عمران خان :
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی دستاویزات پر ان کے ذاتی استعمال کی آڑ میں کمرشل گاڑیوں کا وسیع نیٹ ورک چلانے والی شورومز مافیا کی اربوں روپے کی بے نامی ٹرانزیکشنز پکڑی گئیں۔ اس معاملے پر ایف بی آر اور ایف آئی اے کو ملک بھر میں ملوث عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے ان کے اثاثے منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت منجمد کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ شورومز مافیا میں شامل مالکان، کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹس، پاسپورٹ خریدنے اور بیچنے والے بروکرز کے خلاف کیس بنانے کے لئے ٹیموں نے کام شروع کردیا ہے۔
ایف آئی اے اور کسٹمز ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق پاکستان میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد ایک عرصے سے ایک منافع بخش مگر متنازع کاروبار کے طور پر سامنے آتی رہی ہے۔ وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے اینٹی بے نامی زون کی حالیہ کارروائی نے ایک بار پھر اس مافیا کو بے نقاب کیا ہے جو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے پاسپورٹوں اور ذاتی اسکیموں کو ڈھال بنا کر کمرشل بنیادوں پر گاڑیاں منگواتا اور اندرون ملک فروخت کرتا رہا ہے۔اس عمل میں نہ صرف اربوں روپے کے محصولات چوری کیے گئے بلکہ حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ کے ذریعے قومی معیشت کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔
پاکستان میں وہیکل بیگیج، گفٹ اور ٹرانسفر آف ریزیڈنس اسکیمز بنیادی طور پر اوورسیز پاکستانیوں کے لیے متعارف کرائی گئی تھیں، تاکہ وہ اپنے ذاتی استعمال کے لیے گاڑیاں ملک لا سکیں۔ ان اسکیموں کے تحت ایک شخص مقررہ مدت کے بعد ذاتی ضرورت کے لیے ایک گاڑی منگوا سکتا ہے۔ لیکن اس سہولت کو کمرشل مافیا نے ایک کاروباری ماڈل بنا لیا۔ مختلف شوروم مالکان اور درآمد کنندگان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ساتھ رابطہ کرتے، ان کے پاسپورٹ اور دستاویزات استعمال کرتے اور دراصل گاڑیاں اپنے شورومز کے لیے منگواتے۔ بعد ازاں یہ گاڑیاں پاکستان میں دگنی تگنی قیمت پر فروخت ہوتیں اور اصل مالک کا اس کاروبار سے کوئی تعلق نہ ہوتا۔
ایف بی آر زرائع کے مطابق گزشتہ سات برسوں کے دوران لاکھوں روپے مالیت کی ہزاروں گاڑیاں ذاتی بیگیج کے تحت درآمد کی گئیں، مگر ان کا اصل تعلق شوروم مافیا سے تھا۔ اس دوران اصل مالکان کی شناخت چھپائی گئی اور کاغذات میں وہ اوورسیز پاکستانی دکھائے گئے جنہیں گاڑیوں سے کوئی سروکار نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایف بی آر نے اب کلیئرنگ ایجنٹس سے اصل ریکارڈ اور مالکان کی تفصیلات مانگی ہیں تاکہ بے نامی ٹرانزیکشنز کے ثبوت حاصل کیے جا سکیں۔
ایف آئی اے کے کئی کیسوں کی تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ان درآمدات میں بڑی حد تک حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ کا سہارا لیا گیا۔ کسٹمز ذرائع کے مطابق گاڑیوں کی خریداری کے لیے بیرون ملک موجود پاکستانیوں کے نام پر جعلی ادائیگی کے سرٹیفکیٹس (Proceed Realization Certificates) جمع کرائے گئے۔ ان میں دکھایا گیا کہ بیرون ملک سے زرمبادلہ آیا ہے، حالانکہ دراصل پیسہ پاکستان کے اندر ہی حوالہ ہنڈی کے ذریعے منتقل کیا جاتا تھا۔ ذرائع کے بقول نجی بینکوں کے بعض اہلکار اس کھیل میں شامل تھے جو جعلی سرٹیفکیٹس کی تصدیق کرتے اور یوں کسٹمز حکام کے سامنے گاڑیوں کی کلیئرنس کو قانونی رنگ دیا جاتا۔ یہ عمل براہِ راست منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ نہ صرف پیسے کا ماخذ چھپایا جاتا تھا بلکہ بیرون ملک سے زرمبادلہ کے جعلی ریکارڈ بنا کر بینکنگ چینلز کو بھی گمراہ کیا جاتا تھا۔
ایف آئی اے زرائع کے مطابق کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں استعمال شدہ گاڑیوں کے بڑے شورومز اس نیٹ ورک سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتے رہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف کراچی میں درجنوں بڑے شورومز نے پچھلے چند سالوں میں ہزاروں گاڑیاں انہی اسکیموں کے تحت درآمد کیں۔ کسٹمز اور ایف آئی اے کی متعدد انکوائریوں میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ گاڑیاں مارکیٹ میں زیادہ مانگ رکھنے والے جاپانی ماڈلز پر مشتمل تھیں، جو ایندھن بچانے اور کم خرچ ہونے کے باعث عوام میں مقبول ہیں۔ شوروم مالکان گاڑیوں کو بظاہر ’’اوورسیز پاکستانی‘‘ کے نام پر کلیئر کراتے مگر چند ہی دنوں بعد وہی گاڑیاں مارکیٹ میں ’’برائے فروخت‘‘ نظر آتیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کسٹمز کے بعض اہلکار اور کلیئرنگ ایجنٹس بھی اس مافیا کے اہم ستون رہے۔ کلیئرنگ ایجنٹس نے گاڑیاں کلیئر کرانے کے لیے نہ صرف جعلی کاغذات استعمال کیے بلکہ ’’اصل مالکان‘‘ کے بارے میں بھی غلط معلومات فراہم کیں۔ اس کے بدلے شوروم مالکان بھاری کمیشن ادا کرتے۔
دوسری جانب کسٹمز حکام پر بھی یہ الزامات لگتے رہے ہیں کہ وہ جان بوجھ کر آنکھیں بند کیے رکھتے اور انکم ٹیکس و ڈیوٹیز کی چوری کو نظرانداز کرتے۔ حالیہ کریک ڈاؤن میں کئی ایجنٹس سے اصل ریکارڈ طلب کیا گیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر انہوں نے تعاون نہ کیا تو بے نامی ایکٹ 2017 کے تحت سخت سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ کارروائی وزیراعظم شہباز شریف کی براہ راست ہدایات پر کی گئی ہے۔ وزیراعظم نے ایف بی آر اور کسٹمز حکام کو واضح حکم دیا ہے کہ ذاتی بیگیج اور گفٹ اسکیمز کے غلط استعمال کو ہر حال میں روکا جائے اور ملوث عناصر کو کٹہرے میں لایا جائے۔
ایک سینئر ایف بی آر افسر کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ کریک ڈاؤن وقتی طور پر کچھ نتائج دے سکتا ہے لیکن طویل المدتی حل صرف اس وقت ممکن ہے جب حکومت استعمال شدہ گاڑیوں کے لیے باضابطہ کمرشل درآمدی پالیسی متعارف کرائے۔ فی الوقت حکومت نے پرانی گاڑیوں کی درآمد سے 100 ارب روپے سے زائد محصولات جمع کیے ہیں، لیکن واضح پالیسی نہ ہونے کے باعث یہ شعبہ دھوکہ دہی اور بے ضابطگیوں کا شکار رہا ہے۔
کسٹم ذرائع کے مطابق جب تک شوروم مافیا کو قانونی راستہ نہ دیا جائے گا اور حوالہ ہنڈی پر سخت کارروائی نہ کی جائے گی، اس کاروبار میں بے نامی لین دین اور منی لانڈرنگ جاری رہے گی۔ ایف بی آر کا حالیہ کریک ڈاؤن شوروم مافیا اور کلیئرنگ ایجنٹس کے نیٹ ورک کے خلاف ایک بڑا قدم ضرور ہے لیکن یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ ہر حکومت نے وقتی اقدامات تو کیے مگر جامع پالیسی کی کمی ہمیشہ اس مسئلے کو دوبارہ جنم دیتی رہی۔
ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ اس لئے بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں زرمبادلہ کے ذخائر قیمتی اثاثہ ہیں، وہاں جعلی سرٹیفکیٹس، حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ جیسے عوامل معیشت کے لیے زہر قاتل ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت ایک مستقل تجارتی پالیسی بنائے، کسٹمز کے نظام کو شفاف کرے اور شوروم مافیا کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos