عمران خان :
بچوں کی اسمگلنگ کے نئے اسکینڈل میں این جی او ہوپ کی چیئر پرسن کی ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد سنسنی خیز انکشافات سامنے آنے لگے ہیں۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے نے ہوپ کے مرکزی دفتر سے چھاپے کے دوران قبضے میں لئے گئے لیپ ٹاپ، کمپیوٹرز اور دستاویزی ڈیٹا کی چھان بین شروع کر دی ہے۔ جبکہ گرفتار خاتون عہدیدار کے ساتھ رابطے میں موجود ملک میں او ر بیرون ملک افراد کو بھی شامل تفتیش کر کے ان کے بینک اکائونٹس کا ڈیٹا طلب کرلیا ہے۔
پاکستان میں انسانی ہمدردی، بچوں کی فلاح اور این جی اوز کے نام پر جاری کئی سرگرمیوں کا حقیقی چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہو چکا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایف آئی اے کراچی نے ایک بڑی کارروائی کرتے ہوئے معروف فلاحی تنظیم HOPE (ہوپ) کی چیئر پرسن ڈاکٹر مبینہ قاسم اگبوٹوالا کو بچوں کی اسمگلنگ کے الزامات پر گرفتار کیا ہے۔ یہ گرفتاری نہ صرف ایک فرد یا تنظیم کا معاملہ ہے، بلکہ اس سے پاکستان میں انسانی حقوق اور ویلفیئر کے نام پر جاری ایک گہرے، مشتبہ نیٹ ورک کی پرتیں بھی کھلنے لگی ہیں۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق این جی او (ہوپ) بظاہر ایک ویلفیئر ادارہ تھی۔ جو برسوں سے ملک میں صحت، تعلیم اور سماجی خدمات کے شعبے میں سرگرم نظر آتی رہی۔ لیکن حالیہ شواہد نے اس تصور کو چکنا چور کر دیا ہے۔ دراصل، یہ تنظیم ایک منظم بین الاقوامی نیٹ ورک کا حصہ نکلی۔ جو بچوں کو بیرونِ ملک منتقل کرنے کے لیے جعلی کاغذات، فرضی سرپرست اور جھوٹے معاہدے استعمال کرتا ہے۔ تحقیقات اس وقت تیز ہوئیں، جب امریکی قونصل خانے نے ایف آئی اے کو شکایت درج کروائی، جس میں HOPE کے توسط سے بھیجے گئے چند بچوں کی دستاویزات میں خطرناک حد تک تضادات کی نشاندہی کی گئی۔ شکایات میں بچوں کے والدین یا سرپرستوں کی عدم موجودگی اور ان کی شناخت کے ناقابلِ یقین دعوے شامل تھے۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل (AHTC) کراچی نے اس معاملے کی گہرائی میں جا کر ایسے ناقابلِ تردید شواہد حاصل کیے، جنہوں نے HOPE کے اصل مقاصد کو آشکار کیا۔ ڈاکٹر مبینہ قاسم نے گرفتاری سے بچنے کے لیے عدالت سے قبل از گرفتاری ضمانت کی درخواست کی۔ تاہم پیر کے روز عدالت نے یہ درخواست مسترد کر دی۔ اُسی روز ڈاکٹر مبینہ کو حراست میں لے لیا گیا۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ یہ گرفتاری ایک بڑے نیٹ ورک کے خلاف کریک ڈائون کی شروعات ہے۔ جس کے تحت مزید افراد، بیرون ملک رابطہ کار اور مقامی سہولت کاروں کو بھی شامل تفتیش کیا جائے گا۔
ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم سے جڑے ایک افسر کے مطابق HOPE این جی او کا یہ اسکینڈل اگرچہ سنسنی خیز ہے۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں جب انسانی حقوق کی آڑ میں بچوں کی مشتبہ منتقلی کا انکشاف ہوا ہو۔ 2025ء کے آغاز میں مشہور سماجی کارکن صارم برنی بھی ایک متنازع کیس میں ملوث پائے گئے۔ ایک غیر ملکی جوڑا پاکستان آیا اور ان کے ہمراہ ایک نابالغ بچہ ملک سے باہر جاتے ہوئے ایف آئی اے کے ریڈار پر آ گیا۔
تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ یہ بچہ صارم برنی ویلفیئر فائونڈیشن کے ذریعے گود لیا گیا تھا۔ لیکن گود لینے کے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے تھے۔ والدین یا سرپرست کی رضامندی، عدالتی حکم یا وزارت داخلہ کی منظوری جیسی لازمی شرائط پوری کیے بغیر بچہ ملک سے باہر لے جایا جا رہا تھا۔ واضح رہے کہ صارم برنی نے اپنی صفائی میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ بچہ یتیم تھا اور اسے بہتر مستقبل کی طرف لے جانے کے لیے یہ اقدام کیا گیا تھا۔ مگر کیس کی فائل میں موجود تضادات، قانونی خلا اور دستاویزی کمزوریاں آج بھی کئی سوالات کو جنم دیتی ہیں۔ یہ کیس بعد میں میڈیا کی توجہ سے ہٹ گیا اور کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکا۔
ذرائع کے بقول ایف آئی اے کی فائلوں میں ایسے کئی کیسز موجود ہیں۔ جن میں بچوں کی بیرون ملک منتقلی مشتبہ انداز میں ہوئی۔ 2015ء میں لاہور میں ایک این جی او کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا۔ جہاں سے متعدد جعلی کفالت نامے، پیدائشی سرٹیفکیٹس اور ویزا درخواستیں برآمد ہوئیں۔ اس تنظیم نے کئی غریب خاندانوں سے بچوں کو مفت تعلیم اور کفالت کے نام پر لے رکھا تھا۔ لیکن ان میں سے کئی بچوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ اس کے علاوہ 2018ء میں پشاور میں ایک غیر معروف تنظیم کے دفتر سے بھی اسی نوعیت کا مواد برآمد ہوا تھا۔ اس کے دفتر میں غیر ملکی ایجنٹس کی آمد و رفت اور بین الاقوامی کالز کے ریکارڈ نے شکوک کو بڑھا دیا۔ بچوں کو خلیجی ممالک، یورپ اور امریکہ میں کفالت یا گود لینے کے نام پر بھجوایا جا رہا تھا۔ لیکن قانونی تقاضے مکمل نہیں کیے جا رہے تھے۔
ڈیٹا کے مطابق ایف آئی اے کا اینٹی ہیومن ٹریفکنگ ونگ انسانی اسمگلنگ کے خلاف کئی کامیاب کارروائیاں کر چکا ہے۔ 2021ء میں اس ادارے نے ایک ایسے گروہ کو گرفتار کیا۔ جو بچوں کو جعلی کفالت کے کاغذات کے ذریعے خلیجی ممالک بھیجتا تھا۔ اسی طرح 2023ء میں بلوچستان سے بچوں کی اسمگلنگ کی ایک کوشش کو ناکام بنا کر 15 بچوں کو بازیاب کرایا گیا اور ملوث افراد کو گرفتار کیا گیا۔ تاہم ادارے کو اس راہ میں کئی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ قانونی نظام کی پیچیدگیاں اور عدالتی سطح پر ثبوتوں کی کمزوری ہے۔ بیشتر کیسز میں متاثرہ بچوں کے والدین یا سرپرست گواہی دینے سے قاصر ہوتے ہیں یا خاندانی دبائو کی وجہ سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
ایف آئی اے کے افسران کا کہنا ہے کہ طاقتور این جی اوز کے سیاسی روابط بھی اکثر تفتیشی عمل کو متاثر کرتے ہیں۔ ساتھ ہی بین الاقوامی اداروں اور سفارت خانوں کے ساتھ محدود معلوماتی روابط کے باعث کئی بار تفتیش کی راہ میں رکاوٹ آتی ہے۔ ایف آئی اے افسران کے مطابق پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف کئی قوانین موجود ہیں۔ جن میں 2002ء کا پریوینشن آف ٹریفکنگ ان پرسنز ایکٹ اور 2018ء کا پروٹیکشن آف چِلڈرن ایکٹ شامل ہیں۔ ان قوانین کے تحت بچوں کی غیر قانونی منتقلی، جعلی دستاویزات کا استعمال اور کفالت کے عمل میں جعلسازی قابلِ سزا جرائم ہیں۔ لیکن ماہرین کے مطابق جب تک تحقیقاتی اداروں کو مکمل آزادی، وسائل اور حکومتی پشت پناہی حاصل نہیں ہوگی، ان قوانین کا موثر اطلاق ممکن نہیں۔ ایسے کیسز نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے چیلنج ہیں۔ بلکہ عوامی اعتماد کو بھی شدید متاثر کرتے ہیں۔
فلاحی ادارے اور این جی اوز جنہیں عوام اور ریاست بچوں کے تحفظ اور بہتری کے لیے فنڈز اور اختیارات دیتے ہیں، جب وہی ادارے معصوم بچوں کی اسمگلنگ جیسے جرائم میں ملوث نکلیں تو یہ پورے سماجی ڈھانچے پر سوالیہ نشان ہے۔ ایک افسر کے مطابق ہوپ این جی او کا اسکینڈل محض ایک فرد یا ادارے کا جرم نہیں۔ بلکہ ایک پورے نظام کی کمزوری کی علامت ہے۔ اگر ایسے کیسز کو منطقی انجام تک نہ پہنچایا گیا تو پاکستان میں فلاحی تنظیموں پر عوام کا اعتماد مکمل طور پر ختم ہو سکتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ حکومت، عدالتیں اور تحقیقاتی ادارے مل کر اس نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑیں۔ ورنہ ’’انسانی حقوق‘‘ کا نعرہ صرف ایک پردہ بن کر رہ جائے گا۔ جس کے پیچھے انسانیت کا سودا ہوتا رہے گا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos