امجد بٹ ۔ مری
ضِلع مری میں خِطۂ پوٹھوہار و کوہسار کے مرکزی لہجے میں سمجھی جانے والی بولی "ڈھُونڈی” اور "کڑیالی” قبائل کے محدُود دائرے سے نِکل کر اب بین الصُوبائی بلکہ بین الاقوامی حدُود تک پھیل چُکی ہے ۔ یعنی اِس کے بولنے اور سمجھنے والے دُنیا کے پانچوں برِاعظموں میں موجُود ہیں ۔ خِطۂ پوٹھوہار اور سرزمِینِ کوہسار کی یہ پہاڑی بولی جہلم سے جمُّوں اور گلیات تک معمُولی لہجوں کے اِختلاف سے سب کی مُشترِک بولی ہے ۔ اِس بولی کے لئے درجنوں افراد نے اپنے خُونِ جِگر سے آبیاری کر کے اِس کے دامن کو نظم و نثر کی مُتعدّد کُتب سے مالا مال کِیا ہے ۔ لیکن بولی سے زُبان کا سفر طے کرنے میں جناب صبِیر ستّی مرحُوم کا کِردار ایک ایسے ماہرِ لِسانیات کا ہے جو اپنی نثری تحرِیروں اور ضرب الامثال کے ذریعے ایک نامُکمّل زُبان کو صرف و نحو کی بُنیادیں فراہم کر رہا ہے ۔ آپ نے اِنفرادی صلاحیتوں کی بُنیاد پر وہ کِردار ادا کِیا ہے جِس کے لئے فورٹ وِلیم کالج جیسے اِدارے نے ایک فوجِ ظفر موج بھرتی کر رکھی تھی کِیُونکہ صبِیر ستّی اور وِلیم گِلکرائسٹ کے پیشِ نظر مقاصد میں واضح فرق تھا ۔ فورٹ وِلیم کالج کی اِنتظامیہ اُردُو کے فروغ و تروِیج کے نام پر ہمیں عربی و فارسی عُلُوم سے محرُوم کر کے ہمارے گلوں میں انگریزی زُبان و تہذِیب کا طوق ڈالنا چاہتے تھے ، جِس میں وہ کامیاب بھی رہے ۔ ہمیں عربی اور فارسی کی قابلِیّت اور عُلُوم سے محرُوم کر کے تمام اعلیٰ نوکریاں انگریزی سے مشرُوط کر کے عوام کو تعلِیمی اعتبار سے اپاہج بنا دِیا ۔ آج بھی ہماری یُونِیورسِٹیوں اور مُقابلے کے اِمتحانی نتائج ثابت کر رہے ہیں کہ قوم کی اکثریت ستتّر برس سے نہ صِرف انگریزی میں ناکام ہوتی آ رہی ہے بلکہ عربی اور فارسی عُلُوم کو بھی بھُلا بیٹھی ہے ، جِس کے باعث ہمارے ہاں دریافت و ایجادات پر جمُود چھایا ہُوا ہے ۔
لیکِن جناب صبِیر ستّی مُختلِف خِطّوں میں بٹے ہُوئے پوٹھوہاری اور پہاڑی قبائل کو ایک مُشترِک زُبان کے پلیٹ فارم پر لا کر اُن کو مزِید مُستحکم کرنا چاہتے تھے لہٰذا اُن کی لِکھی ہُوئی یہ کِتاب پہاڑی لِسانیات کے مُحقّقِین کے لئے اب ایک حوالہ جاتی کِتاب کا کِردار ادا کرے گی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مُختلِف آوازوں کے لئے حرُوف کے تخصّص کا فیصلہ کُن کام اللّٰہ کرِیم کی ذات کِس سے لیتی ہے اور صِرف حرُوفِ تہجّی کی آوازیں طے کر لینے سے ہم بولی سے زُبان کے دور میں داخل تو ہو جائیں گے لیکن صرف و نحو کی کئی پیچِیدگیاں طے ہونی ابھی اِس کِتاب میں بھی باقی ہیں ۔ ہمیں نہ صِرف خِطۂ پوٹھوہار و کوہسار اور گلیات سمیت جمُّوں تک کے لہجوں میں اِستعمال ہونے والے مُشترِک الفاظ کے اِنتخاب کے ساتھ ساتھ مُختلف معنوں والے ہم آواز الفاظ کا تحرِیری تعیّن بھی کرنا ہے تا کہ ہم سب مذکُورہ عِلاقوں کو ایک مُشترِک ذخِیرۂ الفاظ اور آوازوں والی زُبان سے بہرہ ور کر سکیں ۔ یقیناً یہ کام ماہرِینِ لِسانیات کا ہے ۔ پہاڑی زُبان سے صِرف عِشق یا اِس میں شاعری کر لینے سے یہ ذِمّہ داری نہِیں نِبھائی جا سکتی ۔ ادب اور لِسانیات قرِیب ہونے کے باوجُود الگ الگ میدانِ تحقِیق ہیں ۔ ادب اور عِلمِ لِسانیات سے دِلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ ادب سے راہنُمائی لینے ، اِرتقائی عمل سے گُزرنے اور حسبِ ضرُورت تبدِیلیوں کو قُبُول کرنے والی زُبانیں زِندہ رہ پاتی ہیں ۔
برطانوی ڈاکٹر "جے سی ویلز” کی کِتاب "لُوم آف لینگوِجز” کی جدِید لِسانی تحقِیق اور "ہمفرے ٹانکِن” جیسے امریکی ماہرِینِ لِسانیات کی کِتاب "دانجیرا لِنگوو” کے مُطابِق دُنیا میں عُلماء ادب و لِسانیات کا یہ دعویٰ اب خیالِ خام سمجھا جا رہا ہے کہ چِینی دُنیا میں بولے جانے کے اعتبار سے پہلی اور انگریزی دُوسری بڑی زُبان ہے ۔ اِس جدِید تحقِیق کے مُطابِق چِین کی بِیس بڑی زُبانیں اگرچہ ایک رِسم الخط میں لِکھی جاتی ہیں اور پُورا چِین اِنہیں پڑھ بھی سکتا ہے لیکن شِمالی چِین کا باشِندہ جنُوبی چِین کے رہنے والے سے بات نہِیں کر سکتا ۔ چِین میں سب سے بڑی بولی جانے والی زُبان "مندرِین” کے بولنے والے پینتالِیس کروڑ ہیں۔ اِسی طرح کُرۂ ارض پہ آباد قریباً آٹھ ارب اِنسانوں میں صِرف دس فِیصد افراد (پاکِستانی اُردُو مِیڈیم میٹرک درجے کی) انگریزی جانتے ہیں ، جبکہ پاکِستان میں ایک فِیصد بھی نہِیں جانتے ۔
درج بالا گُزارشات سے یہ لِسانی پہلُو بھی قابلِ فہم ہو جاتا ہے کہ زُبان کا معیار اُس کے رِسم الخط سے نہِیں بلکہ بولے جانے کے اعتبار سے طے ہوتا ہے ۔ ذرا دُنیا بھر میں عربی زُبان کا بھی جائزہ لیں تو اِس کو قُرآنِ کرِیم کی برکت سے صِرف پڑھ سکنے والوں کی تعداد تو ڈیڑھ عرب کے قریب ہو گی لیکن بولے اور سمجھنے والوں کی تعداد کے اعتبار سے اِس وقت عربی آٹھویں سے نویں نمبر پر چلی گئی ہے ۔ لیکن اِس کے باوجُود دُنیا بھر میں موجُود ڈیڑھ ارب کے قرِیب مُسلمانوں کو تعلِیمی ، سیاسی ، مذہبی ، عسکری اور لِسانی اعتبار سے مضبُوط کرنے کے لئے اِن کے درمیان عربی کو رابطے کی زُبان بنانے کی کوشِشوں کا آغاذ ہو چُکا ہے ۔ جبکہ اِنتہائی محتاط اندازے کے مُطابق اگر اُردُو کا جائزہ لِیا جائے تو پاکِستان کی پچّیس کروڑ آبادی میں پچہتّر مُختلِف زُبانیں بولنے والے آپس میں رابطے کے لئے اُردُو ہی اِستعمال کرتے ہیں یعنی اِن میں سے نِصف یعنی قریباً تیرہ کروڑ تو اُردُو بول ہی سکتے ہیں ۔ یہی اُردُو ناگری رِسم الخط کے فرق کے ساتھ پُورے ہِندوستان کی رابطے کی زُبان ہے ۔ پاک و ہِند کے ڈرامے ، فِلمیں اور عوامی سطح کے تمام پروگرام اور سوشل مِیڈیا اِس بات کے گواہ ہیں ۔ مزِید محتاط اندازے کے پیشِ نظر اِس ایک ارب چالِیس کروڑ کی آبادی کا نِصف تو ضرُور یہی اُردُو اِستعمال کر رہا ہے ۔ پُورے مقبُوضہ ہائے کشمِیر ، سری لنکا ، نیپال اور بنگلہ دیش میں رابطے کی زُبان اُردُو ہے ، مُتحدّہ عرب امارات اور یورپ میں بھی اُردُو سمجھنے اور بولنے والوں کی بڑی تعداد موجُود ہے ۔ اگر اِن سب کا مجمُوعہ بنایا جائے تو اُردُو بولے جانے کے اعتبار سے دُنیا کی سب سے بڑی زُبان بن چُکی ہے ۔
اِن تمام معرُوضات کے بعد راقم یہ سوچنے پر مجبُور ہے کہ اگر یورپی یونین کے ذریعے بتِیس مُمالک کا اِتحاد ہو سکتا ہے ، دُنیا بھر کے تمام مُسلمانوں کو ایک زُبان کی لڑی میں پرونے کی تحرِیک چل سکتی ہے ، اولادِ آدم کے رابطے کے لئے اسپرانتو کی عالمگِیر تحرِیک چل سکتی ہے تو خِطۂ کوہسار و پوٹھوہار کی تارِیخ و تہذِیب کو ایک زُبان کا حامِل کِیُوں نہِیں بنایا جا سکتا ؟
حضرت نوح علیہ سلام کے ایک بیٹے کا نام "سام” یا "سم” تھا ۔ سام کی زُبان سامی جو وطنی اعتبار سے عربی کہلاتی تھی اور سام کی اولاد میں سے ایک شخص کا نام "عِبر” تھا ۔ عِبر اور اِس کے ہمنوا چُونکہ تلاشِ رِزق میں دریا عُبُور کر کے ہِجرت کر گئے تھے اِس لئے "عِبرانی” کہلائے ۔
ماہنامہ "اُردُو ڈائجسٹ” کی پہلی جِلد کے شُمارہ نمبر دو کے مُطابِق "1880ء میں سوا دو ہزار سال تک مُردہ رہنے والی زُبان عِبرانی کو لِتھوانیا کے بائیس برس کے نوجوان ڈاکٹر لازار بِن یہُودہ نے نہ صِرف زِندہ کر ڈالا بلکہ اڑتِیس برس کے قلِیل عرصہ کے دوران (1917ء)میں چونتِیس ہزار افراد عِبرانی بولنے اور سمجھنے لگ گئے تھے ۔ لازار نے اپنی بِیوی سے یہ عہد کِیا کہ جب یہ دونوں عِبرانی کا کوئی نیا لفظ سِیکھ لیں گے تو اپنی گُفتگُو میں وہی لفظ اِستعمال کریں گے اور یُوں رفتہ رفتہ اُنہوں نے گھریلُو زِندگی میں عِبرانی بولنا شُرُوع کر دِی ۔ 1882ء میں اِن کے ہاں بیٹا پیدا ہُوا جِس کا نام "اینامار” تھا ۔ یہ دُنیا میں دو ہزار سال بعد پہلا بچّہ تھا جِس کی مادری زُبان عِبرانی تھی ۔
تہران یُونِیورسِٹی کے شعبۂ اسپرانتو کے سربراہ ڈاکٹر صاحب الزّمانی اور اُن کی اہلیہ محترمہ ژِیلا صاحب الزّمانی اُردُو زُبان کی حمایت میں اپنی کِتاب "فرداشدنِ اِمرُوز” کے صفحہ 48 پر لِکھتے ہیں :
"1990ء میں بھارت کے وزِیرِ خارجہ نے اقوامِ مُتّحِدہ کے اِجلاس میں اُردُو بولنا چاہی تو اعتراض ہُوا کہ اُردُو "یُو ۔ این ۔ او ” کی سرکاری زُبان نہِیں ہے ۔ وزیرِ موصُوف نے جواب میں کہا :
"یہ کیا بات ہے کہ اقوامِ مُتّحِدہ کی سرکاری زُبانوں میں سے عربی کے بولنے والوں کی تعداد 120 مِلیَن ، ہسپانوی کے 180 مِلیَن ، انگریزی والے 270 مِلیَن اور رُوسی والے 140 مِلیَن ہیں اور اُردُو جِس کے بولنے والوں کی تعداد 350 مِلیَن ہے ، یہ زُبان یُو ۔ این ۔ او کی سرکاری زُبان کِیُوں نہِیں ؟”
اِس طرح اگر ہماری پہاڑی زُبان بولنے والوں کی تعداد پروفیسر جناب اشفاق کلِیم کے مُطابِق چار مِلیَن کے قرِیب ہے تو اِس کا ہمارے گھریلُو اور تعلِیمی نِصاب کا حِصّہ نہ بن سکنا یقیناً ہماری بے حِسی کا واضح ثبُوت ہے ۔
جناب صبِیر ستّی مرحُوم نے خِطۂ کوہسار میں بہت عاجزی اور دردمندی کے ساتھ دو دہائیوں قبل پہاڑی لِسانی فصل کا پہلا بِیج بویا تھا ۔ اِس کی نشو نُما و آبیاری میں درجنوں بہی خواہوں نے اپنا حِصّہ ڈالا ، بلکہ اب تو اُس فصل کی کونپلیں بھی پھل پھُول کر یہ ثابت کر رہی ہیں کہ نوجوان قلم کار اپنی دھرتی اور زُبان کا قرض اُتارنے میں خُوب دِلچسپی لے رہے ہیں ۔
اگرچہ صبِیر ستّی کی تارِیخی کُتب میں مافُوق الفِطرت واقعات پر اِختلافِ رائے کی گُنجائش موجُود ہے لیکِن اُن کا یہ کارنامہ کیا کم ہے کہ ستّی قبائل سے مُتعلّق سِینہ بہ سِینہ چلنے والی روایات کو یکجا کر کے اُنہوں نے تارِیخ میں محفُوظ کر لِیا ہے ۔ آج ستّی قبِیلہ اگر اپنی تارِیخ کو فخر سے بیان کر سکتا ہے تو جناب صبِیر ستّی کی کُتب کے عِلاوہ اُن کے پاس اُردُو زُبان میں کِسی اور ستّی کا لِکھا ہُوا کوئی مُستند اثاثہ موجُود نہِیں ہے ۔ اگرچہ وقار ستّی نے بھی "تارِیخِ چِلاورہ” مُرتّب کی تھی لیکِن وہ تارِیخ کے اُصُولی معیارات کے اُتنے قرِیب نہِیں جِتنی جناب صبِیر ستّی کی کُتب ہیں ، کِیُونکہ صبِیر صاحب نے اپنے ماخذات کو مِن و عن بیان کر کے خُود کو جانِبداری اور غُلُو سے دُور رکھا ہے ۔
یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ بائبل سمیت صحت اور سماجی موضُوعات پر قریباً پچاس کُتب خِطۂ پوٹھوہار و کوہسار میں آنے والے مِشنری مسِیحیوں( مری کرِسچن سکُول ، گھڑیال کے مِسٹر مائیکل لازر اور اُن کی اہلیہ لاؤرا لازر )کی سرپرستی سے پہاڑی زُبان میں ترجمہ ہو چُکی ہیں ۔
جناب سُہیل ستّی نے کِتاب مذکُور کی تقرِیظ میں لِکھا کہ مرحُوم صبِیر ستی نے کوٹلی ستیاں کے لوگوں اور زُبان کے عِشق میں بہت ساری مادی ترقّیوں کو قُربان کِیا ۔ اُن کی نظر ایک شعر عرض ہے ۔
انِیس آسان نہِیں آباد کرنا گھر محبّت کا
یہ اُن کا کام ہے جو زِندگی برباد کرتے ہیں
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos