میگزین رپورٹ :
محمد کے بعد یحییٰ برطانیہ میں سب سے زیادہ رکھے جانے والا نام بن گیا۔ جبکہ غزہ جنگ کے بعد سے اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر حملے کے بعد سے حماس کے شہید رہنما یحییٰ سنوار کا نام برطانیہ میں تیزی سے مقبول ہوا ہے۔ جہاں رواں برس بھی ہزاروں بچوں کی پیدائش پر ان کا نام یحییٰ رکھا گیا۔
2023ء میں ناموں کے اعدادوشمار رکھنے والی برطانوی فہرست میں یحییٰ نام کے بچے 93 ویں نمبر پر تھے۔ جبکہ 2024ء میں یحییٰ کا نام 33 ویں درجے پر آیا۔ جبکہ رواں برس حیران کن طور یہ نام فہرست میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔ او این ایس کے مطابق گزشتہ برس برطانیہ میں پیدا ہونے والے 583 بچوں کو یہ نام دیا گیا تھا۔ او این ایس کے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق، نام محمد نے ایک بار پھر سرفہرست مقام حاصل کر لیا ہے۔ یہ نام مسلسل دوسرے سال سب سے زیادہ بچوں کیلئے رکھا گیا۔ 2024ء میں، 5 ہزار721 بچوں کا نام ’’محمد‘‘ رکھا گیا، جو اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 23 فیصد اضافہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ برطانیہ کے ناموں کے رجحانات میں تبدیلی کی عکاسی ہے۔
ماہرین کا کا خیال ہے کہ برطانیہ بھر میں عربی نژاد ناموں کی مقبولیت میں اضافہ جاری ہے۔ نام محمد کی برطانیہ میں ایک طویل اور اہم تاریخ ہے۔ 1924ء کے برطانوی اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت صرف ایک سو بچوں کا نام محمد رکھا گیا تھا۔ لیکن 1960ء کی دہائی سے مسلسل بڑھنا شروع ہوا، جس کی وجہ برطانیہ میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداد میں آمد تھی۔ 1980ء سے او این ایس ڈیٹا میں ’’محمد‘‘ کے نام نے سب سے زیادہ مقام حاصل کیا۔ لڑکوں کی درجہ بندی میں محمد کے بعد نوح اور اولیور تھے۔ جنہوں نے بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر اپنی 2023ء میں پوزیشن برقرار رکھی۔
دوسری جانب غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں سام دشمنی اور اسلامو فوبیا میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جبکہ کونسل آن امریکن، اسلامک ریلیشنز (کیر) کی ایک رپورٹ میں مغرب میں نفرت پر مبنی جرائم اور تعصب کی ایک بڑی تعداد کی نشاندہی کی گئی ہے۔ امریکی ادارے ایف بی آئی کے نفرت انگیز جرائم کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں 10 ہزار سے زیادہ ایسے واقعات ریکارڈ ہوئے۔ جو سب سے زیادہ سام دشمنی پر مبنی تھے۔ یورپ اور آسٹریلیا میں یہودی عبادت گاہوں پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
یورپی یونین کی ایجنسی ایف آر اے کے مطابق جنگ شروع ہونے کے بعد سے سام دشمنی میں 400 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ یہ دشمنی مختلف نوعیت کی ہے۔ جس میں آن لائن سام دشمنی، عوامی سطح پر دشمنی اور رہائشی کو ہراساں کرنا شامل ہے۔ اسی طرح فرانس میں بھی یہودیوں کو ناپسندیدہ طبقہ سمجھا جارہا ہے۔ جبکہ برلن میں بھی سام دشمنی میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ادھر ایف بی آئی کے مطابق غزہ جنگ کے بعد امریکہ میں مسلم مخالف نفرت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔
دو ماہ میں اسلامو فوبیا کے واقعات میں 300 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ اسی طرح کے نمونے یورپ اور آسٹریلیا میں سامنے آئے۔ کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز نے دو برس کے دوران 8 ہزار 061 مسلم مخالف واقعات کی اطلاع دی، جو تاریخ کی بلند ترین شرح ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں بھی اسلام مخالف جذبات میں نمایاں آضافہ ہوا۔ ناروے، اسپین اور یونان جیسے ممالک میں مسلم مخالف نفرت انگیز جرائم میں اضافہ دیکھا گیا، جیسے کہ جسمانی اور زبانی حملوں میں اضافہ، خاص طور پر مذہبی لباس پہننے والی خواتین کو نشانہ بنانا۔ اس نفرت کے برعکس غزہ جنگ کے بعد سے اسلام اپنانے والوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ دائرہ اسلام میں آنے والے افراد کا زیادہ تر تعلق امریکہ، افریقہ، آسٹریلیا اور برطانیہ سے ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام قبول کرنے والے زیادہ تر افراد فلسطینی عوام سے متاثر ہوئے ہیں۔ آسٹریلیا میں خواتین کے ایک گروپ نے حالیہ اسرائیلی حملوں کے درمیان ’غزہ کے رہائشیوں کے جذبے‘ سے متاثر ہو کر میلبورن کی میڈو ہائٹس مسجد میں اسلام قبول کیا تھا۔ 30 خواتین پر مشمتل اس گروپ نے غزہ میں لوگوں کی ثابت قدمی کی تعریف کی۔ جس سے وہ اسلامی عقیدے کو تلاش کرنے اور بالآخر اسے قبول کرنے پر آمادہ ہوئیں۔ معروف امریکی بلاگر ایبی حفیظ نے بھی اسلام قبول کرلیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے عزم نے انہیں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کیا۔ اسی طرح آسٹریلوی پادری گولڈ ڈیوڈ نے اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا اور اپنا نام تبدیل کر کے عبدالرحمن رکھ لیا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos