فائل فوٹو
فائل فوٹو

آبرو لوٹنے والے 4 اوباش اپنے انجام کو پہنچ گئے

نواز طاہر:

لاہور کے مضافاتی علاقے میں کھیتوں میں قاری اور اس کی اہلیہ پر جسمانی و جنسی تشدد کرنے والے چاروں اوباش یکے بعد دیگرے اسی طرح اپنے انجام کو پہنچ گئے جیسے اسی نوعیت کے حافظ آباد میں پیش آنے واقعے میں چار میں سے مرکزی ملزم انجام کو پہنچا تھا۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ دونوں واقعات میں ایک ہی جیسی مماثلت ہے اور دونوں واقعات کے آٹھوں ملزموں نے اسلحہ کے زور پر تشدد اور آبروریزی کی اور کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ ( سی سی ڈی ) سے مقابلے میں مارے گئے۔

ایک ماہ کے اندر ان دو واقعات نے صوبے میں سنسنی پھیلا دی ہے۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ مجرم جلد یا بدیر اپنے انجام کو ضرور پہنچتا ہے۔ ان آٹھوں اوباشوں کی ہلاکت پر سوشل میڈیا اور نجی محفلوں میںان کے ’انجام ‘ کو درست قراردیا جارہا ہے اور کہا جارہا کہ اگر ایسے افراد کو سر عام پھانسی لگائی جائے جو براہِ راست ٹیلی کاسٹ کی جائے تو اس سے ہوس کار درندوں کی حوصلہ شکنی اور شہریوں میں احساس تحفظ پیدا ہوگا۔

یاد رہے کہ گذشتہ مہینے کے آخری دنوںمیں تیس جولائی کی شب چار موٹرسائیکل سواروں نے شاہ پور کانجراں میں دینی تعلیم دینے والے قاری عباس اور اس کی اہلیہ (ک) کو کلہاڑی گردن پر رکھ کر کھیتوں میں میں بے آبرو کیا تھا اور فرار ہوگئے تھے۔ تھانہ چوہنگ میں اس واقعے کے بارے میں اگلے روز مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں قاری عباس نے بتایا کہ ’’پونے نو بجے شب اپنی اہلیہ کے ساتھ کھیتوں میں ٹہلتے ہوئے ایک سائید پر بیٹھ کر باتیں کررہے تھے کہ اسی دوران اٹھارہ سے چوبیس سال کی عمر کے تین افراد آئے جو ہمیں کلہاڑی سے ڈراتے ہوئے زبردستی کھیتوں میں لے گئے جہاں ہم دونوں کو زبردستی بے لباس کیا۔

انہوں نے میری اٹھارہ سالہ بیوی کو جبری جنسی تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر فون کرکے اپنے چوتھے ساتھی کو بھی بلالیا جو ان سے سات سے آٹھ برس زیادہ عمر کا تھا۔ اس نے بھی اپنے پہلے تین ساتھیوں جیسا ظلم کیا اور پھر موٹرسائیکل پر سوار ہو کر فرار ہوگئے۔‘‘ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ جون میں سامنے آنے والے حافظ آباد کے تھانے کسوکی کے واقعے کی بھی کیفیت ایسی ہی تھی جہاں چار افراد نے موٹرسائیکل سوار میاں بیوی کو اپریل میں اسلحہ کے بل پر بے بس کرکے اور باندھ کر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ ساتھ ہی اس کی ویڈیو بھی بنائی تھی جو بعد میں سوشل میڈیا پر وائرل کردی گئی تھی جس پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

اب شاہ پور کانجراں میں بھی قاری اور اس کی بیوی ان اوباشوں کے ہتھے حادثاتی طور پر چڑھے اور ظلم کا شکار ہوگئے۔ حافظ آباد میں ایک ملزم لئیق کو پولیس نے حراست میں لینے کے بعد چھوڑ دیا تھا۔ لیکن سوشل میڈیا پر شور مچنے پر اسے دوبارہ حراست میں لیا گیا تھا جو بعد میں مبینہ پولیس مقابلے میں پولیس کے مطابق اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا تھا جو اسے چھڑانے کے لئے آئے تھے۔

ذرائع کے مطابق اوباشوں کے ظلم کے بعد قاری عباس نے ملزموں کے فرار ہونے کے بعد پولیس کے پاس پہنچ کر تمام روئیداد سنائی تھی جس پر پولیس نے ضابطے کی کارروائی پورے کرتے ہوئے میڈیکل ٹیسٹ کے بعد جبری آبروریزی کی تصدیق ہونے پر مقدمہ درج کرلیا تھا۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ وقوعہ کے وقت قاری اپنی ناراض بیوی کو منانے کے لئے گھر سے باہر سیر کروانے کے لئے لے کر گیا تھا جہاں پیچھے سے تینوں اوباش افراد بھی آگئے۔ پولیس نے ان دونوں کے بیان کردہ حلیے کو سامنے رکھتے ہوئے سائنسی خطوط پر ملزمان کو تلاش کیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزموں کی شناخت میں کلہاڑی نے اہم کردار ادا کیا اور ملزم ابتدائی طور پر ایک سے زائد مقام پر ٹریس ہوئے۔ موٹرسائیکل اور نشے کی لت بھی ان کا سراغ لگانے میں معاون ثابت ہوئی۔ یہ چاروں ملزم یکے بعد دیگرے دو روز کے وقفے سے ہلاک ہوئے ہیں۔ سی سی ڈی کی طرف سے جاری اعلامیے کے مطابق ملزم اویس اور ارشاد نے پولیس پارٹی پر حملہ کیا تھا جس دوران ایک اہلکار زخمی بھی ہوا تھا۔ تاہم بلٹ پروف جیکٹ پہنے ہونے کی وجہ سے سے اس کی جان بچ گئے۔

جبکہ اسی دوران یہ دونوں ملزم اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے۔ دو روز کے بعد تیسرا ساتھی زاہد بھی ایسی ہی حالت میں اپنے انجام کو پہنچا اس وقت ساتھ ہی یہ اطلاع بھی چل رہی تھی کہ چوتھا ساتھی ملزم مطیب بھی ہلاک ہوگیا، تاہم اس کی تصدیق نہیں کی گئی تھی لیکن اگلے روز ہی مطیب کے بارے میں بھی تصدیق کی گئی کہ ملزم مطیب جائے وقعہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر زیر تعمیر ایل ڈی اے ستی ہائوسنگ اسکیم کے قریب پولیس کے ساتھ مقابلے کے دوران ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا۔ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزموں نے اس ظلم کی ویڈیو بھی بنائی تھی۔

سول سوسائٹی کے متحرک رہنما ناصر اقبال کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ قصوروار اپنے انجام کو پہنچ گئے، طریقہ بھلے جیسا بھی ہو ، وہ اس وقت زیادہ اہم نہیں۔ اہم یہ ہے کہ انہون نے جو ظلم کیا ، اس کا انجام یہی ہونا چاہیئے تھا۔ دوسری جانب اس واقعے کے بعد قاری عباس نے مسلسل فون بند رکھا ہے اور وہ چند مخصوص افراد کے ماسوا کسی سے رابطے سے گریز کررہے ہیں۔ قریبی ذرائع کے مطابق دونوں میاں بیوی مسلسل صدمے میں ہیں۔