کاشف ہاشمی:
کراچی کے ایک پوش علاقے میں واقع ایک فلیٹ سے حال ہی میں معروف اداکارہ حمیرا اصغر کی 9 ماہ پرانی لاش برآمد ہوئی تو سوشل و الیکٹرونک میڈیا سمیت پرنٹ میڈیا میں یہ واقعہ وائرل ہوگیا۔ یہ واقعہ نہ صرف ایک انسان کی تنہائی میں ہوئی دردناک موت کی نشاندہی کرتا ہے، بلکہ ہمارے معاشرتی رویوں، سوشل میڈیا کی کھوکھلی شہرت اور بے حسی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر بھی ایک گہرا سوالیہ نشان چھوڑ جاتا ہے۔
حمیرا کی لاش اْس وقت برآمد ہوئی جب مالک مکان نے کئی ماہ سے کرایہ نہ ملنے پر قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا۔ 8 جولائی کو گذری کے علاقے ڈیفنس فیز 6 میں واقع رہائشی عمارت کے تیسری منزل پر قائم فلیٹ پر جب پولیس، بیلف کے ہمراہ پہنچی تو فلیٹ کے اندر سے حمیرا کی تعفن زدہ لاش برآمد ہوئی۔ وہی حمیرا اصغر، جو سوشل میڈیا پر لاکھوں مداح رکھتی تھی، کئی ماہ پہلے اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھی اور کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔
حمیرا کا تعلق پنجاب سے تھا۔ وہ فنونِ لطیفہ کی تعلیم یافتہ، ذہین اور باصلاحیت خاتون تھی، جو اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے کراچی آئی اور یہیں ایک فلیٹ میں تنہا رہائش پذیر ہوگئی۔ وہ مختلف ٹی وی ڈراموں میں کام کر چکی تھی اور سوشل میڈیا پر انتہائی فعال تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نو ماہ تک اس کی غیر موجودگی پر نہ کوئی جاننے والا متفکر ہوا، نہ ہی کسی نے ایف آئی آر درج کرائی۔ اور نہ ہی کوئی رپورٹ، میڈیا یا سوشل پلیٹ فارمز پر نظر آئی۔
اس حوالے سے سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ہمیں ایک تلخ سچائی سے روشناس کرواتا ہے۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں فالوورز ہونا، حقیقی زندگی میں رشتوں اور تعلقات کی ضمانت نہیں۔ حمیرا کی لاش ملنے کے بعد، حسبِ روایت میڈیا نے سنسنی خیزی کو ہوا دی۔ قیاس آرائیاں، جھوٹی خبریں، اور اخلاق سے گری ہوئی باتوں کا بازار گرم ہوگیا۔ کسی نے کہا نشے کی زیادتی سے موت ہوئی، تو کسی نے قتل قرار دیا۔ تاہم پوسٹ مارٹم رپورٹ نے ان تمام دعوئوں کو مسترد کر دیا اور یہ واضح ہوا کہ ان کی موت کسی پرتشدد واقعے یا نشے کا نتیجہ نہیں تھی۔ یہ رویہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ہم ایک بے حس معاشرے میں تبدیل ہو چکے ہیں، جہاں کسی کی موت کو بھی محض خبروں کی ریٹنگ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ کچھ عرصہ قبل گلشن اقبال کے علاقے سے بھی معروف اداکارہ عائشہ خان کی سات دن پرانی لاش ملی تھی۔ دونوں کیسز میں ایک عجیب مماثلت ہے۔ تنہائی، بے خبری اور خاموشی سے موت۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟ یا ہماری چکاچوند بھری زندگی کا ایک بھیانک پہلو؟ اس ضمن میں حمیراکی والدہ کا ایک جملہ، پوری داستان کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے کہ ’’حمیرا اپنی زندگی میں بہت مشہور ہونا چاہتی تھی۔ لیکن اس کو ساری مشہوری اس کے مرنے کے بعد ملی۔‘‘
یہ جملہ صرف ایک ماں کے دکھ کی عکاسی نہیں، بلکہ یہ ایک پورے معاشرتی المیے کی نمائندگی کرتا ہے، جو اندر ہی اندر ہمیں کھوکھلا کر رہا ہے۔ اس لیے حقیقی رشتوں کی قدر کریں۔ خیالی دنیا کی چمک دمک کے بجائے، اصل زندگی کے رشتے اور تعلقات کو اہمیت دیں۔ اکیلا پن ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، معاشرے میں تنہا رہنے والے افراد، خاص طور پر خواتین کو مکمل مدد و معانت کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے ایک علاقہ مکین ساجد انصاری کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں رہنے والے افراد کا طرز زندگی ایسا ہے کہ لوگ اپنے اطراف میں رہنے والوں پر توجہ نہیں دیتے ماسوائے چندایک کہ جن کے آپس میں اچھے تعلقات ہوں۔ ورنہ کون کب آتا ہے، کب جاتا ہے، اس سے کسی سروکار نہیں ہوتا۔ پوش علاقوں میں زیادہ تر رہائشی افراد اپنی پرائیوسی کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ دوسروں کی زندگی میں بھی کسی قسم کی دخل اندازی سے گریز کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر فالوورز کی تعداد، حقیقی تعلقات کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ سنسنی کے بجائے، خبر کی صداقت اور انسانیت کا پہلو مقدم رکھا جائے۔ معاشرتی بے حسی کا علاج ضروری ہے۔
حمیرا اصغر کی موت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ انسان جتنا بھی مشہور ہو، اگر وہ تنہا ہے، تو اس کی زندگی خاموشی سے ختم ہو سکتی ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں؟ کیا ہم واقعی جیتے جاگتے انسانوں کا معاشرہ ہیں، یا صرف چلتے پھرتے پروفائلز کا ہجوم ہیں، یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos