عمران خان:
اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کے خلاف جاری وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی انکوائری جلد از جلد مکمل کرنے اور عدالت میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم جاری ہونے کے بعد تحقیقات کو تیز کردیا گیا ہے۔ تاکہ آئندہ سماعت پر تمام ثبوت و شواہد جمع کرکے مفصل رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جاسکے، کہ ان کے خلاف منی لانڈرنگ کی انکوائری پر کیس بنانے کیلئے ٹھوس بنیادیں موجود ہیں۔ تاہم اگر ایسا نہ ہوا تو عدالت سے ایف آئی اے میں جاری انکوائری کے حوالے سے فرحت اللہ بابر کے حق میں بھی فیصلہ آنے کا امکان موجود ہے۔ انکوائری میں فرحت اللہ بابر کے علاوہ ان کے خاندان کے دیگر افراد کے اثاثوں اور بینک ٹرانزیکشنز کی چھان بین بھی کی جا رہی ہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق یہ حکم جسٹس راجہ انعام امین منہاس نے فرحت اللہ بابر کی جانب سے دائر کردہ آئینی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جاری کیا۔ جس میں انہوں نے ایف آئی اے کی انکوائری کو چیلنج کیا تھا اور موقف اختیار کیا تھا کہ انہیں نہ تو ان پر لگنے والے الزامات کا علم ہے، نہ ہی انکوائری کی نوعیت سے آگاہی دی گئی ہے۔ دوران سماعت فرحت اللہ بابر ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے۔ جبکہ ان کی قانونی معاونت معروف وکیل ایمان زینب مزاری نے کی۔
انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایف آئی اے نے انہیں انکوائری میں شامل تو کیا ہے۔ لیکن اب تک یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ان کے خلاف الزامات کیا ہیں اور کن بنیادوں پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ عدالت نے سماعت کے دوران ایف آئی اے کے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ کیا فرحت اللہ بابر کو ان کے خلاف زیر تفتیش الزامات اور شکایت سے آگاہ کیا گیا ہے؟ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ اب تک اس حوالے سے باقاعدہ طور پر کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔ جسٹس راجہ انعام نے ایف آئی اے افسر کو ہدایت دی کہ وہ عدالت میں موجود فرحت اللہ بابر کو فوری طور پر ان کے خلاف درج شکایت، الزامات اور انکوائری سے متعلق تمام مواد اور ریکارڈ دکھائیں۔ عدالتی حکم پر تفتیشی افسر نے انکوائری کا ریکارڈ فرحت اللہ بابر اور ان کی وکیل کو عدالت ہی میں دکھا دیا۔
عدالت نے بعد ازاں اپنے احکامات میں ایف آئی اے کو ہدایت دی کہ وہ قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے انکوائری جلد مکمل کرے اور اس کی رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔ تاکہ معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔ فرحت اللہ بابر، ملک کے سینئر سیاستدان، دانشور اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے مختلف سیاسی و پارلیمانی حیثیتوں میں خدمات انجام دی ہیں اور ہمیشہ شفافیت و آئین کی پاسداری کے حامی رہے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ فرحت اللہ بابر کے خلاف شروع کی گئی ایف آئی اے کی انکوائری کے محرکات اور نوعیت اب تک مکمل طور پر سامنے نہیں آسکے۔ جس پر قانونی حلقوں میں تشویش کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ مزید پیش رفت کیلئے عدالت کی آئندہ سماعت کی تاریخ کا انتظار ہے۔
واضح رہے کہ رواں برس اپریل کے مہینے میں پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں ان کے اثاثوں اور آمدنی کے علاوہ سینیٹر شپ کے دوران بیرون ملک سے ملنے والی فنڈنگ کو بھی شامل تفتیش کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ان کی اہلیہ سمیت خاندان کے دیگر افرد کے ناموں پر موجود اثاثوں کی چھان بین بھی شروع کردی گئی ہے۔ ایف آئی اے نے سابق سینیٹر کو پرائیویٹ شہری کی درخواست پر شروع کی جانے والی اس اچانک انکوائری میں سوال نامہ تھمادیا۔ واضح رہے کہ اس وقت فرحت اللہ بابر پیپلز پارٹی پاکستان کے ہیومن رائٹس ونگ کے صدر ہیں۔
’’امت‘‘ کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل اسلام آباد کی جانب سے اپریل کے مہینے میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کی گئی تھی۔ جس میں اب تک فرحت اللہ خان بابر کو دو بار نوٹس ارسال کرکے ایف آئی اے آفس میں تفتیشی افسر کے سامنے پوچھ گچھ کیلئے طلب کیا جاچکا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے کی تحقیقات سے قبل ان کے خلاف ایف بی آر کے تحت اچانک کارروائی شروع ہوئی۔ ایف بی آر نے انہیں21 مارچ کو نوٹس جاری کیا تھا۔ جس میں ان کی آمدنی اور واجب الادا ٹیکس کے معاملات اٹھائے گئے۔ ذرائع کے بقول اس کے فوری بعد ہی 23 مارچ کو راولپنڈی کے علاقے مورگاہ سے تعلق رکھنے والے ایک پرائیویٹ شخص نے ایف آئی اے حکام کو فرحت اللہ بابر کے حوالے سے ایک تحریری درخواست دی۔ جو ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر ز کو موصول ہونے کے بعد اس پر ویری فیکیشن کا عمل بھی جلد مکمل کرلیا گیا۔
بعد ازاں اس درخواست پر ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کے حکام کو باقاعدہ انکوائری کی اجازت دے دی گئی۔ ذرائع کے مطابق اس معاملے پر ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل اسلام آباد میں انکوائری نمبر 108/2025 درج کرکے تحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔ مذکورہ تحریری شکایت میں ان کے خلاف کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ اسی انکوائری میں ان کو عید سے ایک روز قبل ایف آئی اے آفس طلب کیا گیا۔ بعد ازاں دوبارہ انہیں عید کے چند روز بعد طلب کیا گیا۔ اس کیلئے پہلی بار ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل اسلام آباد کی جانب سے 5 مارچ کو فرحت اللہ بابر کو نوٹس جاری کیا گیا تھا کہ وہ 28 مارچ کو ان کے سامنے پیش ہوں۔ تاہم اسے قبل ہی فرحت اللہ بابر کی جانب سے عدالت سے رجوع کرلیا گیا۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ فرحت اللہ خان بابر سے کرپشن اور منی لاندرنگ کی تحقیقات میں بارہ نکات کے حوالے سے ریکارڈ طلب کیا گیا ہے۔ جس میں ان کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد، تمام بینک اکائونٹس، ان کے نام رجسٹرڈ ہونے والی گاڑیوں، انکم ٹیکس گوشواروں اور ذرائع آمدنی کی تفصیلات کے علاوہ اہلیہ اور خاندان کے دیگر افراد کے ناموں پر موجود جائیدادوں کی تفصیلات، سینیٹر شپ کے دوران حاصل ہونے والے تمام مالی فائدوں کی تفصیلات، سینیٹر شپ کے دوران ملنے والی غیر ملکی فنڈنگ، عوامی فلاح و بہبود کے نام پر خرچ کیے گئے فنڈز، سینیٹ کی جانب سے دی گئی تمام مراعات کی تفصیلات اور دیگر معلومات شامل ہیں۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول ان تحقیقات میں اپریل کے مہینے میں ہی ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل اسلام آباد نے پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کے خلاف انکوائری سے متعلق 18 سے 20 سوالات پر مبنی سوال نامہ حوالے کردیا تھا۔ ذرائع نے کہا کہ سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اپنے وکیل کے مشورے کے بعد جوابات جمع کرانے کا کہا۔ فرحت اللہ بابر نے ایف آئی اے کو اپنے خلاف جمع ہونے والی درخواست کی کاپی اور شکایت کنندہ سے متعلق تفصیل فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ جس کیلئے انہیں انتظار کرنے کا کہا گیا۔
دوسری جانب سینیٹر فرحت اللہ بابر اور پیپلز پارٹی کی سیکریٹری اطلاعات شازیہ مری کا موقف بھی اخبارات میں سامنے آچکا ہے۔ جس کے مطابق وہ 2013ء سے کسی بھی سرکاری عہدے پر فائز نہیں رہے۔ وہ صرف صدر آصف علی زرداری کے ترجمان کے طور پر کام کر رہے تھے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایف آئی اے کے نوٹس کا جواب دینے کیلئے قانونی راستہ اختیار کرنے کا عندیہ بھی دے رکھا ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos