محمد اطہر فاروقی :
یہ سنہ 1983ء کی بات ہے۔ بنگلہ دیش کے ضلع جھینائداہ (Jhenaidah) کی 18 سالہ رہائشی خاتون کو اپنے ایک بیٹے سمیت اغوا کر لیا جاتا ہے۔ خاتون کا دوسرا شیرخوار بچہ گھر کے اندر ہونے کی وجہ سے اغوا کاروں سے بچ جاتا ہے۔ انسانی اسمگلنگ کے کارندے اس خاتون کو بنگلہ دیش سے پاکستان لے آتے ہیں۔ پاکستان میں اس خاتون کو مختلف شہروں میں بیچا و خریدا جاتا ہے۔
آخرکار خاتون پورے ملک کا چکر لگانے کے بعد کراچی میں فروخت ہوتی ہے۔ خریدنے والا شخص اس خاتون کی شادی اپنے ماموں سے کروادیتا ہے۔ خاتون دوسری شادی کرکے اپنے بیٹے کے ساتھ کراچی کے علاقے منگھوپیر میں رہائش اختیار کر لیتی ہے۔ اپنا ماضی بھلا کر۔ اہل خانہ سے بہت دور۔ وہ اپنے حال کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی گزارنا شروع کردیتی ہے۔ گھر کی کفالت اور شوہر کے ساتھ ہاتھ بٹانے کیلئے اپنے ہی محلے میں لوگوں کے گھروں کے برتن دھونے کا کام کرتی ہے۔ اس خاتون کی دوسری شادی سے اسے بیٹی جیسی نعمت ملتی ہے۔ دن، مہینے اور برسوں گزر جاتے ہیں۔ عورت کے ماضی سے لاعلم پورا محلہ اس خاتون کو پیار سے نانی کہہ کر پکارتا ہے۔ جبکہ خاتون کا نام زاہدہ تھا۔
اسی محلے میں ایک گھر معروف نامی شخص کا تھا۔ جس کا بیٹا بھی اس خاتون کو نانی کہہ کہہ کر بڑا ہوا تھا۔ 24 سالہ وہ بیٹا 2018ء میں اپنے گھر کے آرام دہ صوفے پر بیٹھا دنیا سے بے خبر موبائل تھامے ڈیجیٹل دنیا میں مصروف تھا۔ والدہ کی آواز کانوں میں پڑی ’’سارا دن فیس بک میں لگے رہتے ہو۔ کچھ کام ہی کرلو۔ زیادہ سے زیادہ اس نانی (زاہدہ) کا بھی کچھ لکھ کر فیس بک پرڈال دو۔ تاکہ وہ اپنے گھر والوں سے مل سکے‘‘۔ یہ وہ واحد گھرانہ تھا۔ جو زاہدہ نانی کے ماضی سے واقف تھا۔ چنانچہ اس نوجوان نے والدہ کی بات مان لی۔ نانی سے مزید ماضی کے حالات جانے۔ فیس بک پر تمام داستان من و عن لکھ ڈالی۔ 7 دن میں نانی کی فیملی نے بنگلہ دیش سے 24 سالہ اس لڑکے سے رابطہ کیا۔ یوں 37 سال قبل اپنے آبائی گائوں دوبہ گاٹا پل ضلع جھینائدا بنگلہ دیش سے اغوا ہونے والی 65 سالہ زاہدہ عرف نانی اپنے اہل خانہ سے ایک ولی کے توسط سے مل گئی۔ 24 سالہ وہ لڑکا مولانا ولی اللہ معروف تھا۔
والدہ کی نصیحت/ حکم کو مان کر ولی اللہ نے 2018ء میں اپنے پیاروں سے بچھڑ جانے، اسمگل ہونے اور اغوا ہونے والوں کو اہل خانہ سے ملانے کے کام کا آغاز کیا۔
یہ محض کوئی ایک واقعہ نہیں۔ ایسے 300 بچھڑے ہوئے لوگوں کو اب تک اپنے پیاروں سے مولانا ولی اللہ معروف ملوا چکے ہیں۔ اسی ولی اللہ کی مدد سے 36 سالہ آصف کی ڈی این اے رپورٹ نے 34 سال بعد اہلخانہ سے ملاقات کروائی۔ اسلام آباد کے ایک مزار سے 2 برس کا بچہ اغوا ہوا۔ اغواکاروں نے اس بچے کو سرگودھا میں رکھا۔ بچے سے 10 برس کی عمر میں مزدوری کرواتے رہے اور اجرت بھی محض اپنے پاس رکھتے رہے۔ اغوا کاروں سے بھاگنے کے بعد سرگودھا سے کچھ آگے کسی فیملی نے آصف کی پرورش کی۔ 36 سال کی عمر میں آصف نے خود مولانا ولی اللہ سے رابطہ کیا۔ مولانا ولی اللی نے بچپن کی تصاویر اور ڈی این اے کی مدد سے اسے اس کے اہل خانہ کو ملوادیا۔
بچھڑے ہوئوں سے ملوانے کا یہ سلسلہ پاکستان اور بنگلہ دیش تک محدود نہ رہا۔ بلکہ دیگر ممالک تک بھی پہنچ گیا۔
’’امت‘‘ نے اس حوالے سے مولانا ولی اللہ معروف سے بات کی تو انہوں نے اپنے پیاروں سے بچھڑے ہوئے لوگوں کو ملوانے کے حوالے سے تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ’’میں 2018ء سے 2025ء تک 300 سے زائد ملکی و غیر ملکی افراد کو اپنے پیاروں سے ملوا چکا ہوں۔ ان افراد میں پاکستان، فلپائن، اردن، سعودی عرب، بنگلہ دیش، انڈونیشا، یمن، انڈیا و دیگر ممالک کے شہری شامل ہیں۔ ان ممالک میں سب سے زیادہ جن کیسز کو مکمل کیا۔ وہ ملک بنگلہ دیش ہے۔ مجموعی طور پر 300 کیسز میں سے 96 فیصد کیسز خواتین کے ہیں جو انسانی اسمگلرز کا شکار ہوئیں یا بچپن میں جن کو فروخت کر دیا گیا۔ بیشتر خواتین کی شادی کر کے دیگر ممالک لے جایا گیا اور اہلخانہ سے بات چیت تک نہیں کرنے دی گئی اور یہ خواتین 30 سے 40 برس تک اپنے پیاروں سے دور رہیں‘‘۔ ایک سوال پر مولانا ولی اللہ نے بتایا ’’سب سے پہلا زاہدہ (نانی) کے کیس میں ہمیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
زیادہ مشکل ویزہ لینے کیلئے ایمبیسی میں ہوئی۔ چھوٹے چھوٹے سے کام کیلئے گھنٹوں لائن میں کھڑا ہونے کے باوجود واپس بھیج کر اگلے دن بلایا جاتا تھا۔ لیکن اللہ پاک کے فضل و کرم سے زاہدہ نانی کا ویزہ مل گیا۔ ان کا کام ہوا اور اللہ پاک نے ہمارے معاملات میں آسانی پیدا کردی۔ اس کام میں میرے ساتھ کوئی ٹیم نہیں ہے۔ میں محض بذات خود سوشل میڈیا کے ذریعے اس کام کو کر رہا ہوں۔ البتہ کچھ دوست اور محسن موجود ہیں۔ جن سے مشورہ اور رائے لی جاتی ہے۔ اس کام کیلئے کسی قسم کا کوئی چندہ نہیں لیا جاتا۔ یہاں تک کہ جن فیملی کے بچھڑے ہوئے افراد کو ملاتے ہیں، ان سے کسی قسم کا ہدیہ تک نہیں لیتے۔
میرا اپنا یوٹیوب چینل ہے۔ اس سے آنے والی آمدن اسی کام پر خرچ کرتا ہوں۔ اگر کسی کیس میں بہت زیادہ خرچہ ہو رہا ہوتا ہے تو چند دوست ہیں، جن سے ذاتی طور پر پیسے لیتا ہوں‘‘۔ ایک اور سوال پر انہوں نے بتایا ’’کوئی کیس دیگر ملک کا ہوتا ہے تو وہاں رابطے کا واحد ذریعہ سوشل میڈیا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی تعلق دار اس ملک میں نکل آئے تو اس سے گزارش کر کے اپنا پیغام ان کے علاقائی زبان میں ترجمہ کر کے وہیں مختلف گروپوں میں چلواتا ہوں۔ اس سے رابطے تیزی سے ہوتے ہیں اور بچھڑے ہوئے افراد کو اپنے پیارے اور گھرانہ مل جاتا ہے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں مولانا ولی اللہ معروف نے کہا ’’مجھے 7 سال ہو چکے ہیں اس کام کو کرتے ہوئے۔ کبھی کسی حکومت اور ضلعی انتظامیہ نے نہ خود سے تعاون کیا اور نہ ہی ہم نے اس حوالے سے تعاون کی کوئی درخواست کی۔ البتہ ایک گزارش ضرور ہے کہ ہم جو کام کر رہے ہیں، ان میں مردوں کی بنسبت زیادہ خواتین ہیں۔ ان کو اپنے پیاروں سے ملانے کیلئے حکومت اور ضلعی انتظامیہ جتنا ممکن ہو، آسانیاں پیدا کرے۔ یہ کام کرنے میں بذات خود کبھی مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ لیکن اپنے قریبی ساتھوں کو دیکھا، جو مایوسی کا شکار ہو گئے تھے۔ سب سے پہلے کیس میں کچھ دوستوں نے ساتھ دینے کا عہد کیا۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مسلسل سفارت خانہ کا چکر لگ رہا ہے۔ اخراجات ہو رہے ہیں، جو سب مل کے کر رہے تھے۔
سفارت خانے کی جانب ایک بار ویزے کی درخواست کو بھی مسترد کردیا گیا تو وہ ان سب کی وجہ سے مایوس ہوئے اور ساتھ چھوڑ دیا۔ میں صرف اس کیس میں بس اسی امید سے لگا رہا کہ اللہ تعالی نے اس خاتون کا 35 سال بعد اپنوں سے رابطہ کروایا ہے تو وہی اللہ رب العزت اسی خاتون کو ان سے ملوانے کے راستے ہموار کریں گے۔ اس کیس میں بنگلہ دیش سے ایک ساتھی جن کا نام منظور تھا، وہ مسلسل دو برس تک ساتھ رہے اور بنگلہ دیش سے اپنی پوری کوشش کرتے رہے۔ جس کے بعد وہی ہوا جس کی امید تھی۔ 37 سال بعد اللہ پاک نے اس خاتون کو اپنے پیاروں سے ملوا دیا۔
مولانا والی اللہ نے ایک بلوچی سنگر کو اپنی بچھڑی ہوئی بیٹی سے ملوانے کا ایک دلچسپ قصہ سناتے ہوئے بتایا ’’سلیم بلوچ کی شادی ایک انڈین گھرانے میں ہوئی تھی۔ جس سے اس کے 4 بچے تھے۔ بیوی انتقال کر گئی۔ سلیم بلوچ نے بچوں کی اچھی پرورش کیلئے بیوی کی ہمشیرہ سے دوسری شادی کر لی۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد سلیم کی بیوی نے اپنے اہل خانہ سے ملنے کیلئے انڈیا جانے کا اردادہ کیا۔ اس کا ویزہ آگیا اور وہ خاتون انڈیا واپس چلی گئی۔ جس وقت خاتون انڈیا گئی تھی۔ اس وقت وہ حاملہ تھی۔ کچھ عرصے بعد خاتون کو اللہ نے بیٹی سے نوازا۔ یہ خبر سلیم بلوچ کو ملی تو اس نے اپنی بیوی کو ایک خط لکھا اور بچی کا نام بھی اسی خط میں لکھ دیا۔ باپ کی بیٹی سے ملنے کی تڑپ تو تھی۔ لیکن ملکی حالات کے باعث ویزہ نہیں ملا۔ سلیم بلوچ نے بہت جتن کیے۔ لیکن کچھ نہ ہوا اور انڈیا سے انویٹیشن لیٹر نہیں بھیجا جا سکا۔
کچھ عرصہ بعد سلیم بلوچ نے بھی جدوجہد بند کر دی اور اس کی بیوی نے بھی انڈیا میں دوسری شادی کرلی۔ سلیم بلوچ کی پہلی اہلیہ سے ہونے والے 4 بچے بھی بڑے ہوگئے اور بچوں نے اپنی بہن جو انڈیا میں تھی، اسے والد سے ملوانے کیلئے ہم سے رابطہ کیا اور ہم نے اپنے کام کا آغاز کردیا۔ ہم نے سوشل میڈیا پر ویڈیو کے ذریعے پیغام دیا، جو انڈیا میں پھیل گیا اور وہ بنگلور تک جا پہنچا۔ جہاں سلیم بلوچ کی بیوی رہتی ہے۔ چونکہ خاتون نے وہاں شادی کی ہوئی تھی تو اس کی وہ فیملی سلیم کی بیٹی سے بات نہیں کرنے دے رہی تھی۔ ایک بار ایسا بھی محسوس ہوا کہ یہ ہو بھی سکے گا کہ نہیں۔ اللہ کی مدد ساتھ تھی۔ آخرکار بہت منت سماجت کے بعد اس کی فیملی نے بیٹی کو اپنے باپ سے بات کرنے کی اجازت دی۔ 32 سالہ بیٹی نے اپنے والد کو پیدائش کے بعد پہلی بار دیکھا۔ اس طرح ہم نے انہیں ملوایا‘‘۔
نوٹ: مولانا ولی اللہ معروف سے ان کی ویب سائٹ waliullah.org پر رابطہ کرکے اپنے کوائف جمع کرائے جا سکتے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos