عمران خان :
کسٹمز انفورسمنٹ کے تحت تلف کرنے کیلیے جمع کیے گئے ممنوعہ سامان کا مکمل آڈٹ اور نگرانی نہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ جس کے نتیجے میں تلف کرنے کیلئے مختص سامان میں سے کروڑوں روپے کا سامان چوری ہونے اور مارکیٹ میں فروخت ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ماضی کے بعض واقعات کی روشنی میں اس نظام کو ابھی تک اس لئے شفاف نہیں بنایا گیا، تاکہ کروڑوں روپے کی کرپشن ملی بھگت سے آسانی سے کی جاتی رہے۔
خاص طور پر آئندہ دو دنوں میں کسٹمز کے ضبط شدہ سامان میں موجود ٹنوں کے حساب سے ممنوعہ اشیا جن میں غیر ملکی شراب، چھالیہ اورخنزیر کی چربی والا چینی نمک اجنیو موتو شامل ہے، غائب کرکے مارکیٹ میں فروخت کرنے کی تیاری کرلی گئی ہے۔
’’امت‘‘ کو اہم ذریعے نے بتایا کہ 27 تاریخ سے 30 تاریخ تک کسٹمز انفورسمنٹ کے تحت انسداد اسمگلنگ کی کارروائیوں میں ضبط کیے جانے والے ہزاروں ٹن سامان کو تلف یعنی ڈسٹرکشن کرنے کیلئے جمع کرلیا گیا ہے۔ سامان کو تلف کرنے کیلئے متعلقہ عدالت سے اجازت نامے حاصل کرلئے گئے ہیں اور کلکٹریٹ کی جانب سے بھی اس کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس سامان میں غیر ملکی شراب، مضر صحت اسمگل شدہ چھالیہ اور اجینو موتو یعنی چائنا نمک کی بھاری مقدار اور تعداد شامل ہے۔
ذرائع نے انکشاف کیا کہ اس تمام سامان کی مذکورہ درجنوں کیسز میں ضبط کی گئی مقدار اور تعداد مقدمات اور چالان کا حصہ ہے۔ جبکہ عدالت کو پیش کی جانے والی رپورٹوں میں بھی اس کی مالیت اور مقدار درج ہے۔ تاہم جب اس سامان کو تلف کرنے کیلئے خصوصی طور پر مختص کیے گئے پلاٹ پر پہنچایا جاتا ہے تو یہاں پر ایسا کوئی آڈٹ کا نظام موجود نہیں۔ جس میں عملی طور پر تصدیق اور جانچ کی جائے کہ دستاویزات میں موجود مقدار کے مطابق ہی سامان پلاٹ پر پہنچایا گیا ہے۔ حالانکہ قوانین کے مطابق یہ سامان کسٹمز کے پہرے یعنی مسلح اسکارٹ میں پلاٹ تک پہنچایا جاتا ہے اور وہاں ایک بار پھر اس کی وڈیو اور تصاویر کے علاوہ اعلیٰ افسران کی موجودگی میں مقدار اور تعداد کی تصدیق کا مکمل تعین کیا جانا ضروری ہے۔
تاہم عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا بلکہ ملی بھگت سے بہت سی مقدار راستے میں ہی نکال کر مخصوص گوداموں میں پہنچا دی جاتی ہے اور معمولی مقدار کو خراب سامان کے ڈھیر کے ساتھ تلف کرکے آگ اور ٹریکٹر چلاکر تباہ کرنے کی تصاویر اور وڈیوز بنالی جاتی ہیں۔ جس میں کلکٹریٹ کے اعلیٰ افسران بھی موجود ہوتے ہیں۔ تاکہ اس پورے عمل کا ریکارڈ رکھا جاسکے۔ جبکہ دوسرے طریقہ کار میں یہ کیا جاتا ہے کہ ہزاروں بوتلیں، چھالیہ کے بورے اور نمک کی بوریاں پہلے ہی کھمبے لگانے کی آڑ میں کھودے گئے گڑھوں میں دبا دیے جاتے ہیں اور اوپر آگ لگا کر کچھ سامان جلا دیا جاتا ہے۔ اور اس پر کیمیکل ڈال کر یا ٹریکٹر چلا کر اس کو تباہ کرنے کی کارروائی کو ظاہر کیا جاتا ہے۔
ذرائع کے بقول بعد ازاں جیسے ہی تقریب ختم ہوتی ہے تو نیٹ ورک کے کارندے آکر ان شراب کی بوتلوں اور بوریوں کو نکال کر گاڑیوں میں لادنے کے بعد مخصوص گوداموں کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں۔ جہاں اس ممنوعہ سامان کو شراب کے ڈیلروں اور ہول سیل تاجروں کو سپلائی کردیا جاتا ہے۔ جن سے پہلے ہی ایڈوانس رقم وصول کرکے ان کو سامان فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی جاتی ہے۔ اسی ایڈوانس رقم سے کسٹمز افسران کی جیب بھری جاتی ہے اور ساتھ ہی ان کے کھانے پینے کے اور دیگر قسم کی عیاشیوں کے اللے تللے پورے کئے جاتے ہیں۔
خاص طور پر غیر ملکی شراب کو کراچی کے ضلع جنوبی کے مختلف علاقوں درخشاں، گزری، کلفٹن، ساحل، ڈیفنس فیز فائیو، فریئر اور بوٹ بیسن کے علاقوں میںسپلائی کیا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں موجود 11 مختلف خفیہ ڈمپنگ پوائنٹس کے ذریعے انگریزی شراب کی بڑی مقدار میں سپلائی کی جا رہی ہے۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ ان غیر قانونی ڈیلرز کو سیاسی شخصیات، میڈیا ہائوسز کے بعض رپورٹرز، پولیس اور ایکسائز افسران کی سرپرستی حاصل ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائی کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ یہ کاروبار چند مخصوص ڈیلرز کے ذریعے کھلے عام جاری ہے۔ جو اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف مفت میں قیمتی شراب حاصل کرتے ہیں، بلکہ اس کی فروخت میں بھی معاونت کرتے ہیں۔ ذرائع کے بقول اگر آج ہی اس پورے عمل کی چھان بین کی جائے تو ان تمام باتوں اور کرپشن کے حقائق سامنے لائے جاسکتے ہیں اور اس پورے عمل کو شفاف بنانے کیلئے اس کو فی الوقت روکا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس سے ایک جانب ادارے میں کرپشن کا عمل پروان چڑھ رہا ہے تو دوسری طرف ممنوعہ سامان جو کسٹمز کی کارروائیوں میں ضبط کیا جاتا ہے، وہ گھوم پھر کر دوبارہ سے انہیں پارٹیوں کو مل جاتا ہے جنہوں نے اس میں سرمایہ کاری کر رکھی ہاتی ہے۔
ذرائع کے بقول چینی نمک (اجینو موتو) کی بھاری مقدار بھی چھپا کر لائی جارہی ہے، جسے کراچی کی مرکزی مارکیٹوں میں سپلائی کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں جو اجینو موتو 150 روپے کلو کے حساب سے فروخت ہوتا تھا، وہ اب قانونی درآمد کے بند ہونے کے بعد پہلے 600 روپے کلو تک پہنچا۔ تاہم اب اس کی قیمت 900 اور 1000 روپے کلو کے درمیان آگئی ہے۔ یہ نمک مکمل طور پر اسمگل کرکے لایا جارہا ہے۔ کراچی سمیت ملک بھر کے زیادہ تر پکوان ہائوسز اور ہوٹلوں پر کھانوں کے ذائقے کو بڑھانے کیلئے یہی حرام اجزا پر مشتمل غیر قانونی نمک استعمال کیا جا رہا ہے۔
ماضی میں یہ نمک اجینو موتو کے برانڈ سے قانونی طور پر عام فروخت ہوا کرتا تھا۔ بعد میں سپریم کورٹ میں مسلسل سماعتوں کے بعد جاری کی گئی ہدایات کی روشنی میں امپورٹ پالیسی آرڈر 2016ء میں ایس آر او1 (18) 226 کے تحت اجینو موتو کی درآمد پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ کیونکہ اس میں حرام اجزا (خنزیر کی چربی) کثرت میں موجود ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos