ای ویزا کی مشکوک درخواستیں منظور کرنے میں وزارت داخلہ و خارجہ کے مختلف سیکشنز کے بعض افسران بھی ملوث نکلے، فائل فوٹو
ای ویزا کی مشکوک درخواستیں منظور کرنے میں وزارت داخلہ و خارجہ کے مختلف سیکشنز کے بعض افسران بھی ملوث نکلے، فائل فوٹو

افغان باشندوں کو غیر قانونی ویزے جاری کرنے والا نیٹ ورک بے نقاب

عمران خان :

ای ویزا اسکینڈل کی تحقیقات میں ایف آئی اے نے افغان شہریوں کو غیرقانونی ویزے جاری کرنے والے منظم نیٹ ورک کا سراغ لگا لیا، جس میں وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کے مختلف سیکشنز کے افسران اور اہلکار پوری طرح سے ملوث پائے گئے ہیں۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ ان افسران اور اہلکاروں نے طویل عرصے تک ایجنٹوں سے رابطے رکھ کر بھاری رشوت کے عوض افغان باشندوں پاکستان کی اہم قومی دستاویزات جاری کرنے میں معاونت کی ہے۔ مذکورہ افسران اور اہلکاروں کے خلاف خفیہ تحقیقات میں ان کے بینک اکائونٹس ، موبائل فونز ڈیٹا اوراثاثوں کی چھان بین کی جا رہی ہے۔

اسلام آباد میں موجود اہم ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے افغان شہریوں کو غیرقانونی طور پر ای ویزے جاری کرنے والے ایک منظم نیٹ ورک کا سراغ لگا لیا ہے، جس میں وزارتِ داخلہ اور وزارتِ خارجہ کے بعض اہلکاروں کی مبینہ طور پر براہِ راست مداخلت سامنے آئی ہے۔ اس اسکینڈل کے انکشاف نے نہ صرف ملکی امیگریشن نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، بلکہ اعلیٰ حکومتی اداروں میں موجود بدعنوان عناصر کی نشاندہی بھی کر دی ہے۔

ذرائع کے بقول ایف آئی اے کے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کو کچھ عرصے سے ایسی شکایات موصول ہو رہی تھیں کہ افغان شہریوں کو پاکستان میں قیام کے لیے ای ویزے غیرقانونی طریقے سے جاری کیے جا رہے ہیں۔ تحقیقات کے بعد ادارے نے ابتدائی طور پر دو افغان شہریوں عاطف اور احمد زیب کو گرفتار کیا جو بغیر کسی قانونی اجازت کے پاکستان میں مقیم تھے۔ ان دونوں افراد سے تفتیش کے دوران ایسے انکشافات سامنے آئے جنہوں نے تحقیقاتی اداروں کو چونکا دیا۔ ان افغان باشندوں نے بتایا کہ مخصوص سرکاری اہلکاروں اور پرائیویٹ ایجنٹس کے ذریعے نہ صرف ویزے حاصل کیے گئے، بلکہ اس کے لیے باقاعدہ مالی لین دین بھی ہوا۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے نے اس اہم پیشرفت کے بعد دو مزید پاکستانی افراد کو گرفتار کیا جن میں ایک نادر رحیم شامل ہے ،جو ایک سرکاری ادارے کے پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں ملازم ہے۔ نادر رحیم پر الزام ہے کہ وہ سرکاری حیثیت اور اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ویزا فراڈ میں ملوث رہا۔ دوسرا گرفتار شخص عزیز اللہ آفریدی ہے جس کے ذاتی بینک اکائونٹ سے غیرقانونی ویزا حاصل کرنے والے افغان باشندوں کی رقوم کی منتقلی ہوئی۔ مالیاتی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ عزیز اللہ آفریدی کے اکائونٹ میں حالیہ مہینوں میں لاکھوں روپے کی ایسی ٹرانزیکشنز ہوئیں جن کی کوئی واضح قانونی توجیہ نہیں دی جا سکی۔

تحقیقات کے دوران اس اسکینڈل کے دو اہم مرکزی کرداروں کا بھی انکشاف ہوا ہے جنہیں ایف آئی اے نے تاحال گرفتار نہیں کیا، لیکن ان کی تلاش جاری ہے۔ ان میں پہلا نام سمیع اللہ آفریدی کا ہے، جو وزارتِ خارجہ میں خدمات انجام دے رہا ہے اور اس پر جعلی یا مشکوک ویزا درخواستوں کی منظوری دینے کا الزام ہے۔ دوسرا نام ملک منیب کا ہے جو ایک پرائیویٹ ایجنٹ ہے اور مبینہ طور پر اس غیرقانونی نیٹ ورک میں سہولت کار کے طور پر سرگرم رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ملک منیب ہی وہ شخص ہے جو افغان شہریوں سے پیسے لے کر انہیں جعلی ویزے دلوانے کا بندوبست کرتا تھا۔

تحقیقات کا دائرہ مزید بڑھنے پر یہ بھی سامنے آیا کہ وزارتِ داخلہ کے بعض اہلکاروں نے ضابطوں اور اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مشکوک ویزا درخواستوں کو نہ صرف منظور کیا، بلکہ ان کے پراسیسنگ مراحل میں بھی سہولت فراہم کی۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق ان اہلکاروں نے باقاعدہ سرکاری نظام کو بائی پاس کرتے ہوئے افغان باشندوں کو ویزے جاری کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مزید تحقیقات میں عزیز اللہ آفریدی کے بینک ریکارڈ سے حاصل ہونے والے مالیاتی شواہد نے اس نیٹ ورک کی وسعت کو مزید بے نقاب کر دیا ہے۔ ادارے نے ان تمام ٹرانزیکشنز کو قبضے میں لے کر ان کی بنیاد پر مزید افراد کی شناخت اور گرفتاری کا عمل شروع کر دیا ہے۔

اسی دوران ایف آئی اے نے وزارتِ خارجہ اور وزارتِ داخلہ کے آن لائن ویزا سسٹم کا مکمل ڈیجیٹل آڈٹ بھی شروع کر دیا ہے، جس میں لاگ ان ایکٹیویٹی، آئی پی ایڈریسز اور ای میل ریکارڈز کو کھنگالا جا رہا ہے۔ تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کن کن افسران نے کن وقتوں میں ای ویزا کے نظام کو استعمال کیا اور کیسے ایف آئی اے نے اس اسکینڈل کو محض انفرادی بدعنوانی کا معاملہ قرار دینے کے بجائے اسے ایک ’’منظم نیٹ ورک‘‘ کی کاروائی قرار دیا ہے جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ریاستی نظام کو استعمال کرتے ہوئے قومی سلامتی کو دائو پر لگا رہا تھا۔

ادارے نے گزشتہ ایک سال کے دوران جاری کیے گئے تمام ای ویزوں کا ازسرنو جائزہ لینا شروع کر دیا ہے تاکہ کسی اور مشکوک کیس کی نشان دہی ممکن ہو سکے۔ اس مقصد کے لیے متعلقہ وزارتوں سے تفصیلی ڈیٹا بھی طلب کر لیا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے، کیونکہ اس میں وہ افغان شہری شامل ہیں جو بغیر کسی شناخت یا پس منظر کے ملک میں داخل ہوئے اور مستقبل میں ممکنہ طور پر سیکورٹی رسک بن سکتے ہیں۔ ایف آئی اے کے ایک سینئر افسر کے مطابق یہ معاملہ محض چند افراد کی بدعنوانی تک محدود نہیں، بلکہ ایک مکمل منظم نیٹ ورک نے سرکاری نظام کو توڑتے ہوئے غیر قانونی سرگرمیوں کو فروغ دیا۔ یہ اسکینڈل پاکستان کے ویزا سسٹم کی شفافیت اور موثر نگرانی پر سنگین سوالات کھڑے کرتا ہے۔

اگر بروقت تحقیقات نہ کی جاتیں تو یہ نیٹ ورک مزید وسعت اختیار کر سکتا تھا، جس سے نہ صرف ریاستی اداروں کی ساکھ متاثر ہوتی، بلکہ ملک کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ جاتی۔ ایف آئی اے کی اس کارروائی کو قابلِ تحسین قرار دیا جا رہا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب وقت آچکا ہے کہ ای ویزا کے پورے نظام پر نظرِ ثانی کی جائے اور اس میں ایسی اصلاحات لائی جائیں جو آئندہ اس نوعیت کی دھوکہ دہی کو روک سکیں۔