سید نبیل اختر:
میٹرک بورڈ میں فیل طلبہ کو پاس کرنے کی برسوں سے جاری کرپشن پر تحقیقاتی اداروں نے مافیا کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور امتحانات میں گڑبڑ اور پیسے بٹورنے والوں کیخلاف تحقیقات شروع کیں۔ یہ تحقیقات چار ماہ پہلے شروع کی گئی تھیں۔ جس کا مقصد کراچی کے ان بچوں کا مستقبل محفوظ بنانا تھا جنہیں مافیا نے پیسوں کے عوض کہیں کا نہیں چھوڑا۔ میٹرک میں امتیازی نمبروں سے پاس کرنے والے طلبہ کراچی کے بہترین کالجز میں داخلہ لینے میں کامیاب تو ہوجاتے ہیں۔ تاہم ان سے انٹر کا ایک پرچہ بھی پاس نہیں ہوتا۔ انٹر بورڈ کی مافیا کو پیسے دے کر انٹرمیڈیٹ کا رزلٹ تبدیل کرلیتے ہیں تو جامعات کے انٹری ٹیسٹ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مافیا نے کراچی کے مستقبل کے معماروں کی تعلیمی قابلیت پر کاری ضرب لگائی ہے۔
میٹرک بورڈ میں سال میں دو بار امتحانات پر مافیا اور بورڈ کے کرپٹ افسران کروڑوں روپے کا دھندا کرتے ہیں۔ جس کے شواہد جمع کیے گئے۔ ابھی میٹرک بورڈ افسران اور مافیا گٹھ جوڑ کی تحقیقات جاری تھیں کہ میٹرک کے نتائج جاری کرنے کا مرحلہ آگیا اور بورڈ کے کرپٹ افسران نے رزلٹ تبدیل کرنے کے نام پر بڑے پیمانے پر وصولیاں شروع کردیں۔ افسران و مافیا کے گٹھ جوڑ نے دسویں جماعت کے نتیجے بدلنے کیلئے بارہ کروڑ روپے سے زائد کی وصولی کی۔ یہ امتحانی مراکز قائم کرنے کے بعد دوسری بڑی رقم تھی۔
گزشتہ امتحانات سے چند روز قبل نئے چیئرمین غلام حسین سوہو نے چارج سنبھالا تھا۔ امتحانات میں ہونے والی گڑبڑ سے وہ لاعلم تھے۔ تاہم انہوں نے امتحانات کا مٹیریل فراہم کرنے والوں کو تاکید کی کہ وہ کسی صورت پرچہ آؤٹ ہونے نہ دیں۔ تب میٹرک کا پرچہ تو آؤٹ نہیں ہوا۔ لیکن امتحانی مراکز بنانے والوں نے نقل مافیا سے بڑے پیمانے پر رقوم بٹور کر سینٹرز بیچ دیئے۔ یہ دھندا میٹرک بورڈ کے پریکٹیکل سیکشن نے بورڈ کے ان کلیدی عہدیداروں کے آشیرباد سے کیا۔ جنہیں معلوم تھا کہ ایک سو من پسند اسکولوں کو امتحانی مرکز بنانے پر کروڑوں روپے ہاتھ آجائیں گے۔
سابق چیئرمین سید شرف علی شاہ ان دنوں موجود تھے اور چاہتے تھے کہ مافیا کے من پسند سینٹرز نہ بنائے جائیں۔ اس ضمن میں انہوں نے بورڈ کے ڈپٹی سیکریٹری سید عمیر حسین کی سربراہی میں امتحانی مراکز بنانے کیلئے بورڈ افسران پر مشتمل کمیٹی بنائی۔ جس میں دو اسسٹنٹ کنٹرولرز بھی تھے۔ تاہم بورڈ کی مافیا نے اس کمیٹی میں ایک ایسے افسر کو شامل کرایا جسے پریکٹیکل سیکشن کی ذمہ دادیاں سونپنا تھیں۔ اسی افسر کے ذریعے بورڈ کے منتظمین نے کمیٹی کی سفارشات کے برخلاف ایک سو سے زائد سینٹر تبدیل کردیے اور نقل مافیا کے ان تمام اسکولوں کو امتحانی مرکز بناکر بھاری رقوم وصول کی گئیں۔ جنہیں عمیر حسین کی کمیٹی نے سینٹر لسٹ سے باہر کر دیا تھا۔
سینٹر تبدیل ہونے پر سابق چیئرمین سید شرف علی شاہ نے کارروائی سے معذوری ظاہر کی اور اسی اثنا میں ان کے فرائض ختم ہوگئے اور غلام حسین نے نئے چیئرمین کا چارج سنبھال لیا۔ امتحانات کے دوران سینٹر بنانے کا دھندا ہوا۔ لیکن نئے چیئرمین پرچہ شروع ہونے میں دو روز رہ جانے کے باعث کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ کرسکے۔نئے چیئرمین نے امتحانات کے بعد نتائج کے حوالے سے نویں اور دسویں جماعت کیلئے ایماندار اسسٹنٹ کنٹرولر ایم اے جعفری اور سید راشد علی کا انتخاب کیا۔
میٹرک بورڈ میں موجود کرپٹ افسران نے چیئرمین غلام حسین سوہو کے سامنے کروڑوں روپے کی آفرز رکھیں۔ تاہم انہوں نے رزلٹ تبدیل کرنے کے معاملے کا انکار کیا نہ ہی حامی بھری۔ اب چیئرمین بورڈ میں موجود دھندے میں ملوث افسران کے حوالے سے لاعلم نہیں تھے۔ ایک رزلٹ گزر گیا اور مافیا کا کوئی کام نہ ہو سکا۔ بعد ازاں میٹرک سائنس کے رزلٹ میں بورڈ کے سابق ناظمین امتحانات، ڈپٹی کنٹرولرز اور اسسٹنٹ کنٹرولرز سمیت بورڈ سیکریٹریٹ کے ملازمین و افسران نے بھی پانچ ہزار نتائج تبدیل کرنے کیلئے رول نمبرز جمع کرلیے۔ بعض نے براہ راست اور بعض نے سفارشیوں کے ذریعے نتائج تبدیل کرنے کیلئے چیئرمین پر دباؤ بھی ڈالا۔ تاہم چیئرمین نے کسی قسم کا کوئی دباؤ قبول نہیں کیا اور اٹھارہ برس بعد میٹرک سائنس کے شفاف نتائج جاری کردیے گئے۔
قبل ازیں تحقیقاتی ادارے اس دوران چیئرمین اور سابق ناظم امتحانات سے امتحانات اور نتائج تبدیل کرنے سے متعلق معلومات حاصل کر چکے تھے۔ تحقیقات میں میٹرک بورڈ کے افسران، ایجنٹوں اور سفارشیوں سے متعلق بھی ڈیٹا جمع کیا گیا۔ تاکہ مافیا اور اس کے سہولت کاروں کے خلاف کیس بنایا جاسکے۔ معلوم ہوا ہے کہ متعلقہ ادارے نے نتائج تبدیل کرنے کے حوالے سے تمام شواہد اکٹھا کرلئے ہیں اور جلد ان کارندوں کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں گے جو کراچی کے بچوں کا مستقبل تاریک کرنے کی مذموم سازش کا حصہ ہیں۔ کروڑوں روپے کے اس دھندے میں میٹرک بورڈ انتظامیہ کے علاوہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈیپارٹمنٹ کے افسران بھی ملوث ہیں۔ جن کے بارے میں تحقیقات کی جارہی ہیں۔
میٹرک بورڈ کے سات سے سترہ گریڈ میں ترقی کرنے والے افسران کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے جو دو ہزار سات میں بھرتی کیے گئے تھے۔ اس سلسلے میں بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ انہیں کس قانون کے تحت ایک ساتھ دس گریڈ کے اضافے کے ساتھ ترقی دی گئی۔ ان میں بورڈ کے موجودہ سیکریٹری اورایک سابق ناظم امتحانات بھی شامل ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ امتحانات کے دوران فرنیچر کرائے پر حاصل کرنے کے نام پر ہونے والی کرپشن کو بھی تحقیقات میں شامل کیا گیا۔ جس میں من پسند کمپنیوں کو من چاہے ریٹس پر فرنیچر کیلئے کروڑوں کی ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔ یہ ادائیگیاں بورڈ سیکریٹریٹ سے ہوتی ہیں۔ جس پر آڈٹ اعتراضات بھی سامنے آچکے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ فرنیچر کے بل روک دیئے گئے اور اس معاملے کی انٹرنل چھان بین کی جارہی ہے۔
میٹرک بورڈ میں ان دنوں نئے سیکریٹری کی تعیناتی کے حوالے سے بھی متضاد خبریں گردش کر رہی ہیں۔ تاہم موجودہ سیکریٹری نوید احمد کے خلاف بورڈ کے سابق سپرنٹنڈنٹ خان نوید قمر نے سیکریٹری بورڈ عباس بلوچ اور چیئرمین میٹرک بورڈ غلام حسین سوہو کو خط لکھا ہے۔ یہ خط انکشافات سے بھرا ہوا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ بورڈ کے موجودہ سیکریٹری نوید احمد نے غیر قانونی طریقے سے ترقیاں حاصل کیں۔ خط میں کہا گیا کہ ’نوید احمد یکم جنوری 2004ء کو جونیئر کلرک کم ٹائپسٹ بھرتی ہوئے تھے اور دو ہزار سات میں انہیں گریڈ سترہ میں ترقی دے دی گئی۔
مذکورہ ترقی میں میرٹ کی دھجیاں بکھیری گئیں۔ جبکہ دو ہزار چھ میں نوید احمد سنیارٹی لسٹ میں 49 نمبر پر تھے۔ 31 اگست 2021 کوایک مرتبہ پھر انہیں غیر قانونی طور پر ترقی دے دی گئی‘۔ مذکورہ ترقی کے حوالے سے کہا گیا کہ ’یہ ترقی سابق چیئرمین سید شرف علی شاہ اور اور بورڈ آف گورنرز کی سفارش پر کی گئی۔ جبکہ در حقیقت بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں بورڈ رکن نے پہلی ترقی کو غیر قانونی ہونے کی نشاندہی کی تھی۔ جس پر بورڈ آف گورنرز نے اگلے گریڈ میں ترقی کو مسترد کردیا تھا‘۔
خط میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ ’نوید احمد کو دو برس میں سترہ سے اٹھارہ گریڈ میں ترقی دی گئی۔ بعد ازاں نوید احمد کو انیس گریڈ کا عہدہ سیکریٹری بورڈ تفویض کردیا گیا۔ ایک برس اس کنٹریکٹ میں ایک سال کیلئے تجدید کردی گئی، جو پانچ ستمبر 2025ء کو ختم ہوجائے گی‘۔ خط میں سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین کے خط کا حوالہ بھی دیا گیا، جو انہوں نے نوید احمد کی ترقی کے خلاف یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈیپارٹمنٹ کو بھیجا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بورڈز ڈیپارٹمنٹ میں تعینات ڈپٹی سیکریٹری یونیورسٹیز فرحان اختر بھی مالی فوائد کیلئے نوید احمد کی سیکریٹری شپ کیلئے کوشاں ہیں۔ جبکہ نوید احمد پیپلز پارٹی کے وزرا سے مل کر اپنے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos