فائل فوٹو
فائل فوٹو

کچے میں آپریشن وڈیروں کی باہمی چپقلش کی بھینٹ چڑھ گیا

نمائندہ امت :
سندھ میں کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن مختلف قبائلی سرداروں اور وڈیروں کی باہمی سیاسی چپقلش کی بھینٹ چڑھ گیا۔ چار اضلاع میں جوائنٹ آپریشن کرنے کے فیصلے پر بھی تاحال عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ آپریشن مسلسل ناکام ہونے کے باعث ڈاکوئوں کا راج اب صرف کچے کے علاقے تک محدود نہیں، بلکہ کئی اضلاع میں پکے (شہری) علاقو ں میں بھی ڈاکو راج کر رہے ہیں۔ ادھر 130 ڈاکوئوں کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے متعلق پولیس کی جانب سے کئے گئے دعوے کو بھی ایک ماہ گزر چکا ہے۔ لیکن ابھی تک کسی ڈاکو نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ ڈاکوئوں کے عذاب کے باعث کئی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد دیگر اضلاع میں نقل مکانی کرگئے ہیں۔ جب کہ امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے کئی خاندان بیرونِ ملک بھی منتقل ہوچکے ہیں۔

1980ء کی دھائی سے سندھ میں ڈاکو کلچر پروان چڑھنا شروع ہوا، جس کی لپیٹ میں پورا صوبہ ہوتا تھا۔ لیکن بعض ازاں اس پر کنٹرول کیا گیا۔ مگر گزشتہ ایک دو دھائیوں سے شمالی سندھ کے اضلاع کشمور، شکارپور، گھوٹکی، سکھر میں ڈاکوئوں کے کئی مضبوط گینگز کا راج قائم ہوا۔ ڈاکوئوں کا صفایا کرنے کے لئے نا صرف صوبائی بلکہ وفاقی سطح پر بھی منصوبہ بندی ہوتی رہی ہے۔ لیکن اب تک ڈاکوئوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن نہیں ہوسکا ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ ڈاکوئوں کا خاتمہ کرانے میں صدر مملکت آصف علی زرداری بھی عملی طور پر کامیاب نہیں ہوسکے۔

گزشتہ سال انہوں نے کچے کے علاقے میں امن و امان قائم کرنے میں دلچسپی لیتے ہوئے سکھر میں ایک اعلیٰ سطح اجلاس طلب کیا تھا۔ اس دوران انہوں نے واضح احکامات جاری کئے تھے کہ ڈاکوئوں کے خاتمے کے لئے مختلف قبائل کے درمیان خونریز تصادم ختم کراکے ان کے درمیان صلح کرائی جائے۔ اور ماسوائے بڑے نامی گرامی ڈاکوئوں کے باقی جو ڈاکو ہتھیار ڈالنے کے لئے رضامند ہوجائیں انہیں معاف کیا جائے گا۔ صدر مملکت نے یہ وارننگ بھی دی تھی کہ ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن میں تعاون نہ کرنے والے قبائلی سرداروں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ لیکن اس کے باوجود بھی ڈاکوئوں کا راج ناصرف برقرار ہے بلکہ ان کا اثررسوخ دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈاکوئوں کے جاگیرانی گینگ نے ضلع گھوٹکی میں حملہ کیا تھا، جس میں گھوٹو برادری سے تعلق رکھنے والے عبدالمجید اور بھٹو فیملی سے تعلق رکھنے والے رانو بھٹو قتل ہوگئے تھے۔

چند روز قبل جاگیرانی گینگ کے سربراہ میر احمد جاگیرانی نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک ویڈیو ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی جو وائرل ہوئی ہے۔ ویڈیو میں مذکورہ گینگ کا سربراہ یہ کہہ رہا ہے کہ اگر پولیس نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کی اور ان کا ایک کارندہ بھی مارا گیا تو وہ اس کے بدلے میں دس افراد کا قتل کرکے انتقام لیں گے۔ وہ ایس ایس پی کو بھی للکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی تو وہ نیشنل ہائی وے اور موٹر وے پر مسافر گاڑیوں کو بھی نشانہ بنائیں گے۔

ڈاکوئوں کا صفایا کرنے کے لئے سندھ حکومت نے کافی عرصہ قبل یہ اعلان کیا تھا کہ ضلع کشمور ، گھوٹکی، سکھر اور شکارپور میں ڈاکوئوں کے خلاف جوائنٹ آپریشن کیا جائے گا۔ جس میں نا صرف چاروں اضلاع کے پولیس اہلکار بلکہ رینجرز اہلکار بھی حصہ لیں گے۔ لیکن اب تک کوئی بھی جوائنٹ آپریشن نہیں ہوسکا ہے۔ اور تمام اضلاع کی پولیس کی اکا دکا کارروائیاں متعلقہ اضلاع تک محدود ہیں۔ پولیس کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل ضلع گھوٹکی میں سندرانی گینگ سے تعلق رکھنے والے ڈاکوئوں نے ایک پولیس چوکی پر حملہ کیا تھا جس میں ایک پولیس اہلکار شاہ علی سیال شہید ہوئے تھے اور ایک مغوی بہرام ساون بھی ہلاک ہوگیا تھا۔ لیکن پولیس ان ڈاکوئوں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کرسکی ہے۔

مذکورہ حملے کی جو ایف آئی آر درج کی گئی تھی، اس میں وارث ڈنو سندرانی نامی ملزم بھی نامزد تھا۔ لیکن چند دن قبل یہ انکشاف ہوا کہ وارث ڈنو سندرانی کو ناصرف سرکاری ٹیچر بھرتی ہونے کا آرڈر ملا ہے، بلکہ گھوٹکی پولیس نے اسے کسی بھی جرم میں ملوث ہونے سے پاک قرار دے کر کلیئرنس سرٹیفکیٹ جاری کردیا۔ سوشل میڈیا پر جب یہ پوسٹ وائرل ہوئی تو تہلکہ مچ گیا جس کے بعد تقریباً دو روز قبل ایس ایس پی گھوٹکی نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ایس ایس پی آفس کے چند ملازمین کے خلاف کارروائی۔ وارث ڈنو کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ پہلے پولیس اہلکار تھا، جسے برطرف کیا گیا تھا۔ مقدمے میں نامزد ملزم کو کلیئرنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے متعلق ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں خود پولیس کی کالی بھیڑیں شامل ہیں جن کے ڈاکوئوں سے گہرے روابط ہیں۔

یہ بات سب کے علم میں ہے کہ کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کا بنیادی سبب مختلف قبائل کے درمیان خونریز تصادم ہے۔ جو ایک دوسرے پر حاوی ہونے کے لئے متعلقہ برادری سے تعلق رکھنے والے ڈاکوئوں کے گینگز کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن جہاں تک ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن مسلسل ناکام ہونے یا بڑی کامیابی نہ ملنے کی بات ہے تو اس کے پیچھے کئی عوامل ہیں۔ اس کی ایک وجہ پولیس افسران کی تعیناتی میرٹ کے بجائے سیاسی سفارش اور پیکیج کے تحت ہونا ہے۔ متعلقہ علاقوں کے سردار اور وڈیرے ، اراکین اسمبلی اپنے سفارشی افسران کو تعینات کرانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں جس کے باعث ضروری نہیں کہ ہر سردار کی خواہش پوری ہو۔ مذکورہ اضلاع میں کئی ایسے وڈیرے اور سردار ہیں جو بھلے ایک ہی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں لیکن ان کے درمیان سیاسی چپقلش رہتی ہے۔ اس میں وہ پولیس کا اثر رسوخ بھی استعمال کرتے ہیں۔

اس صورت حال میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن مختلف وڈیروں اور سرداروں کے درمیان سیاسی چپقلش کی بھینٹ بھی چڑھا ہوا ہے۔ ان سرداروں کے درمیان سیاسی چپقلش ایک بڑی مثال یہ بھی ہے کہ ضلع گھوٹکی میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اور سابق صوبائی وزیر جام مہتاب ڈہر کے قافلے پر جو حملہ ہوا تھا، اس کا الزام پیپلز پارٹی کے سابق ایم پی اے شہریار شر پر لگایا گیا جن کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوا۔

تقریباً ایک ماہ قبل ڈی آئی جی لاڑکانہ نے ایک کھلی کچہری میں اعلان کیا تھا کہ بہت جلد عوام کو ایک خوش خبری ملنے والی ہے۔ تقریباً 130 ڈاکو ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہوجائیں گے جس کے بعد ضلع شکارپور، ضلع کشمور سمیت کئی علاقوں میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوجائے گی۔ لیکن ایک ماہ گزر جانے کے باوجود کہیں سے بھی ایسی رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے کہ کسی ڈاکو نے ہتھیار ڈالے ہوں۔ ڈاکوئوں کے خلاف موثر آپریشن نہ ہونے کے باعث ان کے حوصلے دن بہ دن بڑھ رہے ہیں۔

ڈاکوئوں کی دہشت صرف اب کچے کے علاقے تک محدود نہیں بلکہ پکے (شہری) کے علاقے بھی ان سے محفوظ نہیں۔ جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ضلع کشمور شہر ، کندھ کوٹ ، غوث پور ، کرم پور سمیت کئی علاقوں سے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کئی گھرانے اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر دیگر اضلاع میں نقل مکانی کرچکے ہیں۔ جب کہ ان علاقوں میں امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے کئی خاندان پاکستان چھوڑ کر دیگر ممالک میں منتقل ہوگئے ہیں۔

دوسری جانب ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت سیلاب کی صورتحال کے باعث دریائے سندھ میں پانی کی سطح معمول سے تھوڑی زیادہ ہے۔ اس صورت حال میں کئی ڈاکو ایسے بھی ہیں جنہوں نے مختلف وڈیروں اور سرداروں کے شہروں میں موجود ڈیروں میں پناہ لی ہوئی ہے۔ یہاں وہ سیلاب سے متاثرہ عام افراد یا مزدوروں کا روپ دھار کر رہ رہے ہیں۔