فائل فوٹو
فائل فوٹو

مضرِ صحت چھالیہ کیس کی تحقیقات میں نئے انکشافات

عمران خان :

مضر صحت چھالیہ کی غیر قانونی درآمد کی ایف آئی اے تحقیقات، پلانٹ پروٹیکشن کراچی کے افسران سے ہوتی ہوئی اسلام آباد میں ڈائریکٹر جنرل آفس تک وسیع ہوگئی ہے۔ نئے انکشافات سامنے آنے پر ایف آئی اے نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے پلانٹ پروٹیکشن کو بھی شامل کرکے پوچھ گچھ کے لیے طلب کرلیا ۔ ڈی جی پلانٹ اینڈ پروٹیکشن طاہر عباس کے حوالے سے انکشاف یہ بھی ہوا ہے کہ انہوں نے چھالیہ کی کھیپوں کی کلیئرنس کے لئے 15کروڑ روپے بطور رشوت پر معاملات طے کروائے اور 10کروڑ روپے دو قسطوں میں وصول کئے۔ ڈی جی کو تمام تر ریکارڈ کے ساتھ طلب کیا گیا جن کے لئے سوالنامہ تیار کرنا شروع کردیا گیا ہے۔

موصول معلومات کے مطابق ایف آئی اے کی تفتیش امتیاز الحق نامی شہری کی شکایت پر شروع ہوئی، جس میں الزام لگایا گیا کہ طاہر عباس نے چھالیہ (بیٹل نٹ) کی بائیو سیکورٹی کلیئرنس کے عوض 15 کروڑ روپے رشوت طلب کی، جن میں سے 10 کروڑ روپے مبینہ طور پر دو قسطوں میں ادا بھی کیے گئے۔ شکایت میں یہ بھی کہا گیا کہ ڈائریکٹر قرنطینہ محمد باسط، جو ایک BS-18 افسر ہونے کے باوجود تین BS-19 عہدوں پر فائز ہیں اور پہلے ہی 2019ء کے ایک کیس میں گرفتار ہوچکے ہیں، اس معاملے میں شریک ہیں۔ مزید برآں پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (PCSIR) کے اہلکاروں پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے ٹیسٹ رپورٹس اور کلیئرنس سرٹیفکیٹس میں جعلسازی کی تاکہ مخصوص درآمد کنندگان کو فائدہ پہنچایا جائے اور دباو? ڈال کر مالی مفاد حاصل کیا جا سکے۔

ذرائع کے مطابق اس کیس میں رشوت ستانی، سرکاری دستاویزات میں جعلسازی، اختیارات کا ناجائز استعمال اور بلیک میلنگ جیسے سنگین جرائم شامل ہیں۔ اگر یہ الزامات ثابت ہوگئے تو یہ نہ صرف فرد کی سطح پر بلکہ ادارہ جاتی بدعنوانی کا واضح ثبوت ہوں گے۔ پاکستان کے قانون کے مطابق ایسے جرائم میں قید، بھاری جرمانے اور سرکاری ملازمت سے برطرفی جیسے نتائج شامل ہو سکتے ہیں۔ایف ا?ئی اے نے طاہر عباس کو 8 اگست 2025 کو دوپہر 2 بجے سب انسپکٹر شمس گوندل کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ غیر حاضری کی صورت میں یک طرفہ کارروائی کی جائے گی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایف ا?ئی اے اس کیس کو نہایت سنجیدگی سے لے رہی ہے اور تفتیش کو ترجیحی بنیادوں پر ا?گے بڑھا رہی ہے۔

تحقیقات میں عمر راو?تھور، محمد عمر فاروق، طیب ولیات (اینٹومولوجسٹ) اور عمران علی (جونیئر کلرک) جیسے افراد کے نام بھی سامنے ا?ئے ہیں جو مختلف سطحوں پر کلیئرنس اور رپورٹنگ کے عمل میں شامل تھے۔ ان سب پر الزام ہے کہ وہ ایک منظم نیٹ ورک کا حصہ تھے، جس میں PCSIR کے اہلکار بھی شامل ہیں جنہوں نے بائیو سیکیورٹی ٹیسٹ کے نتائج میں ردوبدل کیا۔گزشتہ کئی برسوں سے DPP/NAFSA پر غیر فنی اور غیر میرٹ پر تعیناتیوں کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ زرعی اجناس کی درا?مد و برا?مد کے لیے لازمی بائیو سیکیورٹی، قرنطینہ اور لیبارٹری جانچ کے عمل کو برقرار رکھنے میں یہ ادارہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے، لیکن اندرونی بدانتظامی اور سیاسی اثرورسوخ نے اس کے نظام کو کمزور کر دیا ہے۔

چھالیا جیسے اجناس میں بائیو سیکیورٹی کلیئرنس کا جعلی ہونا پاکستان کی عالمی منڈی میں ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف برا?مدات پر پابندیاں لگنے کا خطرہ ہے بلکہ مقامی کاشتکاروں اور صارفین کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ عالمی برا?مدی منڈیوں میں شفافیت اور معیارات کی پابندی بنیادی شرط ہے، اور اس کی خلاف ورزی کے سنگین نتائج برا?مد ہو سکتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق یہ کیس کئی سوالات کو جنم دیتا ہے: کیا شکایت میں دی گئی معلومات اور شواہد مستند ہیں؟ PCSIR کے اہلکار کس حد تک ملوث ہیں اور جعلسازی کا عمل کس طرح ہوا؟ سابقہ گرفتاریوں کا موجودہ کیس سے کیا تعلق ہے؟ حکومت نے ماضی میں DPP/NAFSA کی شفافیت کے لیے کیا اقدامات کیے اور وہ کیوں ناکام ہوئے؟ادارے کے سینئر افسران کے مطابق کہ اس کیس سے بچنے کے لیے ایک ا?زاد اور ملٹی ڈسپلنری انکوائری کمیٹی تشکیل دینا ناگزیر ہے۔ تمام لیبارٹری رپورٹس اور کلیئرنس کا فرانزک ا?ڈٹ کرایا جائے، گواہوں کو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے، ادارے میں تقرریاں صرف میرٹ کی بنیاد پر کی جائیں، اور کیس کی پیش رفت عوام کے سامنے شفاف انداز میں پیش کی جائے تاکہ اعتماد بحال ہو۔چھالیہ کلیئرنس اسکینڈل پاکستان کے ریگولیٹری نظام میں موجود خامیوں اور بدعنوانی کا واضح اشارہ ہے۔ اگر اس کیس کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تفتیش ہوئی تو یہ نہ صرف ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لائے گی بلکہ یہ بھی ثابت کرے گی کہ ریاست زرعی اور تجارتی مفاد میں بدعنوانی برداشت نہیں کرے گی۔