خیبر پختونخوا میں پولیس مراعات اور جرائم کی صورتحال

تحریر: غلام حسین غازی

خیبر پختونخوا کی سرحدیں برادر اسلامی ملک افغانستان سے ملتی ہیں جو برسوں سے بدامنی کا شکار رہا۔ اس بدامنی کے اثرات سرحدی صوبے پر بھی پڑنا قرین قیاس ہے۔ مگر صوبائی حکومت کا عزم ہے کہ عوام محفوظ و مامون رہیں۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور پولیس کی تمام ضروریات پورا کرنے کیلئے دل و جان سے کوشاں ہیں۔ تنخواہیں اور مراعات پنجاب پولیس کی طرز پر بڑھانے کے اقدامات بھی زوروشور سے جاری ہیں۔ بحیثیت مجموعی انہیں صوبہ کے دیگر سول ملازمین سے زیادہ بلکہ دگنا سہولیات و اختیارات میسر ہیں۔ مقصد واضح ہے: عوام، جو بھاری ٹیکس ادا کرتے ہیں، سکون سے جی سکیں۔ رواں مالی سال 2025-26 میں پولیس کیلئے 158 ارب روپے مختص کئے گئے۔ اس کے علاوہ ایمونیشن، گاڑیوں اور سازوسامان کیلئے 13 ارب روپے اضافی ہیں جس میں ضم اضلاع بھی شامل ہیں۔ یہ سب اقدامات عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کیلئے ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی کے سائے میں جی رہے۔

دہشت گردی کے خلاف کے پی پولیس کی کارکردگی قابل فخر ہے۔ افغانستان کی سرحد پر کشیدگی ہے۔ عالمی رپورٹس کے مطابق داعش جیسے گروہ اب بھی فعال ہیں لیکن پولیس کی کوششیں انہیں روک رہی ہیں۔ متعدد حملے ناکام بنائے گئے، دیر اور باجوڑ میں مقامی لوگوں کے شانہ بشانہ کامیاب آپریشن حوصلہ افزا ہیں جو عوامی اعتماد کا بین ثبوت ہے۔ یہ کارنامے پولیس کی جانبازی کی گواہی دیتے ہیں۔ موجودہ انسپکٹر جنرل پولیس ذوالفقار حمید بھی پولیس فورس کو فعال اور خیبرپختونخوا کو امن و آشتی کا گہوارا بنانے کے خواہاں ہیں۔

البتہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ شہری علاقوں میں سٹریٹ کرائمز اس شاندار کارکردگی کو دھندلا رہے۔ خاص طور پر پشاور کی حالت زار اظہر من الشمس ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2023ء سے پشاور میں جرائم کی شرح میں 30 فیصد اضافہ ہوا، گزشتہ کی نسبت روزانہ وارداتیں 90 سے بڑھ کر 129 تک پہنچ گئیں۔ یہ وقت صوبہ میں طویل ترین نگران دور حکومت کا تھا جو 2024ء میں عام انتخابات تک جاری رہا۔ 2024ء کی رپورٹ کے مطابق پشاور میں تشدد آمیز سٹریٹ کرائمز بھی ہوئے اور متعدد قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ تب سے چوری، ڈکیتی اور موبائل چھینا جھپٹی عام ہیں۔ یہ صورتحال پولیس کی ساکھ کیلئے نقصان دہ ہے۔ شہری اپنی پولیس سے بجا طور بہتر کارکردگی کی توقع رکھتے ہیں۔

ایک طرف صوبائی حکومت کا عزم پختہ ہے۔ دوسری طرف پولیس کی کارکردگی کا گراف گر رہا ہے۔ عوام کا اعتماد ڈگمگا رہا ہے اور یہ سب صرف سٹریٹ جرائم کی وجہ سے یے۔ سرشام اور علی الصبح شہری لٹ جاتے ہیں۔ اس کا احساس اور سدباب ناگزیر ہو چکا ہے۔ فرنچ محاورہ ہے: دھوپ چھاؤں کا عالم ہے مگر سایہ ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ عوام کو احساس تحفظ کا سایہ چاہئے جو پولیس کی اولین ذمہ داری ہے۔

بجٹ کا موازنہ ہی دیکھ لیں۔ کے پی پولیس کا بجٹ 154 ارب روپے ہے جو پنجاب کے 200 ارب سے 23 فیصد اور سندھ کے 190 ارب سے 19 فیصد کم مگر بلوچستان کے 63 ارب روپے سے 144 فیصد زیادہ ہے۔ سالانہ اضافہ 24 فیصد ہے جو پنجاب کے 6 فیصد اور سندھ کے 16 فیصد سے زیادہ البتہ بلوچستان کے 44 فیصد سے کم ہے۔ فی کس اخراجات کے پی میں 3850 روپے یومیہ ہیں جو پنجاب کے 1667 روپے فی شہری سے 131 فیصد زیادہ، سندھ کے 3455 روپے فی کس سے 11 فیصد زیادہ البتہ بلوچستان کے 4200 روپے سے 9 فیصد کم ہیں۔ یہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ گو خیبرپختونخوا میں سیکورٹی چیلنجز زیادہ ہیں اسلئے فی کس اخراجات بھی بلند ہیں۔ مگر یہ لاگت کارکردگی میں تبدیل ہونی چاہئے۔

پشاور میں بی آر ٹی سٹیشنوں پر موبائل چوری کے واقعات بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں جو اندرون شہر آمد و رفت کا بہترین ذریعہ ہے۔ بی آر ٹی عملہ خود موبائل چوری کے بڑھتے رجحان کا اعتراف کرتا ہے۔ باوجودیکہ شہری واردات پر وقت کی کمی، پولیس کے عدم تعاون و عدم اعتماد، پولیس کا ایف آئی آر اندراج سے کنی کترانے یا کم نقصان ہونے کی وجہ سے بیشتر وارداتیں نظر انداز کر جاتے ہیں۔ 2024ء میں 28 مشتبہ چور گرفتار ہوئے مگر ان کا بآسانی چھوٹ جانا بجائے خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ حالانکہ صرف رپورٹ شدہ واقعات میں بی آر ٹی مسافر مجموعی 350,000 روپے نقد، 2.5 تولہ سونا اور 27 قیمتی موبائل فونز سے محروم ہوئے۔ یہ اعدادوشمار اصل سے بدرجہا کم ہیں کیونکہ یہ صرف ان واقعات کے ہیں جو بمشکل تمام تھانوں میں اندراج تک پہنچے۔ سب سے خطرناک مقام ملک سعد سٹیشن ہے جہاں موبائل چوری کی شرح ڈبل سے ٹرپل ہوتی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اعلیٰ حکام کی لاپرواہی اور چشم پوشی سے پولیس اور بی آر ٹی سیکورٹی عملہ بھی اس "کاروبار” میں ملوث ہو چکا ہے۔

موبائل چوری کی اذیت متاثرہ شہری ہی جانتا ہے۔ موبائل اس کا دفتر، کتب خانہ، خزانہ، الماری اور خبرنامہ ہے۔ یہ نعمت چھننے سے وہ خود کو گویا اپاہج محسوس کرتا ہے۔ اسے بے پناہ تکالیف کا سامنا ہوتا ہے۔ بی آر ٹی عملہ اور شہریوں کے مشاہدات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ کافی گھمبیر ہے۔ پولیس اور بی آر ٹی انتظامیہ کو نگرانی و رپورٹنگ کا نظام بہتر بنانا چاہئے جیسے سیکورٹی عملہ کی قطاروں میں شامل چوروں پر نظر، آن لائن ایف آئی آر، سی سی ٹی وی کی موثر نگرانی، چور یا رہزن کی مال مسروقہ سمیت جلد از جلد گرفتاری اور پھر انکی عبرتناک سرزنش۔

اس تناظر میں راقم جو ریٹائرڈ انفارمیشن آفیسر اور میڈیا سے وابستہ لکھاری ہے، ایک ہی مہینے میں ہے در پے اس مصیبت کا شکار ہوا۔ بہتر موبائل رکھنا اور بی آر ٹی میں سفر ایک مجبوری ہے جو عمر رسیدہ شہری کیلئے نسبتاً بہترین ٹرانسپورٹ ہے۔ یوں 4 اگست کو ملک سعد سٹیشن پر میرا موبائل چوری ہوا۔ پولیس سٹیشن میں رپورٹ لکھوانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ تب منکشف ہوا کہ آن لائن ایف آئی آر درج کرنے کی حوصلہ شکنی کیوں ہوئی۔ تھانوں کے چکر کاٹنے کے بعد پولیس چوکی کابلی میں روزنامچہ درج ہوا مگر محرر نے آسکی نقل دینے حتی تصویر لینے سے انکار کیا۔ ان کا اصرار تھا کہ فکر نہ کریں موبائل ڈھونڈ نکالیں گے۔ اس عدم تعاون پر اگلے ہی روز امید چھوڑ دی۔ جشن آزادی کی آمد تھی، لکھنے لکھانے کا شغل بھی جاری رکھنا تھا۔ اسلئے نیا بہتر موبائل خریدا۔ چور ڈھونڈنے کی جستجو جاری رکھی۔ مگر چور کی ڈھٹائی دیکھیں، جشن آزادی سے ایک دن پہلے اسی ملک سعد سٹیشن پر دوسرا موبائل بھی لے اڑے۔ اتنے پراعتماد ماہر بنارسی ٹھگ کہ چوری کے وقت میرا ہاتھ جیب پر ہی تھا مگر موبائل اچک لیا اور مجھے تکالیف کے کوہ گراں میں دھکیل گیا۔

بڑی مشکل اور سفارش سے تھانے میں روزنامچہ درج ہوا۔ پھر سفارش سے کانسٹیبل ساتھ گیا، بی آر ٹی کے سی سی ٹی وی میں چور ٹریس کیا۔ چور کیمرے میں واضح نظر آگیا، ریکارڈنگ پولیس نے رکھ لی۔ مگر افسوس، تمام یقین دہانیوں کے باوجود پولیس ٹس سے مس ہوئی نہ ہی چور پکڑا گیا۔ حالانکہ چہرہ واضح ہے اور یہ چور گروہ آئے روز بی آر ٹی پر نظر آرہا، جدید وسائل بھی موجود مگر پولیس ناکام۔ تھانوں میں پولیس کی حرکات و سکنات دیکھ کر انگریزی ضرب المثل یاد آتی ہے کہ "لوکنگ بزی ڈونگ نتھنگ” یعنی شہری پولیس مصروف تو نظر آتی ہے مگر کرتی کچھ بھی نہیں۔

وقت ہے کہ ہماری پیاری پولیس بالخصوص اعلی حکام خواب غفلت سے جاگیں۔ عوام ٹیکس دیتے ہیں، حفاظت مانگتے ہیں۔ عوام کو احساس تحفظ کی فراہمی حکومت کا عزم ہے مگر عمل پولیس کا کام ہے۔ خدارا سٹریٹ جرائم روکیں، اعتماد بحال کریں۔ خدا نہ کرے پشاور سٹریٹ کرائمز میں کراچی کے ہم پلہ بن جائے جو ہوتا نظر آرہا ہے۔ ایسے ماحول میں لوگ کیسے جئیں گے؟ کچھ کریں، امن اور احساس تحفظ دونوں ایک ہی چڑیا کا نام ہے اور یہ ہماری پیاری پولیس کی ذمہ داری ہے۔ بزبان شاعر ـــــ؏ـــــ
نکلے تو دل میں ہیں اندیشے ہزار
کہ گلی گلی ہے لٹنے کا سا سماں