عمران خان:
ایف بی آر اور کسٹمز افسران کی ملی بھگت سے نیلامی کی آڑ میں کروڑوں روپے مالیت کی اسمگل شدہ گاڑیوں کو قانونی حیثیت دینے کا بڑا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد حساس اداروں کو شامل کرکے تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے۔ اب تک مختلف چھاپوں میں کسٹمز افسران کے ساتھ ملوث نیٹ ورک کے 13 سے زائد ایجنٹوں اور امپورٹرز کو مختلف شہروں سے حراست میں لے کر ریکارڈ اور مالی لین دین کی چھان بین شروع کردی گئی ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق پاکستان کسٹمز میں نیلامی کے نظام اور آن لائن کلیئرنس کے سسٹم میں نقب زنی کی یہ واردات سامنے آنے کے بعد چیف کلیکٹر کسٹمز باسط عباسی کی جانب سے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔ ان کے مطابق یہ محض دو آئی ڈیز کا مسئلہ نہیں۔ بلکہ متعدد افسران کی آئی ڈیز کے ممکنہ طور پر غلط استعمال ہونے کا خدشہ موجود ہے۔
کسٹمز افسران کی تمام وی بوک آئی ڈیز اور کلیئرنس لاگز کی داخلی جانچ جاری ہے (کسٹمز افسران کے پاس موجود سرکاری کمپیوٹرز میں ان کیلئے مخصوص آئی ڈیز ہوتی ہیں جس کے پاس ورڈ استعمال کرکے وہ کلیئرنس کے آن لائن سسٹم میں داخل ہوتے ہیں اور شہریوں کی جانب سے اپنے سامان کی کلیئرنس کیلئے آن لائن جمع کروائی گئی دستاویزات کی چھان بین کرکے اس پر عائد ڈیوٹی ٹیکس کا تخمینہ لگانے کے بعد اس کی کلیئرنس دیتے ہیں۔ اس نظام کو وی بوک سسٹم کہا جاتا ہے)۔
ابتدائی طور پر 2 افسران معطل، تیرہ افراد گرفتار اور درجنوں کی تلاش جاری ہے۔ ایف بی آر کے کسٹمز آکشن نظام کے غلط استعمال سے متعلق ایک بڑا اسکینڈل منظرِ عام پر آیا ہے۔ جس میں اسمگل شدہ گاڑیوں کو جعلی نیلامیوں کے ذریعے قانونی قرار دیا گیا۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق 103 گاڑیوں کو جعلی یوزر آئی ڈیز کے ذریعے سسٹم میں ڈال کر رجسٹر کیا گیا۔
ذرائع کے بقول مذکورہ اسکینڈل نے صرف کسٹمز کے ڈیجیٹل نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا۔ بلکہ پورے ملک میں محصولاتی نظام پر اعتماد کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ تازہ ترین انکشافات کے مطابق دو کسٹمز ڈپٹی کلیکٹرز کی سرکاری وی بوک (WeBOC) شناختی معلومات کو غیر قانونی طور پر استعمال کرتے ہوئے جعلی نیلامی کے ذریعے نان کسٹم پیڈ (NCP) گاڑیوں کو قانونی ظاہر کر کے کلیئر کر دیا گیا۔ ذرائع کے بقول پاکستان کسٹمز کے ڈیجیٹل نظام میں سیکیورٹی کی خطرناک خامی اس وقت سامنے آئی جب معلوم ہوا کہ کسٹمز افسران کے سرکاری وی بوک (WeBOC) اکائونٹس کو غیر قانونی طور پر استعمال کرتے ہوئے نان کسٹم پیڈ (NCP) گاڑیوں کو جعلی نیلامی کے ذریعے قانونی ظاہر کر کے کلیئر کیا گیا۔
اس انکشاف کے بعد چیف کلیکٹر باسط عباسی نے فوری تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے اور ابتدائی طور پر دو ڈپٹی کلیکٹرز کو معطل کر دیا گیا ہے۔ یہ دونوں افسران ان لینڈ ریونیو کو آرڈینیشن آفس (IOCO) میں تعینات تھے، جو ایک ایسا محکمہ ہے جس کے پاس کسی قسم کی نیلامی یا کلیئرنس کا اختیار ہی نہیں۔ نیلامی کا مکمل اختیار صرف اپریزمینٹ، انفورسمنٹ اور ایکسپورٹس کلیکٹوریٹس کو حاصل ہے۔ اس کے باوجود ان افسران کے اکائونٹس کے ذریعے وی بوک سسٹم میں نیلامی کا اندراج اور کلیئرنس دکھائی گئی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے لاگ ان ڈیٹا کو غیر مجاز طریقے سے استعمال کیا گیا۔ اس معاملے کی تہہ اس وقت کھلی جب لاہور میں کلیکٹر انفورسمنٹ سعید وٹو نے تین ایسی نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ضبط کیں جنہیں سسٹم میں نیلام شدہ ظاہر کیا گیا تھا۔ ان گاڑیوں کے ساتھ کسی بھی طرح کی قانونی نیلامی کا کوئی مستند ریکارڈ موجود نہیں تھا، جس پر شبہ بڑھا اور معاملہ اعلیٰ سطح پر پہنچا۔
تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اس فراڈ میں ممکنہ طور پر پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (PRAL) اور پاکستان سنگل ونڈو (PSW) جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا کردار بھی مشکوک ہے۔ جن کے ذریعے سسٹم میں غیر قانونی رسائی حاصل کی جا سکتی تھی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ محض سائبر سیکورٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ اس میں اندرونی ملی بھگت کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ کسٹمز کے ایک سینئر افسر نے اس بات کی نشاندہی کی کہ صرف دو آئی ڈیز کا غلط استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ یہ خدشہ موجود ہے کہ مزید کئی افسران کی شناختی تفصیلات خاموشی سے استعمال ہو چکی ہیں اور اہم کسٹمز کلیئرنسز غیرقانونی طور پر ہو چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چیف کلیکٹر نے تمام افسران کی لاگ ان آئی ڈیز اور کلیئرنس لاگز کا جامع آڈٹ شروع کروایا ہے تاکہ مکمل سچ سامنے آسکے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس معاملے کی جڑیں محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن تک جا سکتی ہیں۔ جہاں ممکنہ طور پر جعلی رجسٹریشن یا تصدیق نامے جاری کیے گئے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیقاتی افسران اب اس محکمے کو بھی اپنی تفتیش کے دائرے میں لانے پر زور دے رہے ہیں۔ ماہرین اور سابق افسران اس واقعے کو قومی سلامتی اور مالیاتی شفافیت کیلئے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی اس نوعیت کی جعلی نیلامی سے نہ صرف کسٹمز کی ساکھ مجروح ہوئی ہے۔ بلکہ اس سے قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ کیونکہ ٹیکس چوری اور غلط کلیئرنس سے سرکاری آمدن متاثر ہوتی ہے۔
اس واقعے کے بعد کسٹمز ڈیپارٹمنٹ پر دبائو بڑھ گیا ہے کہ وہ فوری طور پر ڈیجیٹل سیکورٹی پروٹوکول کو بہتر کرے۔ سسٹم میں موجود خامیاں دور کرے اور متعلقہ پلیٹ فارمز یعنی وی بوک، پی ایس ڈبلیو اور پی آر اے ایل میں سائبر سیکورٹی ماہرین کی مستقل موجودگی کو یقینی بنائے۔
تحقیقات ابھی جاری ہیں اور ذرائع کے مطابق آئندہ دنوں میں مزید انکشافات سامنے آ سکتے ہیں، جو اس معاملے کو مزید سنگین بنا سکتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام متعلقہ ادارے مل کر شفاف تحقیقات کو یقینی بنائیں تاکہ عوامی اعتماد بحال ہو اور آئندہ کیلئے کسی بھی ایسے دھوکہ دہی کے عمل کا راستہ بند ہو سکے۔ ذرائع کے بقول کسٹمز حکام پر اب دبائو بڑھ رہا ہے کہ وہ ڈیجیٹل رسائی کے نظام کو مضبوط کریں اور جعلی ڈیٹا کے ذرائع کا پتہ لگائیں۔ تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایسے واقعات کو روکا نہ گیا تو یہ نہ صرف قومی خزانے کے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ بلکہ عوامی اعتماد کو بھی شدید متاثر کریں گے۔
کسٹمز ذرائع کے بقول اس سے قبل بھی اس طرح کے متعدد اسکینڈل سامنے آچکے ہیں۔ جن میں نیلامی کی آڑ میں اسمگل شدہ گاڑیوں کو کلیئرکرنے اور ان کی ایکسائز میں رجسٹریشن کییلئے دستاویزات جاری کرنے کے انکشافات سامنے آئے۔ تاہم ابتدائی طور پر تحقیقات شروع ہونے کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کو دبادیا گیا۔ کیونکہ ان معاملات میں ہمیشہ ماتحت افسران پر نزلہ ڈال کر اعلیٰ افسران کو بچالیا جاتا ہے، کہ ان کی سرپرستی کے بغیر یہ کرپشن ممکن نہیں۔
ذرائع کے بقول اعلیٰ افسران کو اس لئے بچایا جاتا ہے کیونکہ ان کے خلاف کارروائی آگے بڑھنے سے دیگر اعلیٰ افسران بھی نرغے میں آجاتے ہیں۔ تاہم رواں عرصہ میں ویبوک اور فیس لیس سسسٹم کے تحت کلیئرنس کی ذمے داری ماتحت ایگزامننگ اور اپریزنگ افسران کے بجائے ڈپٹی کلکٹرز اور اسسٹنٹ کلکٹرز پر ڈالی گئی ہے۔ تاکہ کرپشن کے معاملات کو کم کیا جاسکے۔ لیکن ایسے اسکینڈل سامنے آنے پر اب اعلیٰ افسران کو بچانا مشکل ہوگیا ہے۔ کیونکہ ان کے پاس موجود آئی ڈیز اور ڈیٹا میں ان کا عمل دخل دستاویزی اور کمپیوٹرائزڈ طور پر ثابت ہوجاتا ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos