فائل فوٹو
فائل فوٹو

’’ٹک ٹاک‘‘ گمراہی اور لاقانونیت کا پلیٹ فارم قرار

نواز طاہر:

سوشل میڈیا جہاں معلومات اور تفریح کا ذریعہ ہے۔ وہیں اس کے منفی استعمال سے معاشرتی خرابیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور خاص کر اس سے نوجوان نسل میں گمراہی اور لاقانونیت بڑھ رہی ہے۔ سوشل میڈیا کا ٹک ٹاک پلیٹ فارم اس میں کلیدی کردار کا حامل قرار دیا جارہا ہے۔ لیکن سیاسی و حکومتی شخصیات کی طرف سے پذیرائی ملنے، قانون سخت نہ ہونے اور اس پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی بھی ہونے لگی ہے۔

لاہور میں دو معروف ٹک ٹاکر رجب بٹ اور کاشف ضمیر معاشرتی خرابیوں میں مرکزی کردار کے طور پر ابھرے ہیں۔ جن کے خلاف قانونی کارروائی شروع ہوتے ہی سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ کھڑا کردیا جاتا ہے۔ چند روز قبل گرفتار ہونے والے ٹک ٹاکرکاشف ضمیر بھی عدالت سے ضمانت حاصل کرکے آزادی حاصل کرچکے ہیں۔ اس سے پہلے رجب بٹ کیخلاف بھی مقدمات بنے تو ضمانت مل گئی۔ جب رجب بٹ کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور ضمانت پر رہائی عمل میں آئی تو کچھ ہی روز بعد رجب بٹ کو اسپیکر پنجاب اسمبلی کی طرف سے سوشل میڈیا خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اخلاقیات سے عاری ٹک ٹاک نے سب سے زیادہ بارہ سے پینتیس سال کے افراد کو ہٹ کیا ہے کہ اس کے زیادہ تر فالورز اسی عمر کے افراد ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں گنڈاسا اور اسٹین گن اور پھر کلاشنکوف اسکرین پر آنے سے جس طرح جرائم کی طرف رحجان بڑھا تھا۔ ویسا ہی کردار یہ سوشل میڈیا سرگرمیاں ادا کر رہی ہیں۔

ایک ریٹائرڈ ڈی ایس پی نے اس رحجان پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران بچوں میں منفی سوچ اور اس کے نتیجے میں قتل کی وارداتوں اور خودکشی کے واقعات کی وجہ پب جی گیم بنی تھی۔ ایسے ہی ٹک ٹاک ویڈیوز نئی نسل میں اسلحے کی نمائش، جعلی نمودونمائش اور لاقانونیت کے فروغ کیلئے کردار ادا کررہی ہیں۔ جن سے نمٹنے اور نئی نسل کو بچانے کیلئے قانون سازی اور سخت سزائوں کی اشد ضرورت ہے۔ خاص طور پر ایسے حالات میں جبکہ اس سے بچوں کے ساتھ ساتھ بچیوں کا اخلاق بھی متاثر ہو رہا ہے۔

یاد رہے کہ ٹک ٹاکر رجب بٹ اور کاشف ضمیر کے خلاف لاقانونیت کے اور کچھ دیگر ٹک ٹاکرز کے خلاف جنسی استحصال کے مقدمات بھی درج ہوچکے ہیں۔ لیکن تاحال کوئی ایک مقدمہ بھی واضح ثبوت ہونے کے باوجود سزا سنائے جانے تک منطقی انجام کو نہیں پہنچا۔ جس کی ایک وجہ ایسے عناصر کے پاس مختصر عرصے کے دوران ہونے والی دولت کی ریل پیل ہے۔ لاہور کے ٹک ٹاکرز اور خاص طور پر کاشف ضمیر کا ایسا مواد بھی سامنے آچکا ہے، جس میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کے بارے میں بد زبانی کی گئی اور دھمکیاں بھی دی گئیں۔

ان میں سے ایک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور صحافی رہنما خرم پاشا نے بتایا کہ ان کے بارے میں اس لئے کاشف ضمیر کی طرف سے غلیظ زبان اور منفی الفاظ استعمال کیے گئے کہ انہوں نے کاشف ضمیر کے فراڈ اور اوچھے ہتھکنڈے بے نقاب کیے تھے اور بتایا تھا کہ وہ بھاری بھرکم سونے کی جن زنجیروں کی نمائش کرتا ہے، درحقیقت وہ اصلی سونا نہیں۔ بلکہ جس زرگر سے وہ زنجیروں پر سونے کا پانی چڑھواتا ہے، وہ اس کا بھی نادہندہ ہے اور قیمتی گاڑیاں بھی کرائے کی استعمال کرتا ہے۔ جبکہ نادہندہ ہونے پر بھی اس کے خلاف مقدمات درج ہوئے۔

سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور صحافی رہنما شاداب ریاض نے منفی استعمال کیے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال اپنی جگہ، لیکن جو ٹک ٹاکرز معاشرتی خرابیوں میں فروغ کا موجب بن رہے ہیں، ان کی پذیرائی سوشل میڈیا پر ہوتی ہے۔ اگر ان کے خلاف قانونی کارروائی ہوتی ہے تو بھی ایک خاص سوشل میڈیا طبقہ ان کی تشہیر کرکے ان کی شہرت بڑھاتا ہے۔ جہاں تک ان کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں پر مقدمات درج ہونے کے بعد جلد رہائی کا معاملہ ہے تو اس کی وجہ قانون میں ضمانت کی گنجائش ہونا ہے۔ مقدمات ایسی دفعات کے تحت درج ہوتے ہیں، جن میں عدالت سے آسانی کے ساتھ ضمانت مل جاتی ہے۔

کاشف ضمیر کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اس کے فراڈ تو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ان میں سب سے معروف ترک ڈرامے کے کردار ارطغرل غازی کو مدعو کرنا ہے۔ ضمانت کے مقدمات میں سے ایک حالیہ مقدمہ گن مینوں کے ساتھ جدید اسلحے کی نمائش کا بھی تھا۔ لیکن اس میں بھی عدالت سے ضمانت مل گئی۔ عدالتیں ایسے عناصر کے بارے میں تب تک کچھ نہیں کرسکتیں، جب تک کہ قانون سخت نہیں ہوتا۔

خرم پاشا کا کہنا ہے کہ پولیس سے زیادہ معاملہ ایف آئی اے اور سائبر کرائمز کا ہے۔ پولیس تو اسلحے کی نمائش وغیرہ پر ہی مقدمہ درج کرتی ہے یا کسی کو دھمکیاں دینے یا فراڈ جیسے واقعات پر کارروائی کرسکتی ہے۔ لیکن معاشری برائیوں کے فروغ جیسے اقدامات پر کارروائی ایف آئی اے سائبر کرائمز اور پی ٹی اے کے دائرہ اختیار میں ہے۔ ان کے مطابق یہ عناصر پاکستان کے بجائے اپنے اکائونٹ بیرون ملک سے غیر ملکی سموں کے ذریعے آپریٹ کرتے ہیں۔ یہ کام وفاقی اداروں کا ہے اور قانون سازی کا بھی متقاضی ہے۔ یہ مسئلہ صرف لاہور، کراچی یا کسی ایک دو شہر نہیں پورے پاکستان کا مسئلہ ہے اور اسی ٹک ٹاک کی وجہ سے فراڈ کے واقعات بھی ہورہے ہیں اور قتل کے واقعات بھی سامنے کے سامنے ہیں۔