چوہدری خورشید انور ”تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے ”

حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود سہارن پوری

[email protected]

جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھرڈوبے اُدھر نکلے’ اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
ہمارے دوست ‘ رفیق’ مربی’ دکھ’ مصائب اورخوشی کے ”یارغار” چوہدری خورشید انور کو جہاں فانی سے کوچ کئے 60 دن ہوگئے۔ دل اور دماغ ابھی تک انکی رحلت تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے نہ آمادہ !! زندگی کی 63 بہاریں دیکھ کر عشق ومستی کا یہ ستارہ 27 مئی 2025 کی شب خالق حقیقی کی جناب میں پیش ہوگیا۔ سیرت ومیلاد کمیٹی کے سرپرست اعلی اور صدر پاسبان وطن کے محبان نے 2 جون کو چہلم نشست میں چوہدری صاحب کو خوب یاد کیا۔ تاجدار مدینہۖ سے وابستگی کا بار بار حوالہ چوہدری خورشید انور کیلئے جنت کی بشارت محسوس ہوا، اللہ کریم انہیں کروٹ کروٹ فردوس بریں کا حقدار بنائے رکھے ‘ مولانا کوثر نیازی یاد آگئے!!
در جنت پہ یہ رضواں نے کہا لوگوں سے
جن کو نسبت ہے محمدۖ سے گزرتے جائیں
یہ 26مئی 2025 کی شام ڈھلے اور پھر رات کا قصہ ہم اپنے بڑے بھائی ”جنت مکیں” حکیم سید حسن محمود سہارنپوری کی جدائی کے غم سے بے حال اور نڈھال تھے ایسے میں پاس بیٹھے چوہدری خورشید انور ہر بار ڈھارس بندھانے کے لیے نشست سے کھڑے ہو جاتے” حکیم صاحب اللہ کی رضا” آپ تو صبر وشکر کا مجسمہ ہیں آپ نے ہمت توڑ دی اور صبروضبط کا دامن چھوڑ دیا تو اہل خانہ کا کیا بنے گا؟ دونوں گلے لگ جاتے لیکن دونوں طرف سے دانستہ آنسووں کو بہنے کی اجازت نہ ہوتی۔ مجھے پتہ تھا نہ خورشید صاحب آگاہ تھے مگر تقدیر سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی وہ جانتی تھی کہ چند گھنٹے بعد صبر ورضا کا درس دینے والا ” خورشید” بھی غروب ہو جائے گا۔شب کے 12 بجے !!گھڑی کی سوئیوںنے جیسے ہی تاریخ کا ورق پلٹا ہم نے زبردستی خورشید صاحب کو گھر جانے ، آرام کرنے کا مشو رہ دیا اور پھر جبراً انہیں روانہ کر دیا۔ دونوں کا یہ آخری مصافحہ اور آخری ملاقات تھی وہ گھر پہنچے آرام کے لیے بستر پہ دراز ہوئے پھر موت نے مہلت نہ دی
لے او یار حوالے رب دے اے میلے چار دناں دے
اس دن عید مبارک ہوسی جس دن فیر ملاں گے
محبت’ اپنائیت ‘ الفت اور احساس کا مرقع خورشید انور دوستوں کو جوڑنے اور محفل کی رونق بننے کا ہنر جانتا تھا۔ شہر میں قومی اور ملی تہواروںپرتقاریب کا اہتمام کرنا اس کا عشق تھا وہ دوستوں کی جدائی کے موقع پر انکے تعزیتی ریفرنس کا خاص اہتمام کرتا اور پھرمحبان کو پلیٹ فارم دیتا کہ وہ جانے والے کی یادوں کے چراغ روشن کریں …خورشید انور کی زندگی کا وہ پہلو جس نے انہیں منزہ وتاباں کیا ہوا تھا وہ رسول محتشمۖ سے محبت’ عشق اور وارفتگی تھی۔ حب نبیۖ ان کا اوڑھنا بجھونا اور جینا مرنا تھا ۔ نعت ومیلاد اور ذکر واذکار کی محافل میں ذوق وطلب سے شرکت کرتے اور دیر تک ثناء خوانوں، ذاکرین اور خطباء کے تاثرات و خیالات سے محفوظ ہوتے ۔ انہوں نے زندگی میں لاتعداد پروگرام کئے مگر ربیع الاول کے ایونٹ میں ان کا جوش’ جذبہ عقیدت’احترام وتحریم مثالی ہوتا۔ وہ خود کہتے حکیم صاحب میلاد اور سیرت کی محافل کے لیے کوششیں کرنا ہی ہمارا توشہ آخرت ہے۔
یادش بخیر… 28 مئی یوم تکبیر کے غیر معمولی پروگرام کو حتمی شکل دینے کے بعد مطب پر بیٹھے ہوئے انکشاف کیا کہ پروگرام کی ترتیب فائنل ہوگئی ہے لیکن جب تک آپ کی مشاورت اور رضا مندی شامل نہ ہو پیش بندی نہیں ہوگی۔ یہ تھی ہماری اور خورشیدانور کی محبت، عقیدت اور ارادت کی جھلک ،اللہ پاک انہیں رسول محتشمۖ کا سایہ نصیب کرے ‘ آمین۔ ہم یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ رب کائنات ان کے صاحب زادوں چوہدری حسنین خورشید اور چوہدری شاویز خورشید کو اپنے والد کا عکس (پرتو) بنا دے تاکہ وہ بھی خدمت انسانیہ سے خود کو ممتاز وبالا بناتے رہیں!!