امت رپورٹ :
پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں حکمراں اتحاد دو تہائی اکثریت کے بالکل قریب پہنچ گیا ہے۔ ایوان زیریں (قومی اسمبلی) میں اتحادیوں کو پہلے ہی دو تہائی اکثریت حاصل ہوچکی ہے۔ یوں ستائیسویں ترمیم لانے کے لیے راستہ ہموار ہوچکا ہے۔ امکان ہے کہ رواں برس کے اختتام سے پہلے یہ ’’سنگ میل‘‘ بھی عبور کرلیا جائے گا۔
خیبرپختونخوا میں سینیٹ کی گیارہ سیٹوں پر الیکشن کے بعد ایوان بالا میں پارٹیوں کی جو نئی پوزیشن بنی ہے، اس حوالے سے سینیٹ کی آفیشل ویب سائٹ تاحال اپ ڈیٹ نہیں کی گئی ہے۔ آفیشل ویب سائٹ پر اب تک تراسی سیٹوں کی لسٹ ہے۔ تاہم ’’امت‘‘ کی ریسرچ کے مطابق خیبرپختونخواہ میں الیکشن کے بعد اب سینیٹ کا ایوان مجموعی طور پر پچانوے سیٹوں پر مشتمل ہے۔ اس میں چھبیس سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی، بائیس سیٹوں کے ساتھ پی ٹی آئی دوسری بڑی جماعت ہے۔
اگر ثانیہ نشتر کی خالی نشست بھی اسے مل جاتی ہے تو پھر ایوان بالا میں پی ٹی آئی کے سینیٹرز کی تعداد تئیس ہوجائے گی۔ نون لیگ بیس سینیٹرز کے ساتھ ایوان بالا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ جبکہ سات نشستوں کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام چوتھی پوزیشن اور پانچ سیٹوں کے ساتھ آزاد ارکان پانچویں، چار نشستوں کے ساتھ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) چھٹی اور تین نشستوں کے ساتھ ایم کیو ایم پاکستان ساتویں پوزیشن پر ہے۔
سینیٹ میں نئی پارٹی پوزیشن کے مطابق حکمراں اتحاد کی مجموعی نشستوں کی تعداد تریسٹھ ہے۔ اس میں پانچ آزاد ارکان شامل ہیں۔ جبکہ چھیانوے کے ایوان میں دو تہائی اکثریت کے لیے چونسٹھ ارکان کی ضرورت ہے۔ یوں یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے حکمراں اتحاد کو محض ایک سیٹ درکار ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایک سیٹ حاصل کرنا کوئی مسئلہ نہیں۔
چھبیسویں ترمیم کے موقع پر تو ایک بڑا خلا موجود تھا۔ تب بی این پی (مینگل) کے دو ارکان کو ساتھ ملاکر اور پھر جمعیت علمائے اسلام کے ارکان کی حمایت سے دو تہائی اکثریت کرکے حکمراں اتحاد نے ایوان بالا سے چھبیسویں ترامیم منظور کرالی تھیں۔ اب اگر حکمراں اتحاد پی ٹی آئی کے حامی ایک آزاد رکن کو ساتھ ملا لیتا ہے تو اسے آسانی کے ساتھ دو تہائی اکثریت مل جائے گی اور یوں ممکنہ ستائیسویں ترمیم کے لیے اسے جمعیت علمائے اسلام کے سہارے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
دوسری جانب نئی پارٹی پوزیشن کے مطابق اپوزیشن کے پاس اس وقت سینیٹ میں بتیس ارکان ہیں۔ اس میں مستعفی ہونے والی پی ٹی آئی کی ثانیہ نشتر کی سیٹ پر اکتیس جولائی کو الیکشن شیڈول ہے۔ یہ سیٹ حاصل کر کے ایوان بالا میں اپوزیشن ارکان کی تعداد تینتیس ہوجائے گی۔ تاہم موجودہ اپوزیشن منقسم ہے۔ لہٰذا ان بتیس یا متوقع تینتیس سیٹوں میں سے اگر جمعیت علمائے اسلام کی سات سیٹوں کو نکال دیا جائے تو حزب اختلاف کے پاس محض پچیس سیٹیں بچتی ہیں۔ پی ٹی آئی کے موجودہ بائیس سینیٹ ارکان کے ساتھ حقیقی حامی سینیٹرز کی تعداد محض تین ہے۔ ان میں سے ایک آزاد، ایک مجلس وحدت المسلمین اور ایک سنی اتحاد کونسل کا رکن سینیٹ ہے۔
جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) کا اس وقت سینیٹ میںکوئی رکن موجود نہیں ہے۔ گزشتہ برس تک بی این پی (مینگل) کے ایوان بالا میں دو ارکان قاسم رونجھو اور نسیمہ احسن موجود تھے۔ تاہم چھبیسویں ترامیم کے حق میں ووٹ دینے پر اپنے ان دونوں سینیٹرز کو بی این پی (مینگل) نے پارٹی سے نکال دیا تھا۔ دونوں سے استعفیٰ مانگا گیا تھا۔ تاہم ان میں سے صرف قاسم رونجھو نے استعفیٰ دیا تھا۔ جبکہ نسیمہ احسن نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ آزاد حیثیت میں سینیٹر منتخب ہوئی تھیں۔ البتہ انہیں بی این پی (مینگل) کی حمایت حاصل تھی۔ یوں نسیمہ احسن نے اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھتے ہوئے حکمراں اتحاد کو جوائن کرلیا۔ جبکہ قاسم رونجھو کے استعفے سے خالی ہونے والی سینیٹ کی سیٹ پر ان کے بیٹے اسد قاسم نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا اور حکمراں اتحاد کی حمایت سے فتح حاصل کی۔ یوں اسد قاسم بھی بطور آزاد امیدوار اب حکمراں اتحاد کے ساتھ ہیں۔ جبکہ بی این پی (مینگل) سینیٹ میں اپنے ارکان سے محروم ہوچکی ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos