مقصد زیرِ حراست شہریوں سے ناروا سلوک کا سدِ باب اور انسانی حقوق کا تحفظ ہے ، فائل فوٹو
 مقصد زیرِ حراست شہریوں سے ناروا سلوک کا سدِ باب اور انسانی حقوق کا تحفظ ہے ، فائل فوٹو

ایف آئی اے کو پولیس تشدد کیخلاف اختیارات مل گئے

عمران خان :

پاکستان میں زیرِ حراست افراد پر پولیس کا تشدد، مبینہ رشوت ستانی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے پس منظر میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے ایک غیر معمولی اور تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے ملک بھر میں ’’اینٹی ٹارچر یونٹ‘‘ (ATU) کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اقدام 2022ء کے انسدادِ تشدد ایکٹ کے تحت عمل میں لایا گیا ہے، جس کا مقصد زیرِ حراست شہریوں کے حقوق کا تحفظ اور پولیس کلچر میں موجود غیر قانونی رویوں کا خاتمہ ہے۔

دستیاب دستاویزات کے مطابق پاکستان میں پولیس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جھوٹے مقدمات، تشدد، جبری اعترافات، اور رشوت کے الزامات ایک دیرینہ مسئلہ بن چکے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) اور اقوامِ متحدہ کی متعدد رپورٹس کے مطابق ہر سال ہزاروں شہری زیرِ حراست تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔

2023ء کے دوران صرف پنجاب میں تین ہزار سے زائد تشدد کے کیسز رپورٹ ہوئے۔ جبکہ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی سینکڑوں مقدمات زیرِ تفتیش رہے۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ بیشتر متاثرین کا تعلق غریب، سیاسی طور پر غیر مؤثر یا پسماندہ طبقات سے ہوتا ہے، جہاں نہ صرف قانونی مدد کا فقدان ہوتا ہے بلکہ شکایات سننے والا کوئی فورم بھی میسر نہیں ہوتا۔ عام تاثر ہے کہ ایف آئی آر درج کروانے کے لیے ’’نذرانہ‘‘ دینا لازمی سمجھا جاتا ہے۔

ایف آئی اے کے ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ صوبائی پولیس کی تفتیشی کارروائیاں اکثر غیر قانونی طریقوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق اعترافی بیانات زیادہ تر مارپیٹ یا دھمکیوں سے حاصل کیے جاتے ہیں، جو نہ صرف غیر اخلاقی بلکہ قانوناً ناقابلِ قبول بھی ہیں۔

ان مسائل کے سدباب کے لیے ایف آئی اے نے انسدادِ تشدد اور حراستی اموات (روک تھام و سزا) ایکٹ 2022 کے تحت باقاعدہ ایس او پیز جاری کیے ہیں۔ ان ہدایات کے مطابق ہر زون میں ایک اینٹی ٹارچر یونٹ قائم کیا جائے گا، جس کی سربراہی کم از کم گریڈ 17 کے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو سونپی جائے گی۔ ATU کا دائرہ کار صرف زیرِ حراست تشدد اور خصوصاً تحویل میں اموات کی شکایات کی تحقیقات پر مرکوز ہوگا۔ کراچی زون میں ATU کے سربراہ کے طور پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر عظیم سرور کی تقرری عمل میں لائی گئی ہے، جو اینٹی کرپشن سرکل کراچی کے تحت کام کریں گے اور ان کی نگرانی ڈپٹی ڈائریکٹر کریں گے۔

اس نظام کے تحت کسی بھی شکایت کی تحقیقات کو 15 دن کے اندر مکمل کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ تاہم اگر کسی وجہ سے تحقیقات مکمل نہ ہو سکیں تو 5 دن کی مشروط توسیع دی جا سکتی ہے، یوں زیادہ سے زیادہ 20 دن میں انکوائری کا اختتام ضروری ہو گا۔ ہدایت کی گئی ہے کہ تاخیر کی صورت میں ذمہ دار افسر کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔
نئی پالیسی کے مطابق قومی انسانی حقوق کمیشن (NCHR) کو ہر شکایت، تحقیقات کے آغاز، کسی بھی ایف آئی آر کے اندراج، انکوائری کی بندش، اور فائنل رپورٹ کی فوری اطلاع دی جائے گی۔ اس کا مقصد ان تحقیقات پر غیر جانبدارانہ نگرانی کو یقینی بنانا ہے۔

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پولیس کے غیر انسانی رویوں کے خلاف سب سے زیادہ شکایات موصول ہوئیں۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 65 فیصد شکایات کا تعلق پولیس کے ناروا سلوک سے تھا، جبکہ 70 فیصد کیسز میں متاثرین نے عدالتی یا میڈیا کے ذریعے فریاد کی۔ ان میں سے بیشتر شکایات میں ایس ایچ اوز اور تفتیشی افسران پر براہِ راست تشدد یا رشوت کے الزامات لگائے گئے۔

ایف آئی اے کے ایک ذریعے کے مطابق اکثر کیسز میں صوبائی پولیس نے شہریوں کو سبق سکھانے کے لیے غیر انسانی تشدد کا سہارا لیا۔ ان کے بقول ATU کا قیام قانون کی بالادستی کی طرف ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، مگر اس پر مؤثر عملدرآمد تب ہی ممکن ہے جب دیگر ریاستی ادارے بھی تعاون کریں۔ یہ نیا نظام صرف مرکزی سطح پر مانیٹر نہیں کیا جائے گا، بلکہ ہر مرحلے پر NCHR کو تفصیلی رپورٹس فراہم کی جائیں گی، تاکہ مکمل شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ تاہم سول سوسائٹی کے مطابق، صرف قوانین بنانا کافی نہیں۔ ان پر عملدرآمد کے لیے پولیس اصلاحات، آزاد عدالتی نگرانی، اور عوامی شمولیت بھی ناگزیر ہے۔

ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں پولیس اور تفتیشی اداروں پر عوام کا اعتماد متزلزل ہو چکا ہے، وہیں صرف قانون سازی مؤثر نہیں ہو سکتی، بلکہ عملی اقدامات، شفافیت، آزاد نگرانی، اور بلا امتیاز احتساب ضروری ہیں۔ اگر ایف آئی اے کی ATU کارروائیاں نچلی سطح تک مؤثر طریقے سے پہنچتی ہیں تو یہ پاکستان کے نظامِ انصاف میں اصلاح کی سمت ایک عملی اور مضبوط قدم ثابت ہو گا۔