سکھوں کی طرح مسلمانوں کو مذاکرات میں پھنسایا جا رہا ہے، فائل فوٹو
سکھوں کی طرح مسلمانوں کو مذاکرات میں پھنسایا جا رہا ہے، فائل فوٹو

بھارتی مسلمانوں کو رام کرنے کی نئی سازش

نواز طاہر:
بھارت کے مسلح گروپ راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے مسلمانوں کے خلاف نفرت، تشدد اور قتل و غارت گری کا اعتراف کرتے ہوئے مسلمانوں کو سکھوں کی طرح مذاکرات کے جال میں پھنسانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ مخصوص عزائم کی تکمیل کیلئے اٹھائے جانے والے ان اقدامات پر بی جے پی اور آر ایس میں اختلافات میں شدت بھی تسلیم کی گئی ہے اور بعض سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

ان مذاکرات کی ابتدا آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کی اور اس کی تائید شیوسینا نے بھی اخباری بیانات کے ذریعے کی ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور مسلم رہنمائوں و علمائے کرام کے مابین ہونے والے مذاکرات/ مکالمے کے بارے میں شیو سینا کے میراٹھی زبان میں شائع ہونے والے ترجمان اخبار ’’سامنا‘‘ کے اداریے میں مسلمانوں کے خلاف آر ایس ایس کے انتہا پسندوں کی طرف سے مسلم دشمنی، اقلیتوں کے خلاف سنگین اقدامات خاص طور پر فسادات بھڑکانے، نفرت پھیلانے اور اشتعال انگیز کارروائیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کارروائیوں کے نتیجے میں سات سو کسانوں کی ہلاکت کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔

پہلگام واقعے کو بنیاد بناکر پاکستان کے خلاف جارحیت اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی جوابی فاتحانہ عسکری کارروائیوں سے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر ہزیمت کا سامنا کرنے کے بعد بی جے پی کی حکومت اور اس کے شدت پسند عسکری ونگ آر ایس ایس نے ایک ہی ایجنڈے پر رہتے ہوئے سیاسی، انتظامی اور عسکری سطح پر الگ الگ انداز سے اپنی کارروائیاں شروع کی ہیں۔ جن کے تحت انتظامی سطح پر ہندوتوا ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے مودی اقدامات میں تیزی لائی گئی ہے تو عسکری سطح پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی کی سوچ رکھنے والوں کے گھروں اور املاک کو ملیا میٹ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں انتہا پسند اور حریت پسندوں کا ساتھی قرار دے کر گرفتاریوں اور ماورائے قتل کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

جبکہ انتظامی سطح پر مختلف ریاستوں میں مسلم مخالف اقدامات بھی جاری ہیں۔ جن میں عربی میں اذان پر پابندی بھی شامل ہے۔ آزادی پسندوں اور حقوق کی بات کرنے والوں کے خلاف سخت قانون سازی کے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ جبکہ مودی حکومت مسلمانوں کو زک پہنچانے اور مسلم ورثے (تاریخی عمارتوں، عبادت گاہوں اور مزارات) کی جگہ پر مندر بنانے کی راہ ہموار کرنے کیلئے وقف املاک کا قانون پہلے ہی تبدیل کر چکی ہے۔ اس قانون کے خلاف مسلمانوں کی تمام تنظیموں نے بھارت میں تحریک شروع کر رکھی ہے۔ جسے عالمی سطح پر حمایت مل رہی ہے۔

پاکستان پر جارحیت اور جوابی کارروائی سے ہزیمت کا سامنا کرنے والی مودی سرکار نے اپنے ایجنڈے پر رہتے ہوئے مسلم رہنمائوں کو انگیج کرنے کیلئے بات چیت شروع کی ہے۔ مکالمے کا آغاز آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کیا ہے اور اب تک اسّی سے ایک سو کے قریب علما اور مسلم دانشوروں سے مکالمہ کیا گیا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ موہن بھاگوت اگلے ماہ ستمبر کے دوسرے ہفتے میں عوامی سیاست سے ریٹائر ہونے والے ہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد مسلم رہنمائوں سے ہونے والے مکالمے اور ممکنہ طے پانے والے معاملات بے وقعت ہو جائیں گے اور مودی حکومت اسی دوران اپنے ایجنڈے کی تکمیل جاری رکھے گی۔

