی غزہ کے بعض علاقوں سے بھی عمل میں آئے گا۔
یہ انخلا فنی ٹیموں کی نگرانی میں نقشہ بندی کے ذریعے انجام پائے گا، جنہیں معاہدہ طے پانے کے فوراً بعد فعال کیا جائے گا۔
پائیدار جنگ بندی کے لیے مذاکرات:
معاہدے کے مؤثر ہونے کے بعد، ایک مستقل جنگ بندی کے لیے سنجیدہ مذاکرات کا آغاز ہو گا، جو چار اہم نکات پر مرکوز ہوں گے:
1. باقی ماندہ قیدیوں کا تبادلہ
2. غزہ میں طویل المیعاد سیکورٹی انتظامات
3. "یومِ بعد از جنگ” کی منصوبہ بندی
4. مستقل جنگ بندی کا باضابطہ اعلان
اسیران کی تفصیلات:
* دسواں دن: مزاحمت تمام باقی ماندہ اسرائیلی قیدیوں کے بارے میں معلومات اور میڈیکل رپورٹس فراہم کرے گی، چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ۔
•اسرائیل بھی وہ تمام تفصیلات دے گا جو اس نے 7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ سے گرفتار کیے گئے فلسطینیوں سے متعلق جمع کی ہیں۔
ٹرمپ کی ذاتی ضمانت اور امریکی کردار:
معاہدے میں امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے سنجیدہ عزم کی ضمانت شامل ہے۔ اگر جنگ بندی کے دوران مذاکرات کامیاب رہے تو یہ معاہدہ تنازع کے مستقل خاتمے کی طرف جائے گا۔
معاہدے کا اعلان:
* صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود اس معاہدے کا اعلان کریں گے۔
* امریکہ کی طرف سے جاری مذاکرات کی نگرانی و قیادت امریکی ایلچی اسٹیو ویٹکوف کریں گے۔
مذکورہ معاہدہ اگر کامیاب ہوا تو، جنگ کا مستقل اختتام ممکن ہو گا۔
60 روزہ مہلت کے بعد کیا ہوگا؟
اگر ان 60 دنوں میں فریقین کسی حتمی حل تک نہ پہنچے، مگر مذاکرات سنجیدہ رہے، تو امریکی انتظامیہ اس مدت میں توسیع کی حمایت کرے گی، تاکہ مکمل قیدیوں کی رہائی اور جنگ کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔
نوٹ:
یہ مجوزہ معاہدہ کئی پیچیدہ داخلی و خارجی عوامل پر منحصر ہے اور اس کے کامیاب نفاذ کے لیے دونوں فریقوں کے بھرپور تعاون کے ساتھ ساتھ ثالث ممالک کا کردار فیصلہ کن ہو گا۔ جبکہ دجالی قوت حسب سابق و حسب روایت کسی نہ کسی بہانے معاہدہ توڑ کر دوبارہ حملہ آور ہو سکتی ہے۔ نیز تمام تر ضمانتوں کے باوجود بھی ٹرمپ نہایت ناقابل اعتبار و اعتماد شخص ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونا خام خیالی ہوگا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos