سستا ہونے کے سبب غریب شہری خریدنے پر مجبور، صحت کیلیے انتہائی نقصان دہ  ہے، فائل فوٹو
 سستا ہونے کے سبب غریب شہری خریدنے پر مجبور، صحت کیلیے انتہائی نقصان دہ  ہے، فائل فوٹو

کراچی میں ناقص کوکنگ آئل کی فروخت بڑھ گئی

اقبال اعوان :

کراچی میں ناقص کوکنگ آئل کی فروخت میں اضافہ ہوگیا۔ ایک جانب بقرعید پر حاصل شدہ سستی چربی، مرغیوں کی آنتوں، پروں، بڑے جانوروں کی ہڈیوں سے مضر صحت تیل بناکر فروخت کیا جا رہا ہے۔

مقامی کمپنیوں کے کوکنگ آئل مہنگے ہونے پر شہری تھیلوں میں پیک یا کھلا آئل خرید رہے ہیں۔ شہر میں پراٹھوں والے ہوٹل، وہاں تیار ہونے والے سالن، سینکڑوں ٹھیلوں پتھاروں پر سموسوں، پکوڑوں اور فش فرائی سمیت دیگر اشیا کی تیاری میں ناقص تیل دھڑلے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ شہر بھر کی میں مارکیٹوں میں کھلا پکوان تیل عدالتی احکامات کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ دل، جگر اور معدے کی بیماریوں کا گراف دن بہ دن بڑھ رہا ہے اور اس کی اہم وجوہات میں یہ تیل شامل ہے۔ سندھ فوڈز اتھارٹی، کوالٹی کنٹرول، پرائز کنٹرول کمیٹی سمیت دیگر ادارے غائب نظر آتے ہیں کہ ان کے بعض لوگ بھتہ سیٹ کرکے کام چلا رہے ہیں۔

واضح رہے کہ روز افزوں مہنگائی نے جہاں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں بڑھادی ہیں۔ وہیں ناقص اور مضر صحت اشیا کی بھی بھرمار ہو گئی ہے۔ اور شہری اس سستی، غیر معیاری اور ناقص اشیا کو خریدنے پر مجبور ہیں۔ آج کل پکوان تیل کی قیمتیں دو چار ماہ میں بڑھتی جارہی ہیں۔ اچھی کمپنیوں کا کوکنگ آئل 560 روپے فی لٹر تک مل رہا ہے۔ جبکہ مارکیٹوں، ٹھیلوں اور پتھاروں پر کوکنگ آئل کی ایک لٹر والی تھیلی 520 روپے اور چھوٹے چھوٹے ڈرم کے اندر رکھا ہوا تیل 510 روپے فی لٹر تک مل رہا ہے۔

پریشان حال شہری اس کے نقصانات جانتے ہوئے بھی اسے خرید کر لے جاتے ہیں کہ سستا مل رہا ہے۔ چند ماہ قبل تک کھلا تیل فروخت کرنے پر عدالت نے پابندی لگائی تھی۔ تاہم اس کی فروخت دھڑلے سے جاری ہے۔ فی لٹر تیل والی تھیلی پر ایسی کمپنی کے نام ہوتے ہیں جو کبھی سنے نہیں گئے۔ ایران سے لائی گئی تھیلیوں پر فارسی زبان تحریر ہوتی ہے۔ جس پر نہ بنانے کی تاریخ ہوتی ہے اور نہ معیاد ختم ہونے کی تاریخ درج ہوتی ہے۔ نہ قیمت اور نہ اجزا کی تفصیل ہوتی ہے۔ بعض تھیلیاں سادہ پلاسٹک کی ہوتی ہیں۔ ایرانی تیل فی لٹر 290 سے 320 روپے شروع ہوا تھا۔ جو، اب 480 روپے تک مل رہا ہے۔

شاہ فیصل کالونی کے ایک دکاندار کا کہنا ہے کہ بقرعید گزرے زیادہ دن نہیں ہوئے۔ قربان کیے گئے جانور کی چربی وافر مقدار میں مل رہی ہے۔ یہ چربی 50 سے 100 روپے فی کلو فروخت ہوتی رہی ہے۔ ابراہیم حیدری، چشمہ گوٹھ اور دیگر ساحلی و مضافاتی علاقوں میں اس چربی کو بڑے لوہے کے کڑھائو میں ابال اور چھان کر ڈبوں میں ڈالا جاتا ہے اور ریفائن کرکے فروخت کیا جا رہا ہے۔ بقرعید پر لاکھوں جانور ذبح ہوئے اور حاصل شدہ ہڈیوں کو ابراہیم حیدری میں ریڑھی روڈ پر قائم ہڈی مل کے بوائل میں ڈال کر تیل نکالا جا رہا ہے۔

اس دکاندار نے بتایا کہ مرغیوں کو کاٹنے کے بعد حاصل شدہ فالتو آلائشیں، پَر، آنتیں الگ جمع کی جاتی ہیں اور بوائلر میں ڈال کر ان کا تیل نکالا جارہا ہے۔ یہ سارے کام ڈھکے چھپے نہیں ہو رہے ہیں۔ لیکن متعلقہ اداروں کے کرپٹ اہلکار بھتہ وصولی کر کے اس دھندے کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ ایک جانب یہ ناقص تیل مرضی کی قیمت پر فروخت کیا جارہا ہے.

دوسری جانب یہ مضر صحت پکوان تیل مختلف مقامی کمپنیوں کے نام پر کنستروں کے اندر چھپرا ہوٹلوں، چائے خانوں میں سپلائی ہو رہا ہے۔ اسی تیل کی وجہ سے شہر میں جگر، معدے، گردے اور دل کے امراض کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ٹھیلہ ہو، پتھارا ہو، ہوٹل ہو، اس ناقص تیل گھی کے استعمال کو کون روکے گا۔ یہ ہر گھر کی ضرورت ہے۔ بھاری نذرانے دے کر کارخانوں اور فیکٹریوں میں یہ ناقص تیل اور گھی تیل بنایا جا رہا ہے۔ جبکہ خالی پلاٹوں پر بھی چربی سے تیل کی تیاری کا عمل جاری ہے۔