اس مکالمے کے حوالے سے شیوسینا کے ترجمان جریدے ’سامنا‘ نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ بھاگوت (موہن بھاگوت) نے مسلمانوں کی اذیتوں اور ان کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ بالخصوص اس وقت جب بی جے پی کے کچھ حلقے مسلم کمیونٹی کو نشانہ بناکر ملک میں کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔ لیکن شیوسینا نے سوال اٹھایا ہے کہ نو ہندوتوا کارکن (انتہا پسند نوجوانوں کا نیا جذباتی خون) موہن بھاگوت کے اس اقدام کو قبول کرے گا؟ اداریے میں لکھا گیا ہے کہ وزیر نتیش رانے جیسے افراد جنہوں نے حالیہ ایام میں مسلمانوں کے خلاف زہریلے بیانات دیئے ہیں، وہ یقینا اس (مکالمے) کی مخالفت کریں گے اور ممکن ہے کہ رانے وزارت سے استعفیٰ بھی دے دیں۔

اداریے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ مسلم دشمنی کو بنیاد بناکر اور اشتعال انگیزی کے ساتھ ساتھ انارکی پیدا کر کے سیاسی فائدے بھی اٹھائے جارہے ہیں اور وقف املاک کی پراپرٹی بھی ہڑپ کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ وقف املاک کے قانون میں تبدیلی کے وقت مسلم رہنمائوں کی طرف سے یہی موقف اختیار کیا گیا تھا۔ اداریے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چند لوگ سیاسی فائدے کی خاطر مسلمانوں کو نشانہ بناکر سماج میں اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جسے انتخابی مہم میں ’’بٹیں گے تو کٹیں گے‘‘ یا ’’ایک ہیں تو محفوظ ہیں‘‘ کے نعرے دیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی اداریے میں یہ بھی یاد دلایا گیا ہے کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران سنتوش دیش سکھ، مہادیو منڈے اور ہرشیل پاٹل جیسے افراد کی جانیں گئیں۔ جبکہ سات سو کسان بھی ہلاک ہوئے۔

اداریے میں تسلیم کیا گیا کہ وقف املاک بورڈ میں ترمیم کرنے کی بی جے پی کی کوششیں بھی متنازع ہیں۔ جس (ترمیم) پر مسلم قیادت ناخوش ہے۔ بی جے پی وقف کی قیمتی زمینیں اپنے حمایتیوں کو فروخت کرنا چاہتی ہے۔ ایسے حالات میں جبکہ کچھ لوگ ہندوتوا کو توڑ مروڑ کر سیاسی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں، بھاگوت کے مکالمے کی کوششیں اہم ہیں۔ مگر ستیش رانے جیسے لوگوں کیلئے صدمے کا باعث ہے۔ اداریے میں اس مکالمے کے مقاصد کے ساتھ ساتھ انتہا پسندوں کے اقدامات کو بھی واضح کیا گیا ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت میں گزشتہ ہفتے سخت گیر قوانین، جس کی وجہ سے روشن خیال اور حقوق کی گفتگو کرنے والے مسلمانوں کو مشکلات پیش آرہی ہیں، مسلم رہنما اسد اویسی نے حمایت کی ہے۔ سکھ رہنما انمول سنگھ ڈھلوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی بنیادی طور پر مسلمانوں کو ایسے گھیر رہی ہے، جس طرح بھارتی حکومت نے سکھوں کو مذاکرات میں الجھایا تھا۔ جبکہ اس مکالمے کے دوران سبھی دیکھ رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت کے کسی خطے میں انتہا پسند آر ایس ایس کی شرمناک کارروائیوں اور بھارتی حکومت کے عالمی قوانین کے منافی اقدامات میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ ان حالات میں مسلم رہنمائوں کو جاگتے رہنے کی ضرورت ہے۔