
عوام نامہ ۔۔۔ احمد آفتاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2005ء کے زلزلے کے بعد، ہم نے بہت بڑے پیمانے پر منہدم شدہ عمارتوں سے لوگوں کی بازیابی کے عمل میں حصہ لیا تھا۔ وہ نہایت تکلیف دہ دن تھے اور میں ان دنوں کی یادوں کو یہاں بیان نہیں کرنا چاہتا۔ تاہم آج لیاری، کراچی میں ٹی وی اسکرینز پر جاری امدادی سرگرمیوں کو دیکھا تو اندازہ ہوا کہ ایسا حادثہ ہونے کے بعد، ہمارے ادارے اور عوام ، بنیادی امدادی معلومات اور مہارتوں سے کتنے محروم ہیں۔
اسی بنا پر میں یہاں چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں تاکہ عوام الناس اس بارے میں آگاہ ہوسکیں۔
عوام کو یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ عمارت گرنے کے بعد سب سے پہلے، جو ابتدائی ردعمل دیا جاتا ہے، اس میں جائے حادثہ کا تفصیلی تجزیہ ناگزیر ہوتا ہے۔ اس تجزیے میں سب سے پہلے تو امدادی عملے کی اپنی حفاظت کو یقینی بنانا ضروری ہے کیونکہ وہ نہایت نازک صورتحال میں ہوتے ہیں اور ان سے سب کو اچھی کارکردگی کی توقع ہوتی ہے۔
چنانچہ سب سے پہلے تو وہاں موجود گیس کے ٹوٹے پائپ، بجلی کی تاریں، تیز دھار اشیاء اور عمارت کے غیر مستحکم حصوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
اس کے بعد ملبے کے گرد ایک محفوظ حصار یا علاقہ قائم کیا جاتا ہے تاکہ متاثرین اور ریسکیو عملے دونوں کو خطرات سے بچایا جا سکے۔
پھر عمارت کی حالت کا ہنگامی جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ ان خطرات کا پتا لگایا جاسکے جو ابھی باقی ہیں جیسے کمزور چھت، دیواریں یا دیگر ممکنہ خطرات جن سے امدادی کارکنوں کو خطرہ ہوسکتا ہے۔
اس کے بعد گواہوں یا ایمرجنسی سروسز سے دستیاب معلومات کو استعمال کرتے ہوئے متاثرین کی ابتدائی تعداد کا تعین کیا جاتا ہےاس تجزیے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملبے میں کتنے افراد کے زندہ ہونے کے امکانات ہیں۔ وہ عمارت کے کس حصے میں ہوسکتے ہیں۔ پھر ان ہی اندازوں کی روشنی میں، زندہ افراد کو تلاش کرنے کے لیے آواز سننے کی تکنیک استعمال کی جاتی ہے، جیسے کھٹکھٹانے کی آواز یا چیخنے کی آواز یا کوئی اور آواز۔
تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ مقامِ حادثہ پر مکمل خاموشی ہو اور امدادی کارکنوں کے پاس آواز سننے والے حساس آلات ہوں جو ہلکی سے ہلکی آواز کو بھی پکڑ سکیں۔
ایک اہم بات یہ ہوتی ہے کہ جہاں عمارت گرجائے، وہاں کے لوگ امدادی ٹیموں کو فوری متحرک کریں۔ان میں مختلف ریسکیو ٹیمیں ہوسکتی ہیں جیسے سونگھنے والے کتوں کی ٹیمیں جو ملبے میں دبے لوگوں کے جسم کی بوُ سونگھ سکتے ہیں اور امدادی کارکنوں کو اس جانب متوجہ کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایمرجنسی میڈیکل ریسپانڈرز اور تکنیکی ریسکیو ٹیمیں وغیرہ۔
اس کے ساتھ ساتھ ریسکیو کے لیے درکار بھاری مشینری (کرین، ایکسکیویٹر) اور سرچ اینڈ ریسکیو آپریشنز کے ماہرین کو فوراً بلایا جائے۔
ایک اہم بات یہ ہوتی ہے کہ جائے حادثہ پر فوری طور پر رابطے (کمیونی کیشن) کا نظام قائم ہونا چاہیے تاکہ ریسکیو ٹیموں، کوآرڈینیشن سینٹرز اور میڈیکل یونٹس کے درمیان مؤثر رابطہ قائم ہوں اور اطلاعات کا تیزی سے تبادلہ کرسکیں۔
سرچ اینڈ ریسکیو آپریشنز میں ابتدائی تلاش کے لیے سرچ ڈاگ اور آواز سنی جانے والی ڈیوائسز کو استعمال کرنا چاہیے تاکہ زندہ افراد کو تلاش کیا جا سکے۔ ریسکیو عملے کو ان مقامات پر نشان لگا کر نشاندہی کرنی چاہیے۔ اگلے مرحلے میں امدادی کارکنوں کو چاہیے کہ دستی اور میکانیکی اوزاروں کا استعمال کرتے ہوئے ملبے کو منتقل کریں تاکہ متاثرین کے مقامات کی تصدیق کی جا سکے۔ ملبے کو احتیاط سے منتقل کریں تاکہ مزید نقصان نہ ہو۔ ملبے کی نوعیت اور صورتحال کے مطابق مختلف طریقے استعمال ہوتے ہیں مثلاً شورنگ کے عمل میں ملبے اور عمارت کے ٹوٹے پھوٹے ڈھانچے کو عارضی طور پر مستحکم کیا جاتا ہے تاکہ مزید گرنے یا چوٹوں سے بچا جا سکے۔اس کے علاوہ آری، جیک، کرین اور ہائیڈرولک اوزاروں کا استعمال کرتے ہوئے ملبے کو کاٹنا اور اُٹھانا پڑتا ہے۔
اگلے مرحلے میں، بہت احتیاط کے ساتھ ملبے کو آہستہ آہستہ منتقل کیا جاتا ہے تاکہ متاثرین کو مزید نقصان نہ پہنچے۔ اس دوران تربیت یافتہ سرچ ڈاگز کو ملبے میں دبے ہوئے لوگوں کو تلاش کرنے اور ان کے مقام کی تصدیق کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ کراچی میں سرچ اینڈ ریسکیو والے کتے ہیں یا نہیں، تاہم میں نے انہیں جائے حادثہ پر نہیں دیکھا۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ جو لوگ بھی امدادی سرگرمیاں کررہے ہوں ، ان کے پاس تمام ذاتی حفاظتی سامان ہونا چاہیے ، جیسے ہیلمٹ، دستانے اور اسٹیل ٹو بوُٹس وغیرہ تاکہ وہ لوگ خود کو کسی حادثے اور چوٹ سے بچاسکیں۔
یہ نہایت ضروری ہے کہ میڈیکل ٹیمیں فوری طور پر متاثرین کی حالت کا جائزہ لیں اور ان کا علاج شروع کریں۔ جو شدید زخمی ہیں ان کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا جائے۔ عام طور پر معمولی زخمیوں کے لیے جائے حادثہ کے قریب ہی ایک طبی مرکز قائم کردیا جاتا ہے تاکہ زیادہ انہیں فوری توجہ دی جا سکے۔
ریسکیو کارکن ، امدادی عمل کے دوران باقی عمارت کی مضبوطی اور استحکام کا مسلسل جائزہ لیں۔ اگر عمارت میں مزید گرنے کا خطرہ ہو تو اسے فوری طور پر مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ کمزور ڈھانچوں کو عارضی طور پر مستحکم کرنے کے لیے شورنگ کے اوزار استعمال کریں تاکہ مزید نقصان سے بچا جا سکے۔ ملبے کے اندر خطرناک مواد جیسے ایسبیسٹوس، کیمیکلز یا بوسیدہ تاریں ہو سکتی ہیں۔ ان کا جائزہ لینا چاہیے اور خطرات کو کم کرنے کے لیے مناسب اقدامات ہونے چاہئیں۔
مقامی انتظامیہ کو چاہیے کہ فوری طور پر ایک مرکزی کمانڈ سینٹر قائم کریں جو تمام ریسکیو کوششوں کو کوآرڈینیٹ کرے، بشمول گراؤنڈ ٹیموں سے لے کر میڈیکل سروسز تک۔
ہر متاثرہ فرد کی حالت، مقام اور صورتحال کا ریکارڈ رکھا جائے جس میں بچایا جانے والا فرد، علاج پانے والا یا جاں بحق ہونے والا ہر فرد کی تفصیل موجود ہو۔ عوام کو چاہیے کہ مقامی اداروں جیسے فائر ڈپارٹمنٹس، پولیس اور انجینئرز کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھیں تاکہ آپریشن کی سرعت اور اثرپذیری کو یقینی بنایا جا سکے۔
ریسکیو کے عمل میں جب متاثرین کو بچالیا جائے یا ان کی لاشیں ملیں، تو انہیں شناخت کرنے کے لیے روایتی طریقے استعمال کیے جائیں جیسے ذاتی سامان، جسم پر موجود شناختی نشانات کی تفصیل یا دیگر طریقے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو چاہیے کہ متاثرہ خاندانوں کے افراد کو فوری طور پر اطلاع دیں اور ان کی نفسیاتی معاونت کے لیے اقدامات کریں۔
ہنگامی امداد کا پہلا مرحلہ مکمل ہوجائے تو حکام کو چاہیے کہ ایک ڈی بریفنگ سیشن منعقد کریں تاکہ صورتحال کی تفصیل کے ساتھ ساتھ، ریسکیو آپریشن کی پیش رفت اور بہتری کے شعبوں کا جائزہ لیا جا سکے۔یہ بھی بہت اہم ہے کہ جو لوگ ہنگامی امداد یا ریسکیو کے عمل میں شریک ہوں، ان کو نفسیاتی معاونت فراہم کی جائے تاکہ وہ ذہنی دباؤ اور جذباتی تکالیف سے نمٹ سکیں۔
تمام سرگرمیوں کو دستاویزی شکل دی جائے، بشمول متاثرین کی تفصیلات، میڈیکل اسیسمنٹ اور ریسکیو آپریشنز تاکہ قانونی، طبی اور انشورنس کے مقاصد کے لیے ان معلومات کو استعمال کیا جا سکے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس نوعیت کے حادثات سے سبق سیکھا جائے تاکہ مستقبل میں ان کی روک تھام کی جاسکے۔ لہٰذا عوام اور حکام کو چاہیے کہ آپریشن کے بعد، مکمل جائزہ لیں تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ کیا چیزیں اچھی طرح سے ہوئیں اور کہاں بہتری کی ضرورت ہے۔
حاصل کردہ تجربات کی بنیاد پر ریسکیو ٹیموں کی تربیت کو مزید بہتر بنایا جائے۔ دستیاب معلومات اور تجزیے کی روشنی میں مقامی کمیونٹیز کو پرانی عمارتوں کے خطرات سے آگاہ کیا جائے اور ان کی حفاظت کے لیے بہتر اقدامات پر زور دیا جائے۔
عوام کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اگر ایک عماری گری ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ اطراف کی دیگر عمارتیں بھی خطرے سے دوچار ہیں اور پرانی عمارتوں کے ڈھانچے کمزور ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے ملبہ غیر متوقع طور پر گر سکتا ہے۔
پرانی عمارتوں میں ایسپیسٹوس، سیسہ یا پرانی بجلی کی تاریں جیسے خطرناک مواد ہو سکتے ہیں جو ریسکیو ورکرز اور متاثرین کے لیے اضافی خطرہ بن سکتے ہیں۔
پرانی عمارتیں اکثر غیر متوقع طریقے سے گر سکتی ہیں، جس کی وجہ سے ریسکیو کے دوران مزید خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس بات کو اچھی طرح ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
مجھے امید ہے کہ عوام نامہ کے دوست اس تحریر کو توجہ سے پڑھیں گے اور آگے پہنچائیں گے کیونکہ پاکستان میں سرچ اینڈ ریسکیو کی اہمیت دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور عوام کو اس ضمن میں باخبر اور تربیت یافتہ ضرور ہونا چاہیے۔ ریسکیو آپریشنز انتہائی پیچیدہ اور چیلنجنگ ہوتے ہیں، خاص طور پر پرانی عمارتوں کے گرنے کے بعد۔
ان آپریشنز کو محفوظ اور مؤثر طریقے سے چلانے کے لیے ایس او پیز کی پیروی ضروری ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ زندگیاں بچائی جا سکیں۔
اللہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین
عوام نامہ ۔۔۔ احمد آفتاب
4 جولائی 2025ء
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos