فائل فوٹو
فائل فوٹو

اہل غزہ کا بچہ بچہ شہادت کیلیے تیار

ندیم بلوچ :

غزہ پر مکمل قبضے کیلئے اسرائیلی فوج نے بڑے حملے کا پہلا مرحلہ شروع کردیا ہے۔ انخلا کیلیے شہریوں کو 24 گھنٹوں کا الٹی میٹم دے دیا گیا۔ تاہم صہیونی فوجی کی تباہ کن جارحیت کے باوجود غزہ سٹی کے مکینوں کے عزم اور ہمت میں کوئی کمی نہیں آئی اور وہ دلیری سے نامناسب اور سخت ترین حالات کا بہادری سے مقابلہ کررہے ہیں۔

عوام شہر چھوڑ کر جانے کیلیے تیار نہیں ہیں۔ مسلط کردی جنگ کے بعد غزہ کی زمین کا صرف 15 فیصد علاقہ رہائشیوں کے لیے باقی بچا ہے۔ مشرقی محلوں کو اجاڑ کر مٹا دیا گیا، لاکھوں لوگ مغربی علاقے کی طرف دھکیلے گئے اور اب قابض فوج ایک نئی فوجی کارروائی کے منصوبے کے ساتھ شہر کا باقی ماندہ وجود سے بھی مٹا دینے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ لیکن اس بار صورتحال مختلف ہے۔

ہزاروں لوگ اعلان کر رہے ہیں کہ وہ ہرگز غزہ سے نہیں نکلیں گے۔ وہ شہادت قبول کر لیں گے مگر دوبارہ انخلا قبول نہیں کریں گے۔ اس ضمن میں وسطیٰ غزہ کے باشندوں نے جنوب کی جانب جانے کے احکامات کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ عوامی نمائندوں کی جانب سے اعلانات کئے جارہے ہیں کہ ہمیں اپنے گھروں سے نہیں نکلنا، ہمیں یہ شہر چھوڑ کر جنوب کی طرف نہیں جانا۔ کیونکہ اس بار انخلا کا مطلب ہے کہ ہم اپنی زمین اور اپنی غزہ کو ہمیشہ کے لیے کھو دیں۔

چالیس سالہ استاد ابو احمد پانچ بچوں اور اہلیہ کے کفیل ہیں دسمبر 2023ء میں جبری طور پر دیر البلاح گئے اور ایک طویل انخلا کی اذیت بھگتی۔ جنوری میں عارضی جنگ بندی کے بعد واپس غزہ شہر لوٹے۔ ابو احمد بتاتے ہیں کہ ان کے بچے اور بیوی انخلا کا لفظ بھی سننا نہیں چاہتے، چاہے اس کا مطلب موت ہی کیوں نہ ہو۔ انخلا نے ان کی روحوں پر ایسے زخم چھوڑے ہیں جو کبھی نہیں مٹ سکتے۔ اب وہ کسی بھی حال میں شہر چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ہاں ایک محلے سے دوسرے محلے جا سکتے ہیں، لیکن غزہ سٹی سے باہر نہیں نکلیں گے۔

ابو احمد کہتے ہیں کہ ہم نے سبق سیکھ لیا ہے کہ نکلنا سب سے مہنگا سودا ہے۔ اپنی زمین پر ڈٹے رہنا، چاہے بموں کی بارش ہو، یہی سب سے بہتر ہے۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ قابض اسرائیل ہمارے شہر کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے جیسے اس نے شمالی غزہ، رفح اور خان یونس کو مٹی کے ڈھیر میں بدل دیا۔ ابو احمد کے مطابق اس بار اگر ہم نکل گئے تو یہ ہمارے غزہ کا خاتمہ ہوگا، ہمیشہ کے لیے۔ ہم دوبارہ نہیں لوٹ سکیں گے۔ کوئی کسی کو مجبور نہیں کر سکتا مگر سچ یہ ہے کہ نکلنا ایک ایسی ہلاکت ہے جو موت سے بھی بدتر ہے۔

ریٹائرڈ سرکاری ملازم ستر سالہ ابو بلال مشرقی غزہ کے علاقے النفق کے رہائشی ہیں۔ وہ اور ان کی اہلیہ اپنے گھر میں ہی ڈٹے رہے۔ قابض فوج کے ٹینک اور فوجی گھر کے قریب مہینوں تک رہے، گھروں کو ڈھایا، عمارتوں کو جلایا، مگر وہ باہر نہیں نکلے۔ابو بلال کہتے ہیں کہ ہم پہلی بار بھی نہیں نکلے اور اب بھی نہیں نکلیں گے۔ کس چیز کا ڈر؟ موت کا؟ میری عمر میں اب کیا باقی ہے۔ مگر اگر میں نکلا تو اپنی غزہ کو دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکوں گا۔ یہی سب سے بڑی موت ہوگی۔

ابو بلال کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا۔ ہم نے گھاس اور چارہ کھا کر گزارہ کیا۔ مگر آخرکار ہمارا غزہ بچا رہا۔ ہزاروں لوگ شہر میں موجود رہے اور یہی قابض اسرائیل کی منصوبہ بندی کو ناکام بنانے کا راز بنا۔ اب بھی یہی ہونا چاہیے، بلکہ زیادہ بڑے پیمانے پر ہونا چاہیے تاکہ ہم اپنی غزہ کو ہمیشہ کے لیے نہ کھو دیں۔