بااثر ہونے کے سبب مقدمہ میں کمزور دفعات شامل کی گئیں، فائل فوٹو
 بااثر ہونے کے سبب مقدمہ میں کمزور دفعات شامل کی گئیں، فائل فوٹو

حنیف پٹاخہ کے گودام میں بارودی مواد اور فائر گنز بھی تھے

کاشف ہاشمی:
کراچی میں چند روز قبل ایم اے جناح روڈ پر الآمنہ پلازہ میں پٹاخوں کے گودام میں ہونے والے زوردار دھماکے نے نہ صرف شہریوں کو خوف میں مبتلا کیا۔ بلکہ حکومتی اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔ اس سانحے میں اب تک چھ افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ جبکہ 30 سے زائد زخمی مختلف اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔

دھماکے کی ہولناکی کا اندازہ اس کی آواز کئی کلومیٹر دور تک سنی گئی۔ قریبی عمارتیں لرز اٹھیں اور کئی عمارتوں کی دیواریں اور شیشے ٹوٹ گئے۔ جائے وقوعہ پر بھگدڑ مچ گئی اور آس پاس کے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کے فوراً بعد آگ بھڑک اٹھی تھی، جس نے ریسکیو کارروائیوں کو مزید مشکل بنا دیا تھا۔ آتش گیر مواد بنانے کا ذخیرہ شہر کے بیچوں بیچ موجود تھا۔

تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ دکان کے اندر صرف پٹاخے ہی نہیں بلکہ بھاری مقدار میں بارودی مواد، فائر گنز اور سیفٹی فیوز بھی موجود تھے۔ متاثرہ عمارت الآمنہ پلازہ کی یونین کے صدر نے دعویٰ کیا تھا کہ عمارت میں حنیف پٹاخہ کا 20 ہزار کلو سے زائد بارودی مواد موجود ہے۔ حنیف پٹاخہ کی مذکورہ عمارت کے اندر ذاتی 12 سے 15 دکانیں ہیں، جن میں بارودی مواد تھا۔ عمارت کے اندر اس کے کنٹینر میں بھی بھاری مواد موجود ہے۔ جبکہ بم ڈسپوزل اسکوڈ نے اپنی رپورٹ میں پانچ ہزار کلو گرام بارودی مواد موجود ہونے کا انکشاف کیا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ حنیف پٹاخہ کے گودام و کارخانے میں 500 کلو گرام فائر ورکس کا سامان دھماکے سے پھٹا، جس کی وجہ عمارت کو شدید نقصان پہنچا۔ دھماکے سے 100 میٹر کے دائرے میں تباہی پھیلی۔ گرائونڈ پلس ٹو عمارت کی چھت پر بھی بنائے گئے دو کمروں میں بارودی مواد موجود تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے آتش گیر مادے کا رہائشی اور تجارتی آبادی کے درمیان موجود ہونا کسی بھی وقت بڑے سانحے کو جنم دے سکتا ہے۔

بم ڈسپوزل اسکواڈ کے ایک افسر کے مطابق حکومت کے پاس اس حوالے سے واضح ایس او پیز موجود ہیں کہ ایک دکان یا گودام میں کتنی مقدار میں آتش گیر سامان رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ان اصولوں پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوتا۔ یہ نہ صرف انسانی جانوں کیلئے خطرہ ہے۔ بلکہ آس پاس کی عمارتوں کے ڈھانچے بھی ایسے دھماکوں سے بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں۔ پریڈی پولیس نے اس واقعے کا مقدمہ حنیف پٹاخہ اور اس کے بھائی ایوب کے خلاف درج کیا تھا۔

اس مقدمے میں پولیس نے حنیف پٹاخہ کے گرفتاری نجی اسپتال میں جاکر ڈالی تھی۔ لیکن اس کا بھائی تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ اس دھماکے کے بعد پولیس نے ہفتے کے روز نبی بخش کے علاقے میں حنیف پٹاخہ کے ایک اور خفیہ گودام میں چھاپہ مار کر فائر ورکس کا بھاری بارودی مواد تحویل میں لیا ہے۔

واضح رہے کہ حنیف پٹاخہ ایک اثر رسوخ رکھنے والی شخصیت ہے۔ اسی سبب اس کے خلاف درج کیے جانے والے مقدمہ میں دہشت گردی ایکٹ شامل نہیں کیا گیا اور کمزور دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ حنیف پٹاخہ کے گوداموں میں دھماکہ پہلی بار نہیں ہوا۔ چند برس قبل میمن گوٹھ میں بھی اس کے غیر قانونی بارود کے گودام میں دھماکہ ہوا تھا۔ جس میں چند افراد کی ہلاک اور چند لوگ زخمی ہوئے تھے۔ اس وقت پولیس نے حنیف پٹاخہ کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ جبکہ 2021ء میں بھی الآمنہ پلازہ میں اسی کے گودام میں دھماکہ ہوا تھا، جس میں مالی نقصان ہوا تھا۔ اس وقت بھی پولیس نے کمزور دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا۔

تحقیقاتی ادارے کے ایک افسرکا کہنا ہے کہ شہر میں جس طرح آتش بازی کا سامان موجود ہے، وہ ایک بارودی مواد ہے۔ اس کا لائسنس اور این او سی جاری کرنے والے محکمے اور سی ٹی ڈی کے افسران بھتہ وصول کرکے شہریوں کی جان و مال کا سودا کرنے میں ملوث ہیں۔ اس دھماکے کے بعد سی ٹی ڈی اور علاقہ پولیس کی انٹیلی جنس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو شہر کے بیچوں بیچ بارودی مواد کا سراغ نہیں لگا سکے،

کیا شہر میں دہشت گردوں کا خاتمہ کرسکیں گے۔ دھماکے کے بعد حسب روایت متعلقہ اداروں نے کارروائیاں شروع کیں۔ دکان سے برآمد ہونے والا سامان تحویل میں لے لیا گیا اور اولڈ سٹی ایریا، ملیر اور دیگر علاقوں میں قائم اسی نوعیت کی دکانوں اور گوداموں پر چھاپے مارے جانے لگے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب سب کو علم تھا کہ ایسے گودام موجود ہیں تو کارروائی پہلے کیوں نہ کی گئی؟

ذرائع کے مطابق ایم اے جناح روڈ پر قائم اس گودام کے خلاف ماضی میں بھی شکایات سامنے آتی رہیں۔ لیکن مالک کے اثر رسوخ کی وجہ سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرکاری تقریبات میں استعمال ہونے والا آتشبازی کا زیادہ تر سامان بھی اسی دکان سے فراہم کیا جاتا تھا۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ چھاپوں کے دوران برآمد ہونے والا آتش گیر سامان مختلف تھانوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ یہ عمل نہ صرف تھانوں کے عملے بلکہ اردگرد رہائش پذیر شہریوں کیلئے بھی ایک نیا خطرہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سامان کو محفوظ کرنے کیلئے الگ اور محفوظ مقامات بنائے جائیں۔

دوسری جانب گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں آتشبازی کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے۔ یومِ آزادی، نیو ایئر نائٹ، شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں آتشبازی کو لازمی حصہ سمجھا جانے لگا ہے۔ اس سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بلکہ ایسے سامان کی مانگ بڑھنے کی وجہ سے غیر قانونی گودام بھی کثرت سے قائم ہو گئے ہیں۔ ماہرین اور شہری حلقوں کی رائے ہے کہ ایسے تمام گودام اور دکانوں کی فوری انسپیکشن کی جائے اور بی ڈی ایس کی ٹیم کو اس عمل میں شامل کیا جائے۔

ہر ماہ انسپیکشن کو لازمی قرار دیا جائے۔ آتش گیر سامان رکھنے کیلئے شہری آبادی سے دور مخصوص زونز بنائے جائیں۔ برآمد شدہ سامان کو تھانوں یا سرکاری دفاتر کے بجائے محفوظ مقامات پر رکھا جائے۔ ایم اے جناح روڈ دھماکہ صرف ایک حادثہ نہیں۔ بلکہ ہماری اجتماعی غفلت کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر حکام نے اب بھی سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو مستقبل میں مزید بڑے سانحات ہمارے منتظر ہوں گے۔