عمران خان :
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور معروف آل رائونڈر وسیم اکرم جوئے اور سٹے کی آن لائن ویب سائٹ کی تشہیر کے اسکینڈل کی زد میں آگئے ہیں۔ اس ضمن میں نیشنل سائبر کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی کو موصول ہونے والی درخواست پر تحقیقات کا آغاز بھی کردیا گیا ہے۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان کے سابق کرکٹ کپتان اور لیجنڈری فاسٹ بالر وسیم اکرم ایک نئی اور سنگین مشکل میں گھر گئے ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے آن لائن جوئے کے ایک بھارتی پلیٹ فارم کی تشہیر کی ہے، جس کے بعد لاہور میں نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) میں ان کے خلاف ایک درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ درخواست کے مطابق یہ معاملہ صرف ایک کرکٹر کی تشہیر تک محدود نہیں، بلکہ پاکستان میں آن لائن جوئے اور بیٹنگ ایپس کے پھیلائو اور ان کے سماجی اثرات کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
این سی سی آئی اے کے ذرائع کے بقول شہری محمد فیاض کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں درج ہے کہ وسیم اکرم نے ’’باجی‘‘ نامی بھارتی بیٹنگ کمپنی کے ساتھ بطور برانڈ ایمبیسڈر معاہدہ کیا۔ درخواست کے مطابق سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے پوسٹرز اور ویڈیو کلپس میں وسیم اکرم کو اس پلیٹ فارم کی تعریف کرتے، عوام کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دیتے اور بیٹنگ ایپ کو کمائی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ شکایت کنندہ کا موقف ہے کہ یہ اقدام پاکستان میں جوا فروغ دینے کے مترادف ہے جو ملکی قوانین کے تحت جرم ہے۔ درخواست گزار نے وسیم اکرم کے خلاف پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کے قوانین کے مطابق ہر قسم کا جوا اور سٹے بازی غیر قانونی ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 294 اور 420 کے تحت جوا کھیلنے یا اس کی ترغیب دینے والوں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح پبلک گیمبلنگ ایکٹ 1867 بھی ملک میں نافذ ہے جو عوامی سطح پر جوا کھیلنے کو جرم قرار دیتا ہے۔ علاوہ ازیں وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلوں میں بارہا قرار دیا جا چکا ہے کہ جوا اور سٹے بازی نہ صرف ’’حرام‘‘ ہے بلکہ معاشرتی بگاڑ کا سبب بھی ہے۔ اس کے باوجود آن لائن جوئے اور بیٹنگ کمپنیوں نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستانی صارفین تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ مختلف ویب سائٹس اور ایپس پر ان کی موجودگی عام شہریوں کو راغب کرتی ہے اور جب قومی ہیروز یا مشہور شخصیات ان پلیٹ فارمز کی تشہیر کریں تو عوام پر اس کا اثر کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
این سی سی آئی کے ایک سینیئر افسر کے مطابق اس ضمن میں اب تک جمع کی گئی معلومات کے بمطابق پاکستان میں حالیہ برسوں میں کرکٹ سمیت دیگر کھیلوں میں جوئے اور بیٹنگ کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ بعض غیر ملکی کمپنیاں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سمیت مختلف کرکٹ ایونٹس میں اسپانسر شپ کی آڑ میں داخل ہوئیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی بعض کمپنیوں کو اسپانسر شپ کی اجازت دی جن کے روابط بیٹنگ اور جوا کھیلنے والے پلیٹ فارمز سے منسلک پائے گئے۔ یہ پہلو نہ صرف کھیل کی ساکھ بلکہ قومی وقار کے لئے بھی سوالیہ نشان ہے۔
ذرائع کے بقول یہ واقعہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکومت نے آن لائن جوا ایپس کے خلاف کریک ڈائون تیز کر رکھا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے لاہور میں معروف یوٹیوبر سعد الرحمٰن المعروف ڈکی بھائی کو اسی نوعیت کے الزامات پر گرفتار کیا گیا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے جوا کھیلنے والی ایپس کی تشہیر کی، جس کے باعث عام شہری اپنی جمع پونجی ان پلیٹ فارمز پر لگا بیٹھے اور بھاری نقصان اٹھایا۔ ملزم ڈکی بھائی کے خلاف درج ایف آئی آر میں پیکا کی مختلف دفعات شامل کی گئیں، جن میں الیکٹرانک جعلسازی، الیکٹرانک فراڈ، اسپیم اور اسپوفنگ کے الزامات عائد کیے گئے۔ اس کے علاوہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 294-بی اور 420 کے تحت بھی اس پر مقدمہ درج ہوا۔ تفتیشی حکام کے مطابق یہ ایپس محض تفریح کا ذریعہ نہیں، بلکہ مالی دھوکہ دہی کے پلیٹ فارمز ہیں جو عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہیں۔
این سی سی آئی اے کے ایک افسر نے بتایا کہ وسیم اکرم کے خلاف دائر درخواست ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر یہ معاملہ قانونی طور پر ثابت ہو گیا تو یہ پاکستان میں مشہور شخصیات کو غیر قانونی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کرنے سے روکنے کے لئے ایک نظیر ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق بیٹنگ پلیٹ فارمز کے ساتھ منسلک ہونا محض ’’برانڈنگ‘‘ یا ’’تشہیر‘‘ نہیں بلکہ قانوناً جرم ہے جس پر سخت سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ جب کوئی مشہور کرکٹر یا یوٹیوبر ایسے پلیٹ فارمز کو فروغ دیتا ہے تو نوجوان نسل پر اس کا براہ راست اثر پڑتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ ان کے آئیڈیل شخصیت نے اس پلیٹ فارم کی تعریف کی ہے، لہٰذا یہ قابل اعتبار ہے، لیکن بعد میں انہیں مالی نقصان اور نفسیاتی دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں آن لائن جوئے اور سٹے کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے دوران ہی علمائے کرام نے بارہا کہا ہے کہ جوا اور سٹے بازی قرآن و سنت کے مطابق حرام ہیں۔ مفتیان کرام کے مطابق ایسی سرگرمیوں کو فروغ دینا معاشرتی برائیوں میں اضافے کے مترادف ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ریاست کو چاہیئے کہ وہ ایسے پلیٹ فارمز کے ساتھ تعلق رکھنے والے تمام افراد، خواہ وہ کتنے ہی بڑے نام کیوں نہ ہوں، کے خلاف یکساں کارروائی کرے۔ دوسری جانب تاحال وسیم اکرم نے ان الزامات پر کوئی وضاحت یا ردعمل نہیں دیا ہے۔ تاہم معاملہ چونکہ عدالت اور سائبر کرائم حکام کے سامنے ہے، اس لئے توقع ہے کہ ان کے وکلا جلد قانونی موقف پیش کریں گے۔ وسیم اکرم کے خلاف یہ الزام نہ صرف پاکستان میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ان کی ساکھ کو متاثر کر سکتا ہے، کیونکہ وہ کرکٹ کے عالمی آئیکون سمجھے جاتے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos