امت رپورٹ :
بدنام زمانہ امریکی ارب پتی جیفری ایپسٹین کو مرے تقریباً چھ برس ہو چکے، لیکن اس کی شرمناک داستان اور اس داستان سے جڑی معروف شخصیات کے ناموں کی بازگشت مسلسل جاری ہے۔ اس میں تیزی اس وقت آئی جب گزشتہ ہفتے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ایپسٹین کیس بند کردیا۔
امریکی محکمہ انصاف اور ایف بی آئی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جیفری ایپسٹین کی جیل میں موت خود کشی تھی اور یہ کہ اس کے پاس کوئی ’’کلائنٹ لسٹ‘‘ نہیں تھی۔ یعنی دنیا کے ان مشہور اور بااثر لوگوں کی فہرست، جن پر الزام ہے کہ وہ کمسن لڑکیوں کے ساتھ اپنی ہوس بجھانے جیفری ایپسٹن کے نجی جزیرے پر جایا کرتے تھے۔ امریکی محمکہ انصاف اور ایف بی آئی کی اس رپورٹ پر مخالفین نے تو شور مچا ہی رکھا ہے، خود ٹرمپ کے حامی بھی اس پر خاصے برہم ہیں۔ کیونکہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر ایپسٹین فائلز کو اوپن کریں گے، تاکہ شیطان صفت شخص کی ’’خدمات‘‘ سے لطف اٹھانے والے بااثر گاہکوں کو بے نقاب کیا جاسکے۔ لیکن اس کے برعکس اس کیس کو ہی بند کردیا گیا ہے۔ اس پر ٹرمپ کے سابق قریبی دوست ایلون مسک نے بھی اپنے ایکس اکاؤنٹ پر کافی طنزیہ پوسٹیں کی ہیں۔ جن کا لب لباب یہ ہے کہ اس کیس کو اس لئے بند کیا گیا کہ اس میں خود ٹرمپ کا نام بھی آرہا تھا۔
یہ ثابت شدہ ہے کہ ارب پتی جیفری ایپسٹین ’’موساد‘‘ کا ایجنٹ تھا، جس نے ایک پورا جزیرہ خرید رکھا تھا۔ اس جزیرے پر نوعمر لڑکیوں کو جنسی غلام بنا کر رکھا جاتا تھا۔ ان میں بارہ سال تک کی بچیاں بھی شامل ہوتی تھیں۔ جنہیں وہ دنیا کے امیر ترین اور بااثر لوگوں کو پیش کرتا، اور پھر ان کی خفیہ تصاویر اور ویڈیوز بنالیتا تاکہ بلیک میل کر سکے۔
گزشتہ برس جب ایک امریکی جج کے احکامات پر ارب پتی جیفری ایپسٹین کی نوعمر لڑکیوں کے ساتھ زیادتی سے متعلق بعض دستاویزات کو منظر عام پر لایا گیا تو کئی معروف نام سامنے آئے تھے۔ ان میں موجودہ امریکی صدر ٹرمپ، سابق امریکی صدر بل کلنٹن، برطانیہ کے پرنس اینڈریو، معروف برطانوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ، فرانسیسی کاروباری شخصیت اور ماڈلنگ ایجنٹ ژاں لُک برونل، امریکی کاروباری شخصیت لیزلی ویکسنر، سابق امریکی سفیر بل رچرڈسن، سابق امریکی سینیٹر جارج مِچل، آنجہانی امریکی گلوکار مائیکل جیکسن اور امریکی جادوگر ڈیوڈ کاپرفیلڈ سمیت ایک سو کے قریب ایسی معروف شخصیات شامل ہیں۔ تاہم ان تمام کا دعویٰ ہے کہ وہ جیفری ایپسٹین کے جرائم میں شریک نہیں تھے۔
امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے ایپسٹین کیس بند کرنے کے بعد بظاہر لگتا ہے کہ یہ معاملہ اب قصہ پارینہ بن جائے گا اور دنیا کے متعدد طاقت ور سیاست دان اور دیگر اہم شخصیات بے نقاب ہونے سے بچ جائیں گی۔ لیکن اس معاملے پر جس طرح امریکی اور مغربی میڈیا اور سوشل میڈیا میں طوفان برپا ہے، ایسے میں یہ بھوت آسانی سے پیچھا چھوڑتے دکھائی نہیں دے رہا۔
جیفری ایپسٹین کے کیس میں سزا پانے والی واحد شخصیت اس کی محبوبہ گیسلین میکسویل ہے، جو بیس سال قید کی سزا کاٹ رہی ہے۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ وہ کم عمر بچیوں کی جسم فروشی اور جنسی استحصال کے جرم میں جیفری ایپسٹین کے ساتھ پوری طرح شریک تھی۔ دلچسپ امر ہے کہ اسی گیسلین میکسویل کے ساتھ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ایک پرانی تصویر دوبارہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہی ہے۔ اس سے قبل گزشتہ برس جب ایک امریکی جج نے جیفری ایپسٹین کیس کی بعض دستاویزات عام کرنے کا حکم دیا تھا تو تب بھی گیسلین میکسویل کے ساتھ عمران خان کی یہ تصویر وائرل ہوئی تھی۔ اگرچہ دستاویزات میں عمران خان کا نام شامل نہیں تھا۔
بچیوں کے ساتھ جنسی جرائم کے کیس میں بیس برس قید کی سزا پانے والی گیسلین میکسویل دراصل برطانیہ کے یہودی میڈیا ٹائیکون رابرٹ میکسویل کی بیٹی ہے۔ سابق اسرائیلی جاسوس ایوی بین میناش کے مطابق رابرٹ میکسویل کو ایک اسرائیلی انٹیلیجنس اثاثے کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس نے اس کام کے لیے جیفری ایپسٹین کو بھرتی کیا۔ اس کی بیٹی گیسلین اور ایپسٹین نے اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس کے لیے کام کیا اور وہ دونوں ’’ہنی ٹریپ‘‘ کے ذریعے ممتاز افراد کو بلیک میل کیا کرتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ گیسلین میکسویل کے ساتھ عمران خان کی تصویر، کب اور کس موقع پر لی گئی تھی جو ایپسٹین کیس بند کیے جانے کی خبروں کے بعد ایک بار پھر اس لئے وائرل ہے کہ تصویر میں موجود گیسلین اسی کیس میں واحد سزا یافتہ ہے، جو ایپسٹین کے گھنائونے کاروبار کا اہم کردار تھی۔
یہ تصویر انیس سو نوے کی ہے۔ معروف ’’ٹاکیز میگزین‘‘ کے بانی اور یونانی مصنف و پبلشر تھیوڈراکوپولس نے برلن کی دیوار گرائے جانے کے ایک سال بعد سیوائے ہوٹل میں کمیونزم کے زوال کے موقع پر ایک پارٹی کی میزبانی کی تھی۔ عمران خان اور گیسلین کی یہ تصویر اسی تقریب کی ہے۔ گزشتہ برس ایک امریکی جج کے احکامات پر ایپسٹین کیس کے جنسی جرائم سے متعلق بعض دستاویزات منظر عام پر لائی گئیں تو اس تصویر پر خاصا چرچا ہوا تھا۔ پھر جب سابق فاسٹ باؤلر وسیم اکرم نے ایک انٹرویو میں اپنی پرانی یادداشتوں کو دہراتے ہوئے انکشاف کیا کہ ’’ایک روز ایک مداح خاتون اس وقت قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان عمران خان اور ہمیں اپنے نجی جزیرے میں لے گئی تھی‘‘، تو اس تصویر پر چہ میگوئیاں بڑھ گئیں۔
وسیم اکرم کا مزید کہنا تھا ’’خاتون کے پاس اپنا طیارہ تھا۔ چنانچہ ہم ایک پرائیویٹ ہوائی جہاز پر بیٹھ گئے، اور تقریباً پینتالیس منٹ بعد ایک ویران جزیرے میں اترے۔ وہ گھر میں ’’گپ شپ‘‘ کرنے چلے گئے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہم ہوٹل بھی واپس نہیں جا سکتے۔ ہم جنوبی امریکہ کے وسط میں ایک جزیرے پر ہیں‘‘۔ تاہم اپنے انٹرویو میں وسیم اکرم نے یہ وضاحت نہیں کی تھی کہ وہ خاتون آیا گیسلین میکسویل تھی یا کوئی اور، اور یہ کہ وہ مقام کیا جیفری ایپسٹین کا بدنام زمانہ جزیرہ تھا؟
اس بارے میں وسیم اکرم نے کچھ نہیں کہا تھا۔ تب ایپسٹین کے پاس لٹل سینٹ جیمز اور گریٹ سینٹ جیمز نامی دو جڑواں جزیرے تھے۔ جب علی شہباز چوہدری نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے ایکس پر اس تصویر کے حوالے سے پوسٹ کی کہ عمران خان بھی ایپسٹین کی کلائنٹ لسٹ میں شامل ہیں۔ اور حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وسیم اکرم نے اپنے انٹرویو میں بتایا تھا کہ کس طرح عمران خان اور لڑکوں کو گیسلین میکسویل کے نجی طیارے میں ایک ویران جزیرے (ایپسٹین آئی لینڈ) تک پہنچایا گیا‘‘۔ تو اس پر وسیم اکرم نے جوابی پوسٹ میں کہا ’’جھوٹ پھیلانا بند کر دو‘‘۔
لیکن انہوں نے آج تک نہیں بتایا کہ وہ جزیرہ کون سا اور کس کا تھا اور یہ کہ لے جانے والی خاتون کا نام کیا تھا۔ اب چونکہ یہ کیس ہی بند کردیا گیا ہے، لہذا یہ جاننا فی الحال مشکل ہے کہ کتنے نام اب بھی پوشیدہ ہیں۔ تاہم خطرے کی تلوار ابھی ہٹی نہیں ہے۔ تازہ اطلاعات یہ آئی ہیں کہ جیل میں سزا کاٹنے والی گیسلین میکسویل نے پیشکش کی ہے کہ وہ تمام گاہکوں کے نام اور گھناؤنے نیٹ ورک کے دیگر راز افشا کرنے پر تیار ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں آنے والے زلزلے کے جھٹکے کیا پاکستانی سیاست میں بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں؟ یہ ملین ڈالر کا سوال ہے۔ برطانیہ کے اخبار میل آن لائن کے مطابق گیسلین، ایپسٹین فائلز اور گاہکوں کی لسٹ کے بارے میں کانگریس کے سامنے سچ بتانے کو تیار ہے۔ دیکھنا ہے کہ کیس بند کرنے پر سخت ترین تنقید کا نشانہ بننے والی ٹرمپ حکومت اس پیشکش کو قبول کرتی ہے یا نہیں۔ تریسٹھ سالہ گیسلین میکسویل جب اپنی سزا پوری کرکے جیل سے باہر آئے گی تو اسّی برس کی ہوچکی ہوگی۔ اسے نیویارک سٹی میں فیڈرل کورٹ نے دو ہزار بائیس میں بیس برس قید کی سزا سنائی تھی۔
جیفری ایپسٹین کون تھا؟ ایک معمولی ٹیچر سے وہ موساد کا ایجنٹ بننے کے بعد راتوں رات ارب پتی کیسے بنا؟ اس کے کتنے محل نما عالیشان گھر تھے؟ کتنے نجی طیارے تھے؟ اس بارے میں میڈیا میں کافی کچھ آچکا ہے۔ اس لئے زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ آخر میں سرسری ذکر ضرور کیا جائے گا۔ پہلے اس کے اس بدنام زمانہ جزیرے کا مختصر تذکرہ ہوجائے، جہاں اس نے نابالغ لڑکیوں کو جنسی غلام کے طور پر رکھا ہوا تھا۔
یہ دونوں جزائر امریکی آئی لینڈ ورجن یا کیریبین جزائر کے پانیوں میں واقع ہیں۔ ان میں سے ایک، جسے ایپسٹین نے ’’لٹل سینٹ جیمز‘‘ کا نام دے رکھا تھا۔ وہاں دنیا کی مشہور شخصیات اپنی ہوس بجھانے کے لیے ایپسٹین کے ذاتی طیاروں میں سوار ہوکر آتیں اور پھر ہیلی کاپٹر کے ذریعے جزیرے پر پہنچتی تھیں۔
عالمی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ’’لٹل سینٹ جیمز جزیرہ‘‘ بین الاقوامی جنسی اسمگلنگ کا مرکز تھا۔ جزیرے میں متعدد کاٹیجز، بیچ ہاؤسز، سوئمنگ پولز، گالف کا میدان، گودام، یوٹیلٹی بلڈنگز، ہیلی پیڈ، ٹینس کورٹ، سلپ ویز، جھیل اور مختلف جھونپڑیوں کا ایک وسیع نیٹ ورک تھا۔ انڈیپینڈنٹ کے مطابق اس جزیرے پر تقریباً ستّر افراد کا عملہ تھا، جس میں گراؤنڈ کیپرز اور مالیوں سے لے کر کپڑے دھونے والی خواتین اور بروقت دستیاب کشتی کے کپتان شامل تھے۔ معروف جریدے وینیٹی فیئر کو ایک سابق ایئر ٹریفک کنٹرولر نے بتایا کہ اس نے متعدد مواقع پر ایپسٹین کو دیکھا، وہ نجی جیٹ پر بچیاں سوار کرا رہا ہے۔ جبکہ ایک سابق ملازم کا کہنا تھا کہ وہاں بے شمار اسکول کی لڑکیاں لائی جاتی تھیں۔ حتیٰ کہ ان میں بارہ سال تک کی بچیاں بھی شامل ہوتی تھیں۔
جیفری ایڈورڈ ایپسٹین، جنوری انیس سو تریپن میں نیو یارک سٹی میں پیدا ہوا۔ ایپسٹین نے کالج کی ڈگری نہ ہونے کے باوجود اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کا آغاز ڈالٹن اسکول میں بطور استاد کیا۔ انیس سو چھہتر میں اسکول سے برخاست ہونے کے بعد، اس نے بینکنگ اور فنانس کے شعبے میں قدم رکھا۔ پھر وہ دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی بن گیا۔ دنیا کے طاقتور ترین سیاست دان، میڈیا کے لوگ، تاجر اور فلم اسٹار اس کے دوست بن گئے۔ اسے موساد کا قیمتی اثاثہ قرار دیا جاتا تھا۔ جس کے لیے اس نے دنیا کے طاقتور لوگوں کو ہنی ٹریپ کیا۔ یہ نیٹ ورک چلانے کے لیے اس نے کمسن لڑکیوں کو جنسی غلام کے طور پر استعمال کیا۔
اس سلسلے میں اس پر پہلا مقدمہ دو ہزار پانچ میں درج ہوا تھا۔ بعد میں بھی چند کیسز بنے، اور برائے نام قید بھی ہوئی۔ لیکن موساد اور دیگر طاقتور شخصیات کی پشت پناہی کی وجہ سے وہ ہر بار بچ نکلا۔ اسے آخری بار جولائی دو ہزار انیس کو نابالغوں کی جنسی اسمگلنگ پر دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ ایک ماہ بعد وہ جیل میں پراسرار طور پر مر گیا۔ اس کی موت کو خودکشی قرار دیا گیا۔ تاہم بہت سوں کا خیال ہے کہ اس کی جان لی گئی تھی۔ کیوں کہ وہ اب کئی راز اگلنا چاہتا تھا۔ اس کے نتیجے میں متعدد طاقتور شخصیات کے چہرے بے نقاب ہو سکتے تھے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos