ساکت آنکھوں میں ان گنت سوال ؟؟؟

سجاد عباسی

دل دہلانے اور روح کو لرزا دینے والے مناظر ہیں ۔۔ ایک کے بعد ایک اندوہناک کہانی سامنے آ رہی ہے،مشاہدہ یہی ہے کہ ہمارے خیبرپختونخوا کے بہن بھائی (چاہے ان کا تعلق پختون علاقوں سے ہو یا ہزارہ بیلٹ سے) صبر اور برداشت کے معاملے میں بہت آگے ہیں، اس کا تجربہ ماضی قریب کی قدرتی آفات کے دوران بھی ہوا، بالخصوص 2005 کے زلزلے کے موقع پر ، انہیں قدرت نے دکھوں کی یلغار اور آنسوؤں کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کیلئے چٹان جیسا صبروضبط دیا ہے۔وہ اپنے دکھ بیان کرتے ہوئے آنسوؤں کی جھڑی کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں ، مگر دکھ کی کوئی حد تو ہو، کرب کی کوئی انتہا تو ہو۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے بستیاں غرقاب ہوئیں۔ آنا” فانا”گاؤں کے گاؤں اجڑ گئے۔ایک ایک خاندان کے بیس بیس افراد آن کی آن میں لقمہ اجل بن گئے۔۔

بونیر کی تباہی تو ناقابل بیان ہے۔باجوڑ کے زخموں سے رستا خون اور ملبے تلے دبی بے آواز چیخیں روح کو چیر رہی ہیں۔کچھ ایسی ہی کہانی بٹگرام کے قریب واقع خیبرپختونخوا کے دور افتادہ پہاڑی علاقے ہلکوٹ ڈھیری کی ہے،جہاں نیل بن گاؤں میں کلاؤڈ برسٹ اور سیلابی ریلے نے قیامت ڈھا دی۔ ایک ہی خاندان کے 20 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ جن میں 7 خواتین، 3 بچے اور 10 مرد شامل ہیں۔

 

سادہ لوح خان محمد
سادہ لوح خان محمد

ان میں سادہ لوح خان محمد کا کنبہ بھی تھا، جو میڈیا کے ہر کیمرے کے سامنے اپنی دکھ بھری کہانی دہرا رہا ہے، شاید یہ سوچ کر کہ اس کا دکھ کہیں اوپر پہنچے اور کوئی اوپر والا اس کے دکھ کا کچھ نہ کچھ مداوی کر دے۔ کیا معلوم وہ دل کو جھوٹی تسلی دے رہا ہو کہ کوئی میڈیا والا اس کے "لاپتہ” پیاروں میں سے کسی ایک کو ڈھونڈ نکالے، یا شاید وہ اپنا دکھ بیان کر کے اس کی شدت کو کم کرنا چاہتا ہو گا۔۔مگر حوصلے اور ضبط کے ساتھ

ضبط لازم ہے، مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا

وہ کہتا ہے میرے پانچ بچے تھے، سب ریلے میں بہہ گئے، بیوی نے میرا ہاتھ پکڑ رکھا تھا، مگر پھر وہ ہاتھ چھوٹ گیا۔۔ منہ زور ریلوں اور ان کے اندر امڈ آنے والی دیوہیکل لکڑیوں اور چٹانوں کے سامنے انسانی ہاتھ کا بندھن کیا معنی رکھتا ہے ۔

 

 

یہ تو صرف ایک کہانی ہے، یا ایسی چند درجن اور کہانیاں ہمارے سامنے آجائیں گی۔۔بے شمار کہانیاں اور ان گنت قصے تو سینکڑوں فٹ گہرے کیچڑ میں دفن ہو گئے،ان میں سے سب سے زیادہ کہانیاں تو بونیر کی ہوں گی جہاں گاؤں کے گاؤں تاحد نگاہ پھیلےدلدلی قبرستان کی شکل اختیار کر گئے۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق کے پی، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں چوبیس گھنٹے کے دوران چار سو کے قریب لوگ موت کا رزق بنے، ان میں سے ہر شخص کی اپنی کہانی ہے، جو اس کے حلق میں گھٹ کر دم توڑ گئی، اور ٹنوں ملبے اور کیچڑ میں دفن ہو گئی۔ان میں سے کوئی بڑا ہو کر ڈاکٹر یا انجینئر بننا چاہتا ہو گا ، کسی نے فوجی وردی پہننے کے خواب آنکھوں میں سجائے ہوں گے۔ کوئی ماں اپنے بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کی تیاری کر رہی ہو گی۔ کوئی باپ چپکے سے اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنےکیلئے جہیز کی رقم جمع کر رہا ہوگا۔کوئی بیٹا دو دو ملازمتیں کر کے اپنے باپ کے سر کا وزن کندھے پر اتارنے کا خواہشمند ہو گا۔
کوئی سہاگن دیار غیر میں موجود اپنے ساجن کے وصل کیلئے بے قراری سے منتظر ہو گی اور اس کا نمدیدہ شوہر اب باربار واٹس ایپ پرپشتو میں لکھا گیا اس کا آخری اور دھندلا میسیج پڑھ رہا ہو گا۔۔

 

"غضب خدا کا یہ بادل آج کیا قیامت ڈھانا چاہتے ہیں”

 

ایک کہانی اس بہن کی بھی ہو گی، جس کا ہاتھ شاید منہ زور ریلے میں بہنے والے اپنے خاندان کےکسی بچے کو بچانے کیلئے آگے بڑھا ہو گا، یا عین ممکن ہے کہ وہ موت کے شکنجے سے بچنے کیلئے اپنے بھائی یا والد کا ہاتھ پکڑنا چاہ رہی ہو، مگر موت تو ہر طرف رقص کر رہی تھی۔اس سے کسی چھوٹے بڑے، بچے، جوان یا مردوزن کومفر نہ تھا۔۔

اس طرح کے کتنے ہاتھ اپنے بچاؤ کیلئے چلتے چلتے شل ہو گئے ہوں گے، اور بہت سے تو چوڑیوں والے اس ہاتھ کی طرح جسم کے بندھن سے آزاد ہو گئے ہوں گے۔ ان میں سے کئی ہاتھوں پر تو ایک روز پہلے گزرے یوم آزادی کی مناسبت سے قومی پرچم بھی بنے ہوں گے، اور کئی ننھے گالوں پر چھوٹے چھوٹے قومی نشان ثبت ہوں گے، مگر یہ سب تو اب زندگی کی قید سے آزاد ہو گئے۔

 

روح کو چھیدتے اور دل دہلاتے ان گنت مناظر ہیں۔کچھ وہ جو نظر آ رہے ہیں اور بے شمار وہ ،جنہیں احساس کی آنکھوں اور درد کے کانوں سے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔

مگر دکھائی دینے والے مناظر میں سے ایک منظر کم و بیش ہر جگہ واضح ہے کہ پہاڑوں سے آنے والے منہ زور ریلوں میں پتھروں سے زیادہ کٹی ہوئی لکڑیاں ہیں، جو قدرتی آفت لانے میں انسانوں کے کردار کا پتہ دیتی ہیں۔سوشل میڈیا پر جاری ایک ویڈیو کے مطابق آزاد کشمیر کے نوسیری ڈیم میں جمع ہونے والی لکڑیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان کے درمیان پانی کہیں کہیں نظر آرہا ہے۔ہمیں بچپن سے نصابی کتابوں میں پڑھایا جاتا تھا کہ درخت زمین کو کٹاؤ سے بچاتے ہیں۔زلزلوں اور سیلاب سے محفوظ رکھتے ہیں، مگر یہ سب کچھ کتابوں میں رہ گیا اور ہم نے منظم مافیا بن کر جنگلات کی بیخ کنی شروع کر دی، جو اب ہماری تباہی کا سبب بن رہی ہے۔
خدا کے بندو، یہ درخت تمہاری اور تمہاری آنے والی نسلوں کی زندگی کی ضمانت ہیں۔

جس جگہ خرمن نہ ہوں ،واں بجلیاں آتی نہیں

ناگہانی آفتیں بھی، ناگہاں آتی نہیں

جس جگہ جنگل کھڑے ہوجائیں سینہ تان کر
بادلوں کے روپ میں، واں آندھیاں آتی نہیں
(اشفاق کلیم عباسی)

سیلابی ریلوں میں بہہ کر ملبے کا حصہ بننے والی سینکڑوں ساکت آنکھیں آج اپنے اندر ان گنت سوال لئے ہوئے ہیں۔

ان سوالوں کی گونج سوشل میڈیا پر بھی ہر طرف سنائی دے رہی ہے۔ہم بھی انہیں دہرائے دیتے ہیں۔
پہاڑوں پر سیلاب کے راستے میں رکاوٹ بننے والے درختوں کو کاٹ کر بیچنے کا ذمہ دار کون ہے؟

 

خطرناک آبی گزرگاہوں پر غیر قانونی اور بے ہنگم تعمیرات کس نے کرائیں۔ دریاؤں اور ندی نالوں کے آس پاس کی زمینیں کس نے فروخت کیں؟اورچشم پوشی کے عوض بھتہ کس کس نے وصول کیا؟

ایرلی وارننگ سسٹم چلانے، مون سون سے پہلے ضروری حفاظتی انتظامات کا ذمہ دار کون کون تھا؟

ریسکیو اداروں کو مطلوبہ وسائل سے لیس کرنا، ان کی افرادی قوت بڑھانا اور مہارت میں اضافہ کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ سیلاب اور زلزلوں کے وار سہنے والے مضبوط پل، سڑکیں اور عمارتیں بنانے کا ذمہ دار کون تھا؟

ہر چند برس بعد قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کو "موقع” سمجھ کر کون کون ذاتی وسائل اور اثاثوں میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے؟

ان کیچڑ میں لتھڑے معصوم چہروں اور ساکت آنکھوں میں موجود ان گنت سوالوں میں سے ایک سوال یہ کہ ہماری جانوں کی قیمت پر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟
آخر کب تک ۔۔۔؟؟