میگزین رپورٹ :
بھارتی ریاست بہار کو ’’ڈائنوں‘‘ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں بہار کے ایک گائوں میں ڈائن ہونے کے شبہے پر خاندان کے پانچ افراد کو زندہ جلانے کے واقعے کے بعد بھارتی میڈیا میں جادو گرنیوں کے موضوع پر نئی بحث چھڑچکی ہے۔
بہار ٹرسٹ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق 1999ء میں بھارتی سپریم کورٹ سے نافذ کردہ پریونشن آف وِچ پریکٹس ایکٹ کے باوجود اب تک 25 ہزار سے زیادہ خواتین کو ڈائن قرار دے کر قتل کیا جا چکا ہے۔ جبکہ بہار میں ڈائن قرار دی گئیں کم از کم 75 ہزار خواتین مسلسل خطرات میں زندگی گزار رہی ہیں۔ ان پر درجنوں بار حملے کی کوششیں کی جا چکی ہیں۔ زندہ بچ جانے والیی خواتین اکثر گہرے نفسیاتی صدمے کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ان کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ سر منڈوادیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ انہیں برہنہ کرکے غلاظت کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
سروے کے مطابق بہار کے 114 گاؤں میں جو خواتین جادو ٹونے کے الزامات کی وجہ سے تشدد کا شکار ہوئیں، ان کی عمریں 46 سے 66 سال کے درمیان تھیں۔ ان میں سے 97 فیصد کا تعلق دلت سمیت پسماندہ ذاتوں سے تھا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ بھارت میں اعلیٰ ذات کی خواتین بھی جادو ٹونے میں ملوث پائی گئیں۔ لیکن ان پر الزام لگانے کی جرأت کوئی نہیں کرتا۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ صرف 31 فیصد متاثرین نے پولیس یا پنچایتوں کو اپنے کیس رپورٹ کیے اور ان میں سے 62 فیصد نے کوئی حل نہیں پایا۔ مزید یہ کہ سروے کیے گئے گاؤں کے 85 فیصد رہنما 1999ء کے ایکٹ سے لاعلم تھے۔
دوسری جانب این سی آر بی کی کرائم ان انڈیا کی رپورٹ کے مطابق رواں برس کے ابتدائی چھ ماہ میں جادو ٹونے کے شبہے میں اٹھارہ افراد کو قتل کیا گیا اور ان میں سے بیشتر واقعات بہار میں ہی رپورٹ ہوئے ہیں۔ جبکہ گزشتہ برس ہندوستان بھر میں جادو ٹونے سے متعلق قتل میں تقریباً 85 لوگ مارے گئے تھے۔ بہار کے بعد سب سے زیادہ کیسز ریاست جھار کھنڈ میں رپورٹ ہوئے۔ جبکہ اڑیسہ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بھی تواتر سے ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں۔
بھارتی سماجی کارکن لکشمی ساہو کا کہنا ہے کہ جس خاتون پر ایک بار ڈائن کا لیبل لگ جاتا ہے۔ اسے حکومت بھی مدد فراہم نہیں کرتی۔ تشدد کا شکار خواتین کو اسپتال لے جانا دور کی بات، انہیں ہاتھ لگانے کیلئے بھی کوئی تیار نہیں ہوتا۔ لکشمی ساہو کے بقول رواں برس کے آغاز میں جھارکھنڈ میں پانچ خواتین کو جادو ٹونے کے شبہے میں قتل کردیا گیا تھا۔ ہلاک ہونے والی ایک خاتون فوجی جوان کی ماں تھی، جو سرحد پر ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔
سروے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈائن ہونے کے الزامات سسرال، پڑوسیوں اور مذہبی بنیاد پر لگائے جاتے ہیں۔ ایک بار جب الزامات زور پکڑتے ہیں تو پڑوسی اور بالآخر پورا گاؤں اس کو ہلاک کرنے پر تل جاتا ہے۔ دریں اثنا گزشتہ دنوں پولیس نے مشرقی ہندوستان کی ریاست بہار میں جادوگرنی کے الزام پر ایک خاندان کے پانچ افراد کو بے دردی سے قتل کرنے کے شبہے میں تین افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
پولیس نے بتایا کہ متاثرین کو گلے کاٹ کر قتل کیا گیا اور ان کی لاشوں کو اتوار کی رات تیمٹا گاؤں میں درجنوں رہائشیوں کے ہجوم نے جلا دیا۔ پرنیہ ضلع کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پرمود کمار منڈل نے سی بی ایس نیوز کو بتایا اب تک تین ملزمان گرفتار کیے گئے ہیں۔ متاثرین پر جادو ٹونے کا الزام تھا۔ ان کا ایک فرد گھر پر اس وقت موجود نہیں تھا۔ بعد میں
اس نے پولیس کو بتایا کہ تقریباً 50 لوگوں کے ہجوم نے رات تقریباً 10 بجے ان کے گھر پر دھاوا بولا۔ رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ گاؤں میں ایک پراسرار بیماری کی وجہ سے پیش آیا۔ جو اس خاندان کے قتل کا باعث بنا۔ پرنیہ میں پولیس سپرنٹنڈنٹ سویٹی سہراوت کا کہنا ہے کہ گاؤں کے بہت سے رہائشیوں پر حملے میں ملوث ہونے کا شبہ تھا اور بہت سے رہائشی، حملہ آوروں کی شناخت میں پولیس کی مدد نہیں کر رہے تھے۔ 23 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
مرکزی ملزم پہلے ہی پولیس کے شکنجے میں ہے۔ یہ واقعہ سات جولائی کو پیش آیا۔ پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے، اور آخری رسومات ادا کر دی گئی ہیں۔ للت کمار، جن کے والد، والدہ، بھائی، بھابھی اور دادی کو مبینہ طور پر قتل کیا گیا تھا، نے کہا کہ وہ یقین نہیں کر سکتے کہ کیا ہوا ہے۔ اس کے بھائی نے رات کو فون کیا تھا کہ گھر والوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے، لیکن وہ اس رات واپس نہیں آ سکا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos