ضمیر کے اسیر، پروفیسر وارث میر

تحریر: ہما میر

معروف لکھاری دانشور اور صحافی پروفیسر وارث میر کی منتخب تحریروں پر مبنی”ضمیر کے اسیر“ نامی مجموعہ مضامین محض ایک کتاب نہیں بلکہ اس نظریاتی جنگ کی داستان بھی ہے جو جنرل ضیاء الحق کے بدترین مارشل لاء دور میں لڑی گئی۔
”ضمیر کے اسیر“ پروفیسر وارث میر کی ان منتخب تحریروں کا مجموعہ ہے جو انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے بدترین مارشل لاء کے دوران روزنامہ جنگ اور نوائے وقت کے لیے لکھیں۔جنرل ضیاء الحق کے دورِ آمریت میں سچ بولنا ایک سنگین جرم تھا، لیکن وارث میر نے اپنی تحریروں کے ذریعے صدائے حق بلند کی۔ وہ سچ لکھنے اور لوگوں کی آواز بن کر بولنے کا مشن لے کر چلے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جنرل ضیاء الحق نے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کو برطرف کر کے مارشل لاء نافذ کیا اور پھر انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا۔ تب سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد تھی، اخبارات و رسائل سینسرشپ کا شکار تھے، باضمیر صحافیوں کو کوڑے مارے جاتے تھے اور بے ضمیروں کو معتبر مانا جاتا تھا۔ درباری صحافیوں کو پالنے اور خوشامدی تحریریں لکھوانے کا حکومتی عمل اپنے عروج پر تھا، یہ وہ تاریک زمانہ تھا جب مذہب کے نام پر ایک خاص قسم کی ملائیت کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ اجتہاد اور حقوقِ نسواں کی بات کرنے والوں پر کفر کے فتوے عائد کیے جا رہے تھے، لیکن وارث میر تمام تر دباؤ کے باوجود کلمہ حق کہنے سے باز نہیں آئے۔
”ضمیر کے اسیر“نامی کتاب میں پڑھنے والوں کو جگہ جگہ حریت ِ فکر کے علمبرداروں سے ملنے کا موقع ملے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پروفیسر وارث میر خود بھی حریت ِ فکر کے راہی تھے اور فکر اور سوچ پر پہرے کسی بھی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ کتاب کے مضامین قاری کو ایک ایسے صحافی اور استاد کی تصویر بھی دکھاتے ہیں جو نہ صرف وقت کے حکمرانوں سے سوال کرتا ہے بلکہ معاشرتی بے حسی اور نظریاتی تضادات کو بھی پوری دلیری سے بے نقاب کرتا ہے۔ پروفیسر وارث میر کا ماننا تھا کہ آزادی اظہار ہر انسان کا نہ صرف بنیادی آئینی حق ہے بلکہ یہ انسانی شعور اور اجتماعی ارتقاء کی بنیاد بھی ہے۔ پروفیسر وارث میر کے نزدیک علم صرف معلومات کا ذخیرہ نہیں بلکہ سچ کی تلاش، ضمیر کی آواز اور انسان کے باطن کی آزادی کا نام ہے۔
پروفیسر وارث میر کا اسلوب بیان رواں اور تحقیق دلیل سے بھرپور اور مزین ہے۔ وہ جذبات کو منطق سے جوڑ کر ایک ایسا علمی بیانیہ قائم کرتے ہیں، جو قاری کے ذہن اور دل دونوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ان کی تحریروں میں نہ صرف صداقت بلکہ بے باکی اور جرآت بھی نظر آتی ہے۔”ضمیر کے اسیر“ نامی کتاب ایک ایسے دور کا فکری منظر نامہ بھی پیش کرتی ہے جب پاکستان فوجی آمریت کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا۔ وارث میر کی تحریریں نہ صرف اس دور آمریت کا احاطہ کرتی ہیں بلکہ مستقبل کے حالات پر بھی ایک تنقیدی اور فکری روشنی ڈالتی ہیں۔
9 جولائی 1987ء کو صرف 48 برس کی عمر میں انتقال کر جانے والے پروفیسر وارث میر کو ان کی جمہوری اور صحافتی جدوجہد کے اعتراف میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے 1988ء میں انسانی حقوق کے خصوصی ایوارڈ (بعد از مرگ) سے نوازا۔ 2012ء میں حکومت ِپاکستان نے وارث میر کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں انہیں پاکستان کے اعلیٰ ترین سول اعزاز ہلالِ امتیاز (بعد از مرگ) سے نوازا۔ 2012ء میں ہی بنگلہ دیش کی حکومت نے مشرقی پاکستان میں جنرل یحییٰ خان کے فوجی ایکشن اور بنگالیوں کے قتل ِعام کے خلاف آواز بلند کرنے پر وارث میر کو فرینڈز آف بنگلہ دیش لبریشن وار نامی اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازا۔ 2013ء میں حکومت ِ پنجاب نے وارث میر کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے گزرنے والے نیو کیمپس انڈر پاس کو پروفیسر وارث میر انڈر پاس کا نام دے دیا جو کہ جامعہ پنجاب میں ان کی آخری آرامگاہ سے چند فرلانگ کے فاصلے پر واقع ہے۔ اسی برس وفاقی حکومت نے جامعہ پنجاب کے شعبہ صحافت میں پروفیسر وارث میر چیئر کے قیام کا اعلان بھی کیا تاکہ ان کی سوچ اور فکر کی ترویج کی جا سکے جو ان کی تحریروں کی صورت میں آج بھی زندہ ہے۔