فائل فوٹو
فائل فوٹو

آن لائن قرضہ ایپس کے ذریعے فراڈز جاری

عمران خان:
پاکستان میں آن لائن قرضہ ایپس کے ذریعے ہونے والے مالیاتی فراڈ کا سلسلہ تھم نہیں سکا۔ اگرچہ سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP) اور نیشنل سائبر کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) بارہا کارروائیوں کے دعوے کر چکی ہیں۔ مگر غیر قانونی لون ایپس اب بھی کھلے عام عوام کو لوٹ رہی ہیں۔ ان کے ذاتی ڈیٹا تک غیر قانونی رسائی حاصل کر رہی ہیں اور بھاری سود کے جال میں پھنسا رہی ہیں۔ اب تک ایس ای سی پی نے رواں برس کے وسط تک شہریوں سے فراڈ کرنے والی 144 آن لائن قرضہ ایپس کو بلیک لسٹ میں ڈال کر پی ٹی اے کے ذریعے گوگل پلے اسٹور کو بالکنگ کیلئے بھیجا ہے۔ جبکہ 9 آن لائن قرضہ ایپس کمپنیاں ایس ای سی پی کی وائٹ لسٹ میں ہیں۔ جنہیں شہریوں کو 100 فیصد سود پر قرضہ دینے کے کاروبار کی اجازت دی گئی ہے۔

’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق ڈیجیٹل قرضہ ایپس کی مقبولیت اس وقت بڑھی جب عام شہریوں کیلئے بینکوں سے قرض کا حصول مشکل تھا۔ ایسے میں ان کمپنیوں نے فوری اور آسان قرضے کا دعویٰ کرکے غریب اور متوسط طبقے کو اپنی جانب راغب کیا۔ چند ہزار روپے کے قرض کے عوض ان کمپنیوں نے شہریوں سے نہ صرف قومی شناختی کارڈ اور تصاویر مانگیں۔ بلکہ موبائل کانٹیکٹس، فوٹو گیلری اور کیمرے تک مکمل رسائی بھی حاصل کی۔ یہ کمپنیاں قرض منظور کرنے کے بجائے اکثر درخواست مسترد کر دیتی تھیں۔ لیکن اس دوران صارفین کا ذاتی ڈیٹا ان کے قبضے میں آ جاتا۔ بعد ازاں یہی ڈیٹا عوام کو بلیک میل کرنے اور ہراساں کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا۔

کئی متاثرین نے بتایا کہ ایک معمولی قرض کے بدلے ان سے سود کی مد میں کئی گنا زیادہ رقم وصول کی گئی۔ ذرائع کے بقول سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے 2020ء میں نان بینکنگ فنانشل کمپنیوں کو آن لائن لون ایپس چلانے کے لائسنس دیئے۔ مگر ان لائسنسوں کے ساتھ کوئی سخت شرائط یا ضابطے طے نہیں کیے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کمپنیوں نے کھلے عام صارفین کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کی اور قرضوں پر 1800 فیصد تک سود وصول کیا۔ تاہم بڑھتے ہوئے اسکینڈلز اور عوامی شکایات کے بعد ایس ای سی پی نے 2023ء اور 2024ء میں ریگولیشنز سخت کرنے کا اعلان کیا۔

اب کمپنیوں کو صرف 100 فیصد تک سود لینے کی اجازت ہے اور قرض کے حصول کیلئے صارف کو تین افراد کی تفصیلات دینا لازمی ہے۔ مزید یہ کہ اب ایپس صارفین کی گیلری اور کانٹیکٹس تک رسائی نہیں لے سکتیں۔ اس کے باوجود اپ لوڈ شدہ ایس ای سی پی کی تازہ ترین فہرست میں یہ واضح ہے کہ درجنوں غیر قانونی ایپس اب بھی گوگل پلے اسٹور اور دیگر پلیٹ فارمز پر دستیاب ہیں۔

ذرائع کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کے اجلاس میں این سی سی آئی اے حکام نے بتایا کہ 90 فیصد کمپنیوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اور اب فراڈ کی شرح کم ہو گئی ہے۔ حکام نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ماضی میں ایس ای سی پی نے سود کی کوئی حد مقرر نہیں کی تھی۔ جس کی وجہ سے عوام کا استحصال ہوا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ این سی سی آئی اے کی کارروائیوں کے باوجود غیر قانونی ایپس کی ایک بڑی فہرست اب بھی عوامی دسترس میں ہے۔

ان میں Easy Cash Loans، Loans Superb Loans، UrCash، JaidiCredit، Loan Sallam، CandyCash،Loan Moon، اور Loan Superman جیسی ایپس شامل ہیں۔ یہ تضاد اس بات کا ثبوت ہے کہ اگرچہ حکومتی ادارے دعوے کرتے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان ایپس کو مکمل طور پر بلاک نہیں کیا جا سکا۔

متاثرہ شہریوں کا کہنا ہے کہ جب وہ ایس ای سی پی یا این سی سی آئی اے کی جانب سے ’’کلیئر‘‘ قرار دی گئی ایپس ڈائون لوڈ کرتے ہیں تو سب سے پہلے شرائط و ضوابط کا صفحہ آتا ہے۔ جس میں موبائل ڈیٹا تک رسائی کی اجازت مانگی جاتی ہے۔ اس کے بعد قومی شناختی کارڈ کے دونوں طرف کی تصاویر، تین سیلفیاں، گھر کا مکمل پتہ اور موبائل نمبر طلب کیا جاتا ہے۔ ایپس صارف کا ڈیٹا محفوظ کرنے کے باوجود قرضے کی درخواست مسترد کر دیتی ہیں۔کئی صارفین کو ایک یا دو ماہ بعد دوبارہ درخواست دینے کیلئے کہا جاتا ہے۔ اس دوران ذاتی معلومات کمپنیوں کے پاس رہتی ہیں اور شہری مستقل خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ ان کا ڈیٹا غلط استعمال نہ ہو۔

مزید معلوم ہوا ہے کہ ایس ای سی پی نے اگست 2025ء میں منظور شدہ کمپنیوں کی فہرست جاری کی۔ جس میں JingleCred کی ایپ پیسے یار، فور سائیٹ فنانس کی ایٹما، ولی فنانشل سروسز کی حکیم، پاکسنووا مائیکرو فنانس کی فوری کیش، گولڈ لائن فنانشل پرائیویٹ لمیٹڈ کی اسمارٹ قرضہ، جاز کیش کا لون ٹول، زندہ فنانشلز کی منی ٹیپ، وژن کریڈ فنانشل سروسز کی پاک کریڈٹ، فن لیپ فنانشل سروسز کی دائرہ، ایزی فنانس پرائیویٹ لمیٹڈ کی لون لادو، بلیو اسکائی فنانشل سروسز کی کیش بازار، عوامی فنانشلز کی سہارا اور کوارک فنانشلز پاکستان کی پیسہ گو شامل ہیں۔ یہ وہ ایپس ہیں، جنہیں قانونی طور پر آپریٹ کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن عوامی اعتماد اس وقت تک بحال نہیں ہو سکتا جب تک غیر قانونی ایپس مکمل طور پر ختم نہ کر دی جائیں۔

ذرائع کے بقول اگرچہ حکومت اور ریگولیٹری ادارے دعویٰ کرتے ہیں کہ سخت قواعدوضوابط اور کارروائیوں کے بعد آن لائن قرض فراڈ میں کمی آئی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ غیر قانونی ایپس اب بھی موجود ہیں۔ گوگل پلے اسٹور اور مختلف ویب سائٹس پر یہ ایپس آسانی سے دستیاب ہیں۔ این سی سی آئی اے کی یہ دلیل درست ہے کہ ماضی کی نسبت صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ فراڈ مکمل طور پر رک گیا ہے، حقائق کے منافی ہے۔

این سی سی آئی اے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آن لائن قرضہ ایپس کا معاملہ صرف مالیاتی فراڈ تک محدود نہیں۔ بلکہ یہ شہریوں کی پرائیویسی اور ڈیٹا سکیورٹی کیلیے بھی خطرہ بن چکا ہے۔ ایس ای سی پی اور این سی سی آئی اے نے ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے کچھ اصلاحات ضرور کی ہیں۔ مگر ان اقدامات کی افادیت اس وقت تک ثابت نہیں ہو سکتی جب تک غیر قانونی ایپس کو جڑ سے ختم نہ کر دیا جائے۔

عوام کو بھی چاہیے کہ وہ قرض لینے سے پہلے ہمیشہ ایس ای سی پی کی منظور شدہ وائٹ لسٹ دیکھیں۔ غیر قانونی ایپس کو رپورٹ کریں اور اپنے ذاتی ڈیٹا کے تحفظ کو ترجیح دیں۔ بصورت دیگر یہ ڈیجیٹل فراڈ نہ صرف مالی نقصان بلکہ ذاتی وقار اور پرائیویسی کو بھی متاثر کرتا رہے گا۔