عمران خان کو چکر آنے اور سماعت متاثر ہونے کی بیماری پر برطانوی اخبار نے بھی رپورٹ جاری کر دی، فائل فوٹو
عمران خان کو چکر آنے اور سماعت متاثر ہونے کی بیماری پر برطانوی اخبار نے بھی رپورٹ جاری کر دی، فائل فوٹو

عمران خان کو علاج کیلیے باہر بھیجنے کا کوئی امکان نہیں

امت رپورٹ :
عمران خان کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجے جانے کا امکان نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کوئی فیصلہ زیر غور ہے۔ اس کے برعکس پچھلے ایک ہفتے سے سوشل میڈیا پر یہ خبریں تسلسل سے آرہی ہیں کہ میڈیکل گراؤنڈ پر عمران خان کو پاکستان سے باہر بھیجنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ حتیٰ کہ مین اسٹریم میڈیا سے منسلک بعض رپورٹرز نے بھی اس پر ولاگ کر ڈالے۔ تاہم ’’امت‘‘ کے معتبر ذرائع نے نہ صرف اس امکان کو رد کیا ہے۔ بلکہ کہا ہے کہ ستمبر کا رواں مہینہ کچھ لوگوں کے لیے ستمگر ثابت ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے بڑی خبریں متوقع ہیں۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی کچھ معمولی بیماریوں کو لے کر یہ بیانیہ بنایا جارہا ہے کہ حکومت کے بعض حلقے سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ عمران خان کو طبی بنیادوں پر بیرون ملک بھیج دیا جائے۔ اور یہ کہ ان کوششوں میں پی ٹی آئی کے اندر سے بھی بہت سے کردار متحرک ہیں۔ اس بیانیہ کا آغاز اس وقت ہوا جب تقریباً ایک ہفتہ قبل عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں درخواست دائر کی، جس میں کہا گیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے آنکھوں میں شدید دبائو اور دھندلے پن کی شکایت کی ہے۔ لہٰذا ان کی آنکھوں کے معائنے کے لیے مکمل میڈیکل چیک اپ کرایا جائے۔

اس دوران عمران خان کے دانتوں اور مسوڑھوں میں درد اور کانوں میں انفیکشن کی خبریں بھی چلیں تو یہ بیانیہ زور پکڑ گیا کہ میڈیکل گراؤنڈ پر عمران خان کو برطانیہ بھیجا جا سکتا ہے یا بنی گالہ میں نظر بند کیا جاسکتا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا سے جڑے ایک انوسٹی گیٹو رپورٹر نے تو اپنے ولاگ میں باقاعدہ عمران خان کو باہر بھیجنے کی تیاریوں کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کے بقول عمران خان کو میڈیکل گراؤنڈ پر ملک سے باہر بھیجنے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔ ڈاکٹروں کی تین ٹیموں نے گزشتہ ڈیڑھ مہینے میں عمران خان کے مختلف ٹیسٹ کیے ہیں۔ جن میں عمران خان کی آنکھ اور کان کے امراض سامنے آئے ہیں۔ ان کی قوت سماعت متاثر ہو رہی ہے۔ قید کے دوران پچھلے ڈیڑھ سال سے ان کے کان میں سیٹیاں بج رہی ہیں۔ واضح رہے کہ کانوں میں سیٹیاں بجنے کی بیماری کو ٹنیٹس (TINNITUS) کہتے ہیں۔

اس تمام لوکل قصوں کے دوران برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے بھی ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ٹیلی گراف کو دستیاب میڈیکل رپورٹ کے مطابق عمران خان کی سماعت متاثر ہو رہی ہے اور وہ چکروں (Vertigo) کا شکار ہیں‘‘۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان کے سابق وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں کے مطابق ان بیماریوں کو جان لیوا نہیں سمجھا جاتا، لیکن تہتّر سالہ سیاست دان کی بگڑتی ہوئی صحت نے تازہ خدشات کو ہوا دی ہے۔

عمران خان کرپشن کے ایک مقدمے میں چودہ سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں، جس میں ان پر اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے عہدے پر رہتے ہوئے ایک ٹرسٹ کے ذریعے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض سے رشوت کے طور پر زمین حاصل کی تھی‘‘۔ راولپنڈی کے بے نظیر بھٹو اسپتال میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر احمد حسن نے ٹیلی گراف کو بتایا ’’عمران خان کو دو طرفہ ٹنیٹس (TINNITUS) تھا، جو بائیں کان میں زیادہ شدید تھا، اور اس کے نتیجے میں قوت سماعت متاثر ہو رہی ہے‘‘۔ ایک اور ای این ٹی ماہر ڈاکٹر کاشف میبل نے عمران خان کو اونچی آوازوں سے بچنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ٹینٹس ممکنہ طور پر شور کی وجہ سے ہے اور چکر آنے کا امکان کچھ ہفتے پہلے بینائن پوزیشنل پیروکسزمل ورٹیگو (BPPV) کے سبب تھا۔

اس سلسلے میں ’’امت‘‘ نے ایک ای این ٹی ماہر ڈاکٹر علی شیر سے بات کی تو ان کا کہنا تھا ’’بینائن پوزیشنل پیروکسزمل ورٹیگو کی بیماری سروائیکل یا کان میں شدید انفیکشن کی وجہ سے بھی ہوجاتی ہے۔ جس کے سبب کان کے اندرونی حصے میں موجود کینال میں کیلشیم کے چھوٹے چھوٹے کرسٹل جمع ہوجاتے ہیں، جو حرکت کرتے ہیں۔ ان کرسٹل کی نقل و حرکت کے سبب آنکھوں، مسلز اور دماغ کے مابین جو ایک تال میل ہوتا ہے، وہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ورٹیگو یعنی چکر آتے ہیں۔ یہ چکر کبھی لیٹتے وقت یا کبھی اٹھتے وقت یا کروٹ لیتے ہوئے آتے ہیں۔ یہ کوئی نایاب (Rare) بیماری نہیں۔

خاص طور پر بوڑھے لوگوں میں اب یہ ایک عام بیماری بن چکی ہے اور اس کے کیسز بڑھتے جارہے ہیں‘‘۔ ایک اور ای این ٹی ماہر ڈاکٹر مبشر کے بقول کانوں کی صفائی نہ کرنے کے سبب جمع ہونے والی میل (ویکس) جب انتہائی سخت ہوکر کان کے پردے کے ساتھ چپک جاتی ہے تو وہ کان سے دماغ کی طرف جانے والی نس کو متاثر کرسکتی۔ تب بھی چکر یعنی ورٹیگو کی بیماری لاحق ہوسکتی ہے۔

اب عمران خان کو لاحق ورٹیگو کے اسباب ان میں سے کون سے ہیں، یہ تو ان کا معالج ہی بتا سکتا ہے۔ لیکن طبی ماہرین سے کی جانے والی گفتگو کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح اس مرض کو انتہائی خوفناک بنا کر پیش کیا جارہا ہے، ایسا کچھ نہیں اور نہ ہی اس کے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی ضرورت ہے۔ ہاں البتہ ورٹیگو کا ایک سبب دماغ میں رسولی بننے سے بھی ہوتا ہے، جو بروقت علاج نہ ہونے پر یقیناً خطرناک ہے۔

جیل حکام کی جانب سے انسداد دہشت گردی عدالت کو بتایا گیا کہ پچھلے اکیس ماہ میں عمران خان کو اکتیس مرتبہ ڈاکٹروں کی مختلف ٹیموں نے چیک کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عمران خان بلڈ پریشر، کانوں میں سیٹی بجنا، ورٹیگو یا چکر آنا، دانتوں کی تکالیف، مسوڑھوں کے انفیکشن اور آنکھوں کے بعض امراض میں مبتلا رہے ہیں یا ابھی بھی ہیں۔ لیکن یہ ایسی خطرناک بیماریاں نہیں کہ جن کا علاج پاکستان میں نہیں ہوسکتا اور اس کے لیے انہیں بیرون ملک بھیجنا ضروری ہے۔ خود اب علیمہ خان نے بھی کہہ دیا ہے کہ عمران خان مکمل طور پر صحت مند ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان بیماریوں کی آڑ میں کسی ڈیل کے تحت بانی پی ٹی آئی کو بیرون ملک بھیج دیا جائے۔ تاہم فی الوقت اس معاملے سے آگاہ ذرائع اس امکان کو مسترد کر رہے ہیں۔

ان ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی سطح پر عمران خان کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنے سے متعلق کوئی پلان تاحال زیر غور نہیں۔ البتہ حکومت کے بعض رہنمائوں کی یہ ذاتی سوچ ضرور ہو سکتی ہے۔ ان ذرائع کے بقول اس وقت پاکستان بحرانوں سے نکل کر ایک مستحکم نظام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں اس بہتری کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو کچل دیا جائے گا۔ لہٰذا اس حوالے سے رواں مہینہ ستمبر بعض لوگوں کے لیے ستمگر ثابت ہوسکتا ہے۔

اس ماہ جنرل (ر) فیض حمید کے کیس کے فیصلے سمیت چند دیگر بڑی خبریں بھی متوقع ہیں۔ بوجوہ اگر ستمبر میں ایسا کچھ نہیں ہوسکا تو اکتوبر میں بہت سے اہم فیصلے ہونے جارہے ہیں۔ جہاں تک عمران خان کو میڈیکل گرائونڈ پر بیرون ملک بھیجنے کا تعلق ہے تو اس وقت حکومت کی ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے کہ وہ یہ قدم اٹھاکر اپنے پائوں پر خود کلہاڑی مارے۔ پی ٹی آئی تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ احتجاجی تحریک کی تمام کوششیں تاحال ناکامی سے دوچار ہیں۔ ایسے میں عمران خان کو باہر بھیج دیا جاتا ہے تو بیرون ملک بیٹھ کر وہ موجودہ نظام کے لیے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں اور کچھ نہیں تو ماضی کی طرح روزانہ یوٹیوب پر ولاگ کے ذریعے ہی وہ پہلے سے غیر مستحکم سیاسی استحکام کو مزید غیر مستحکم کرسکتے ہیں۔