وفاقی تحقیقاتی ادارے کی خصوصی ٹیم مافیا کا نیٹ ورک توڑ رہی ہے، فائل فوٹو
 وفاقی تحقیقاتی ادارے کی خصوصی ٹیم مافیا کا نیٹ ورک توڑ رہی ہے، فائل فوٹو

پاکستانیوں کو ڈوبنے سے بچانے کی کوششیں رنگ لانے لگیں

عمران خان :
بحیرہ روم کے ذریعے غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے تارکین وطن کی اسمگلنگ کا عالمی نیٹ ورک بدستور اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں 500 سے زائد پاکستانیوں کی اموات کے بعد حکومتی ہدایات پر ایف آئی اے کی جانب سے کئے جانے والے بعض اقدامات مثبت اثرات مرتب کرنے لگے ہیں۔ جون سے اگست کے وسط تک بحیرہ روم میں ہونے والے 4 کشتی حادثات میں بنگلہ دیش، افغانستان، سوڈان، اریٹیریا سمیت کئی ممالک کے تقریباً 150 سے زائد تارکین وطن کو سمندر کی بے رحم موجوں نے نگل لیا، جن میں صرف 5 پاکستانی افراد شامل تھے۔

واضح رہے کہ جمعرات کے روز اٹلی کے جزیرے لیمپی ڈوزا کے قریب کشتی سمندر میں ڈوبی جس کے نتیجے میں 26 بدقسمت تارکین ہلاک ہوگئے۔ جب کہ 50 لاپتا ہوئے اور 10 کو بچا لیا گیا۔ جب کہ مجموعی طور پر لانچ میں 90 افراد سوار تھے۔ مذکورہ لانچ کو انسانی اسمگلروں نے لیبیا کے ساحل سے یورپ کے لئے روانہ کیا تھا۔ اس واقعے میں مزید ہلاکتوں کے خدشات ہیں جبکہ ریسکیو آپریشن اب رک چکا ہے۔

ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر کے ذرائع کے مطابق حادثہ کی اطلاع پر اٹلی اور لیبیا میں قائم پاکستانی سفارت خانوں کی جانب سے فوری طور مقامی حکام سے رابطے کئے گئے۔ تاہم خوش قسمتی سے اب تک کسی پاکستانی تارکین وطن کے حوالے سے کوئی معلومات سامنے نہیں آئیں۔ ذرائع کے بقول 2023ء سے 2025ء کے آغاز تک 4 بڑے کشتی حادثات میں 500 سے 600 پاکستانی افراد کے لقمہ اجل بننے کے بعد حکومت کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سخت بدنامی اور سبکی کا سامنا رہا۔ اس دوران ملوث انسانی اسمگلروں کے مقامی ایجنٹوں اور ان کے بیرون ملک موجود سرغنوں کے حوالے سے ملک گیر ایف آئی اے آپریشنز میں اب تک 300 سے زائد انکوائریوں شروع کی گئیں۔ جبکہ 170 سے زائد مقدمات درج کئے گئے جن میں 123 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ جب کہ تین بڑے انسانی اسمگلروں کے نیٹ ورک توڑنے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔ تاہم اس کے باوجود انسانی اسمگلروں کی سرگرمیاں جاری رہیں اور رواں برس کے دوسرے ہی مہینے میں ایک اور کشتی حادثہ میں 20 پاکستانی ڈوب کر ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد دباؤ بڑھنے پر سخت ترین اقدامات کئے گئے۔

ذرائع کے مطابق اس وقت ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز میں اس حوالے سے خصوصی ڈیسک قائم ہے جس کے افسران یومیہ بنیادوں پر لیبیا، یونان، اٹلی سمیت دیگر یورپی اور افریقی ممالک میں موجود پاکستانی سفارتی حکام اور خصوصی ایف آئی اے اتاشی سے رابطے میں رہتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق وزارت وزارت خارجہ اور داخلہ کے ذریعے یہ ٹیم افریقی ممالک پہچنے والے پاکستانی افراد کے حوالے سے معلومات حاصل کرتی ہے، جس کے نتیجے میں کچھ اہم اعداد و شمار اور معلومات جمع ہورہی ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق گزشتہ 6 ماہ میں 22 ہزار افراد کو لیبیا سے واپس ان کے ممالک میں ڈیپورٹ کیا گیا، جن میں سینکڑوں پاکستانی بھی شامل تھے۔ یہ تمام افراد وزٹ ویزوں پر گئے تھے اور ویزے ایکسپائر ہونے کے باوجود وہاں چھپے بیٹھے تھے، تاکہ انسانی اسمگلروں کے ذریعے یورپ جاسکیں۔ اسی طرح رواں برس جون سے اگست کے وسط تک 4 کشتی حادثات میں 150 سے زائد افراد ڈوبے جن میں صرف پانچ پاکستانی تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حالیہ اقدامات رنگ لانے لگے ہیں۔ تاہم مزید اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ اسی دوران ایسی معلومات بھی مل رہی ہیں کہ انسانی اسمگلروں کا دھندا پاکستان سے یورپ تک اب بھی چل رہا ہے۔ کیونکہ جون ہی کے مہینے میں صرف 3 روز میں سینکڑوں پاکستانی، افغان اور بنگلہ دیشی تارکین وطن سمیت 1500 سے زائد افراد یورپی جزیروں پر پہچنے میں کامیاب بھی ہوئے، جن سے ملنے والی معلومات میں انکشاف ہوا کہ ان کی اکثریت پاکستان سے بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے ایران، ترکی کے راستے یہاں پہچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق رواں برس اب تک کشتی حادثات میں مجموعی طور پر 800 سے زائد افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔

ذرائع کے مطابق ان رپورٹس کے موصول ہونے کے بعد ایف آئی اے نے بلوچستان اور کراچی میں کارروائیاں کرکے 56 بنگالی افراد کو حراست میں لیا، جو وزٹ ویزوں پر پاکستان آئے تھے اور انسانی اسمگلروں کے ذریعے پاکستان کا بارڈر کراس کرکے ایران جارہے تھے۔ ذرائع کے مطابق اسی سلسلے میں لئے جانے والے مزید اقدامات میں ایف آئی اے حکام نے ایک اہم ایڈوائزری جاری کی جس میں دنیا کے 28 ایسے ممالک کی نشاندہی کی گئی، جہاں سے انسانی اسمگلر پاکستانی افراد کو یورپ کے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان ممالک کا سفر کرنے والے پاکستانی افراد کی اس وقت سخت ترین مانیٹرنگ کی جارہی ہے اور ملک کے تمام ایئرپورٹس سے ان کی کلیئرنس کے لئے چیکنگ بڑھادی گئی ہے۔

اس ایڈوائزری کے تحت پہلے 15 ممالک، پاکستان کے 9 شہر اور 2 ائیر لائنز پر کڑی نگرانی کی ہدایت کی گئی۔ جبکہ ایڈوائزری گزشتہ برس مذکورہ ممالک کے لئے سفر کرنے والے افراد کے آئی بی ایم ایس کے ڈیٹا بیس کے تجزیے سے تیار کی گئی۔ ایف ائی اے ہیڈ کوارٹرز سے ملک بھر کے ڈپٹی ڈائریکٹرز امیگریشن کو مراسلہ جاری کیا گیا۔ مراسلے میں 15 ممالک، پاکستان کے 9 شہروں اور 2 ائیرلائنز کے مسافروں کی کڑی نگرانی کی ہدایات جاری کی گئیں۔ مراسلے میں پہلی دفعہ بیرون ملک کے 15 سے 40 سال عمر کے مسافروں پر نگرانی سخت کرنے کا حکم دیا گیا۔ فلائی دبئی اور اتھوپین ایئر لائنز کے جوان عمر مسافروں کی سخت چیکنگ کرنے کے بھی احکامات جاری کیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی آذربائیجان، ایتھوپیا، سینگال، کینیا، روس، سعودیہ، مصر کے مسافروں کی چھان بین کا حکم بھی دیا گیا۔

مراسلے میں لیبیا، ایران، موریطانیہ، عراق ترکیہ، قطر، کویت، کرغیزستان کے مسافروں کی بھی پروفائلنگ کی ہدایات دی گئیں۔ ان 15 ممالک کو پاکستانیوں نے یورپ میں انسانی اسمگلنگ کے لیے ٹرانزٹ کے طور پر استعمال کیا، ان ممالک کے وزٹ، سیاحت، مذہبی یا تعلیمی ویزوں پر مسافروں کی نقل و حرکت کا جائزہ لیا گیا۔ ایڈوائزری جولائی تا دسمبر آئی بی ایم ایس کے ڈیٹا بیس کے تجزیے سے تیار کی گئی۔ جب کہ ایڈوائزری کے مطابق منڈی بہاؤالدین، گجرات، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، بمبر کے مسافروں کی کڑی نگرانی کی جائے۔ اس کے علاوہ جہلم، ٹوبہ ٹیک سنگھ، حافظ آباد اور شیخوپورہ کے مسافروں کی پروفائلنگ کے بہتر اقدامات کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ ایڈوائزری کے مطابق ریٹرن ٹکٹس، ہوٹل بکنگ سمیت تمام دستاویزات کی مکمل چھان بین کی جائے۔ وزٹ یا سیاحتی ویزوں پر خصوصی توجہ کے ساتھ دستاویز کی چھان بین کریں۔ مشکوک مسافروں اور ان کے سفری مقصد اور مالی انتظامات کے لیے انٹرویو کیے جائیں۔

ایف آئی اے ذرائع کے بقول اس ضمن میں کراچی ڈائریکٹوریٹ سے بھی سفارشات موصول ہوئیں جن میں وزارت داخلہ کو ایک مفصل رپورٹ بھیجی گئی۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ مذکورہ بالا 15ممالک کے علاوہ 13مزید ایسے ممالک کی نشاندہی ہوئی ہے۔ جنہیں انسانی اسمگلر پاکستانیوں کو یورپ بھجوانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں سوڈان، رومانیہ، بوسنیا، البانیا، تیونس، مڈغاسکر، نائجریا اور دیگر ایسے ہی ممالک شامل ہیں۔

اس کے علاوہ کئے جانے والے اقدامات میں ایف آئی اے نے حال ہی میں 2024ء میں یونانی کشتی حادثے میں ملوث اپنے 13 افسران کو برطرف کیا تھا اور 3 کانسٹیبلز کی ترقیاں روک دی تھیں۔ اسی طرح متعدد پاکستانیوں کی اموات کا سبب بننے والے یونان کشتی حادثے کی تحقیقات کی روشنی میں رواں برس کے آغاز میں ایف آئی اے کے 65 اہلکاروں کو ملک میں کسی بھی امیگریشن چیک پوسٹ اور اینٹی ہیومن اسمگلنگ سرکلز میں تعیناتی کے لیے بلیک لسٹ کیا گیا تھا۔