محمد قاسم :
افغان مہاجرین کی واپسی کے بعد یو این ایچ سی آر میں کام کرنے والے سینکڑوں افسران و ملازمین کے فارغ ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ ان افسران و ملازمین کی ڈیوٹی افغان مہاجرین کو سہولیات کی فراہمی اور ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے سمیت ان کے ڈیٹا سے متعلق تھی۔ تاہم اب ذرائع کے بقول افغان مہاجرین کی واپسی کے بعد افغان مہاجرین کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والے اس ادارے کے ملازمین کی خدمات یا تو کسی دوسرے ادارے کو منتقل کیے جانے کا امکان ہے یا ان کے فارغ ہونے کا خدشہ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فی الحال تمام افسران و ملازمین اپنے ادارے میں کام کر رہے ہیں اور جو خدمات ان کے ذمے لگائی گئی ہیں، اس کی انجام دہی میں مصر وف ہیں۔ دوسری جانب خیبرپختون میں واقع 43 افغان مہاجرین کے کیمپ بند کر دیئے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق کیمپوں کی منسوخی کا فیصلہ یکم اگست کو اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا تھا۔ جبکہ صوبائی حکام نے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی واپسی کے منصوبے پر عملدرآمد کیلئے مرکزی حکومت سے رہنمائی طلب کرلی ہے۔
ذرائع کے بقول ضلعی حکام اور آر وی اے افسران پی او آر اور اے اے سی کارڈ ہولڈرز کی دوبارہ میپنگ کریں گے اور رضا کارانہ واپسی کے خواہشمندوں کی فہرست تیار کریں گے اور حکومتی فیصلوں سے آگا ہ کرنے کیلئے مہم چلائی جائے گی۔ جبکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق طورخم سے پی او آر کارڈ زرکھنے والے 924 افغان باشندے واپس روانہ ہو گئے۔
امیگزیشن حکام کے مطابق مجموعی طور پر 43 ہزار 944 اے سی سی کارڈ والے افغان شہری واپس جا چکے ہیں۔ واضح رہے کہ پشاور میں لگ بھگ 20 ہزار سے ایک لاکھ تک افغان کاروباری تاجر بھی موجود ہیں۔ جنہوں نے لاکھوں اور کروڑوں روپے کی سرمایہ کی ہے اور مختلف مقامات پر ان کی چھوٹی بڑی فیکٹریاں اور دیگر کاروبار بھی موجود ہے۔ جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبر بازار، نمک منڈی، بورڈ، رنگ روڈ، حیات آباد اور یونیورسٹی روڈ سمیت ابدرہ اور دیگر مختلف مقامات پر افغان تاجروں کی تفصیلات بھی جمع کی جارہی ہیں اور ان تاجروں کو بھی کاروبار کی فکر لاحق ہے کہ کاروبار سمیٹ کر یا فروخت کر کے واپس افغانستان چلے جائیں۔ جبکہ پشاور کی افغان کالونی سمیت دیگر علاقوں میں افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے کیمپوں کا رخ کیا ہے تاکہ اپنے وطن واپس چلے جائیں۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض علاقوں میں ابھی بھی افغان مہاجرین کام اور کاروبار میں مصروف ہیں۔ جس میں دیہاڑی دار ایسے محنت کش اور مزدور بھی شامل ہیں جن کا افغان میں کوئی رشتہ دار نہیں۔ چونکہ امریکی جنگ کے دوران ان کے افغانستان میں گھر بار اور کاروبار تباہ ہو چکے ہیں۔ اس لئے وہ ابھی تک پشاور اور صوبے کے دیگر اضلاع میں ہی مقیم ہیں۔ افغان مہاجرین کی تنظیموں کی جانب سے مطالبات بھی کیے گئے ہیں کہ افغان مہاجرین کو پاکستان میں ٹھہرنے کیلئے مزید وقت دیا جائے۔ تاہم اس بار افغان مہاجرین کو واپسی کیلئے مزید مہلت دینا مشکل ہے۔ تاہم ابھی تک پشاور اور صوبے کے دیگر اضلاع میں واپس نہ جانے والے افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈائون اور آپریشن شروع نہیں کیا گیا۔ بلکہ صرف ڈیٹا اکٹھا کیا جارہا ہے۔ اگر یکم ستمبر کے بعد بھی وہ پاکستان میں ہی مقیم رہے تو پھر ان کے خلاف سخت کارروائی کا امکان ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos