فائل فوٹو
فائل فوٹو

سائبر کرائم کی وارداتوں میں سالانہ 50 فیصد اضافہ

عمران خان :
نیشنل سائبر کرائمز انویسٹیگیشن ایجنسی سابقہ (ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ) نے گزشتہ 5 برسوں میں شہریوں کے ساتھ ملک بھر میں پیش آنے والی 6 لاکھ سے زائد وارداتوں کے رپورٹ ہونے کے باوجود صرف ایک فیصد سے بھی کم یعنی ہونے 6 ہزار وارداتوں پر مقدمات درج کیے۔ جبکہ صرف 73 ہزار شکایتوں پر تحقیقات کے لئے انکوائریوں کی منظوری ہوئی۔ جس کی سب سے بڑی وجہ جدید آلات کی کمی اور قابل افرادی قوت کا فقدان سامنے آیا ہے۔

پاکستان میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے استعمال میں تیزی سے اضافے نے جہاں عوامی زندگی میں سہولتیں پیدا کی ہیں۔ وہیں نئی اقسام کے جرائم کا بھی راستہ ہموار کیا ہے۔ خاص طور پر 2020ء سے 2025ء کے درمیانی عرصے میں سائبر کرائمز میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے نیشنل سائبر کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کے قیام جیسے اقدامات کیے گئے۔

لیکن ’’امت‘‘ کو موصول ہونے والے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ عملی سطح پر یہ کوششیں ابھی تک مطلوبہ نتائج نہیں دے سکیں۔ نیشنل سائبر کرائمز انویسٹیگیشن ایجنسی کے زرائع سے ملنے والے ڈیٹا کے مطابق سابقہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران مجموعی طور پر 6 لاکھ 39 ہزار 564 شکایات موصول کیں۔ ایف آئی اے سے علیحدہ ہو کر این سی سی آئی اے بننے کے بعد گزشتہ 6 ماہ کے قلیل عرصہ میں ملک بھر سے 75 ہزار سے زائد سائبر کرائمز کے کیس رپورٹ ہوئے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گزرتے برسوں میں انٹر نیٹ موبائل لیپ ٹاپ وغیرہ کے استعمال سائبر کرائمز کی وارداتوں میں ہر برس 50 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔

ڈیٹا کے مطابق ان میں سے تقریباً چار لاکھ 14 ہزار شکایات کی تصدیق کی گئی، جن پر ادارے نے کارروائی کی۔ اگرچہ ان شکایات کی بنیاد پر صرف 73 ہزار سے زائد شکایات پر انکوائریوں میں تحقیقات کا آغاز ہوا۔ لیکن عدالت میں دائر مقدمات کی تعداد محض 5 ہزار 713 رہی۔ یعنی 5 برس میں موصول ہونے والی مجموعی شکایتوں میں سے صرف ایک فیصد سے بھی کم وارداتوں پر مقدمات قائم کئے جاسکے۔ جو مکمل طور پر ناکافی ہیں۔ وفاقی ادارے نے اس عرصے کے دوران مجموعی طور پر 7 ہزار 20 افراد کو گرفتار کیا۔ تاہم قابل سزا ٹھہرائے جانے والوں کی تعداد صرف 222 رہی۔ یہ تناسب کل مقدمات کا محض تین اعشاریہ ایک چھ فیصد بنتا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں سائبر کرائمز کے خلاف عدالتی کارروائیاں نہایت سست اور غیر مؤثر ہیں۔

ڈیٹا کے مطابق سال بہ سال اگر شکایات کے حجم کو دیکھا جائے تو 2020ء میں تقریباً ایک لاکھ دو ہزار سائبر کرائمز کی شکایات سامنے آئیں۔ اگلے برس 2021ء میں ان کی تعداد 1 لاکھ 15 ہزار تک پہنچ گئی۔ 2022ء میں شکایات کی شرح مزید بڑھی اور 1 لاکھ 45 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ 2023ء میں شکایات کا گراف 1 لاکھ 52 ہزار تک جا پہنچا۔ البتہ 2024ء کے ابتدائی نو مہینوں میں شکایات کی تعداد میں بظاہر کمی دیکھی گئی، جو 1 لاکھ 24 ہزار کے قریب رہی۔ تاہم امکان ہے کہ سال کے اختتام تک یہ تعداد پھر سے 1 لاکھ 60 ہزار کے قریب پہنچ گئی ہو۔ شکایات میں یہ اتار چڑھاؤ ایک طرف تو ایف آئی اے کے ڈیجیٹل مانیٹرنگ نظام کی کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی آشکار کرتا ہے کہ سائبر کرائمز کا دائرہ وقت کے ساتھ ساتھ مسلسل بڑھ رہا ہے۔

ایجنسی کے ڈیٹا کے مطابق موصول ہونے والی شکایات میں سب سے زیادہ تعداد مالیاتی فراڈ سے متعلق تھی۔ آن لائن بینکنگ، ایزی پیسہ، جاز کیش اور کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کے نام پر دھوکہ دہی کے بے شمار کیسز درج کیے گئے۔ ایک عام طریقہ واردات میں متاثرہ شخص کو کسی جعلی کمپنی یا مالیاتی ادارے کا نمائندہ بن کر کال کی جاتی ہے، اور اسے OTP یعنی Password One Time شیئر کرنے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کا اکاؤنٹ خالی کر دیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ جعلی ای کامرس ویب سائٹس اور سوشل میڈیا مارکیٹنگ کے ذریعے سستے داموں مہنگی اشیا کی ترسیل کا وعدہ کر کے صارفین سے رقم بٹورنا بھی عام ہو گیا ہے۔ این سی سی آئی اے سابقہ (ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ) کی تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ پر جعلی نوکریوں کی پیشکش یا پارٹ ٹائم آن لائن کام کے ذریعے بھی لوگوں کو مالی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ ان فراڈز میں عموماً متاثرہ فرد کو ابتدائی طور پر کچھ رقم کما کر دی جاتی ہے تاکہ وہ اعتماد حاصل کر سکیں۔

بعد ازاں بڑی سرمایہ کاری کی ترغیب دے کر تمام رقم ہتھیا لی جاتی ہے۔ان کیسز میں بعض گروہ بیرون ملک سے کام کر رہے ہوتے ہیں، جبکہ پاکستان میں موجود ان کے کارندے صرف مقامی بینک یا موبائل اکاؤنٹس کے ذریعے رقم وصول کرتے ہیں۔ ایجنسی کے ذرائع کے مطابق ایسے ہی ایک واقعے میں اسلام آباد کے علاقے ایف-11 سے رواں سال ایک گروہ کو گرفتار کیا گیا جو واٹس ایپ پر لوگوں کو روزانہ 2000 سے 5000 روپے کمانے کا لالچ دے کر ان سے بھاری سرمایہ کاری کرواتا تھا۔ بعد میں یہ گروہ تمام رابطے منقطع کر دیتا تھا۔

تحقیقاتی ذرائع کے مطابق یہ لوگ کمبوڈیا، تھائی لینڈ اور دبئی میں موجود دیگر گروہوں کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے۔ موصول ڈیٹا کے مطابق سائبر کرائم کی دوسری عام قسم خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق ہے۔ اس میں جعلی اکاؤنٹس، بلیک میلنگ، نازیبا تصاویر یا ویڈیوز کے ذریعے دھمکیاں شامل ہیں۔ متاثرہ خواتین کی اکثریت سائبر کرائم ونگ سے مدد کی درخواست کرتی ہے۔ لیکن اکثر کیسز میں پولیس یا ادارہ یہ مشورہ دیتا ہے کہ ’بس اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیں‘ یا ’نمبر بلاک کر دیں‘، جس سے قانونی کارروائی اکثر آغاز تک نہیں پہنچتی۔

واضح رہے کہ 2024ء میں حکومت نے نیشنل سائبر کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کے قیام کا اعلان کیا۔ جس پر رواں برس کے آغاز میں عملدرآمد کردیا گیا۔ اس کا مقصد خصوصی طور پر سائبر کرائمز کی روک تھام کے لیے ایک خود مختار ادارہ تشکیل دینا تھا۔ تاہم صرف چند ماہ بعد ہی دسمبر 2024ء میں اسے دوبارہ ایف آئی اے کے ماتحت کر دیا گیا، جس سے نہ صرف ادارے کی خودمختاری ختم ہوئی۔ بلکہ اس کا بنیادی ڈھانچہ بھی غیر مستحکم ہو گیا۔ ماہرین کے مطابق اگر NCCIA کو آزادانہ اور مستقل حیثیت میں کام کرنے دیا جاتا تو شاید موجودہ خراب صورتحال میں بہتری آ سکتی تھی۔

اس وقت این سی سی آئی اے سابقہ (ایف آئی اے سائبر ونگ کے) پاس جدید ٹیکنالوجی، تربیت یافتہ عملہ اور موثر قانونی اختیار کی شدید کمی ہے۔ کئی کیسز میں فارنسک ڈیٹا، ڈیجیٹل شواہد یا تکنیکی ماہرین کی عدم دستیابی کی وجہ سے مقدمات کمزور ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف عدالتوں میں سائبر کرائم کے مقدمات کی شنوائی سست روی کا شکار ہے، جس کے باعث متاثرہ افراد کو سالوں تک انصاف نہیں ملتا۔

ذرائع کے بقول سائبر کرائمز کی روک تھام کیلئے سب سے پہلے اداروں کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ نیشنل سائبر ایجنسی کو ایک خودمختار اور تکنیکی لحاظ سے مضبوط ادارہ بنایا جائے جو پولیس، عدلیہ، اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون کر کے بروقت کارروائی کر سکے۔ ساتھ ہی عوام میں بھی آگاہی کی شدید ضرورت ہے تاکہ لوگ OTP یا بینکنگ معلومات شیئر نہ کریں، جعلی جاب آفرز سے ہوشیار رہیں اور ہراسگی کی صورت میں فوری رپورٹ کریں۔

این سی سی آئی کے سینیئر افسر کے مطابق عدلیہ کے نظام میں بھی تیزی لانا ہوگی۔ موجودہ PECA (پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ) قانون کے تحت سائبر کرائمز کے مقدمات کے لیے مخصوص عدالتوں کا قیام تو موجود ہے، لیکن ان میں کیسز کی تعداد اور فیصلوں کی شرح انتہائی کم ہے۔ اگر عدالتیں اور تحقیقاتی ادارے مل کر کام کریں تو سزا یافتہ شرح میں بہتری آ سکتی ہے، جو فی الوقت تشویشناک حد تک کم ہے۔ ایجنسی ذرائع کے مطابق پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں عوام بڑی تعداد میں ڈیجیٹل معیشت کا حصہ بن رہے ہیں، وہاں سائبر کرائمز کی روک تھام حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ایف آئی اے کی کوششیں اپنی جگہ، لیکن جب تک قانون، ادارے اور عدلیہ متحرک اور ہم آہنگ نہیں ہوں گے، تب تک متاثرہ افراد کو انصاف ملنا محض ایک خواب ہی رہے گا۔