امت رپورٹ :
علی امین گنڈاپور اب عمران خان کی گڈ بک میں نہیں رہے ہیں۔ لیکن چاہتے ہوئے بھی بانی چیئرمین، انہیں خیبرپختونخوا کی وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس بے بسی کی وجہ آگے چل کر بیان کرتے ہیں۔ پہلے کچھ پس منظر بتاتے چلیں۔
بشریٰ بی بی اور علیمہ خان سے گنڈا پور کے تعلقات میں تناؤ ڈھکی چھپی بات نہیں۔ تاہم عمران خان کے احکامات سے رو گردانی ایک ایسا عمل ہے کہ اگر عمران خان کے بس میں ہوتا تو وہ علی امین گنڈا پور کو مزید ایک دن بھی صوبائی وزارت اعلیٰ کی گدی پر برداشت نہ کرتے۔ اگرچہ کرپشن کیس میں چودہ برس کی سزائے قید کاٹنے والے عمران ایک طویل عرصے سے گنڈا پور کا بدلاہوا رویہ دیکھ رہے ہیں اور اس پر خوش نہیں۔ تاہم اس سارے معاملے سے آگاہ ذرائع بتاتے ہیں کہ حالیہ چند باتوں نے عمران خان کے ضبط کا بندھن ٹوٹنے کے قریب کر دیا ہے۔ لیکن وہ سیاسی مصلحت کی وجہ سے خاموش ہیں۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ اس کے متوقع نتائج سے خوفزدہ ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس وقت گنڈا پور، عمران خان کی گڈ بک سے نکل چکے ہیں۔ ان میں سے ایک معاملہ اگلے مالی سال کے بجٹ کی خیبرپختونخوا اسمبلی سے منظوری کا ہے۔
سب کو معلوم ہے، عمران خان نے احکامات دئیے تھے کہ بجٹ کی منظوری سے پہلے گنڈا پور ان کے ساتھ مشاورت کریں۔ لیکن گنڈا پور نے یہ حکم ہوا میں اڑا دیا۔ وہ عمران خان سے ملاقات کے لیے جیل نہیں پہنچے۔ حکام کی جانب سے ملاقات نہ کرانے کا جواز بنایا۔ لیکن یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ وہ اگر واقعی ملاقات کے لیے سنجیدہ ہوں تو اس میں مشکل نہیں۔ قصہ مختصر عمران خان کی مشاورت کے بغیر بجٹ خیبرپختونخوا اسمبلی سے منظور کرالیا گیا۔ اس سے صرف دو روز پہلے عمران خان نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر کہا تھا ’’علی امین کو میں نے ہدایت جاری کر دی ہے کہ میری مشاورت کے بغیر خیبر پختونخوا کا بجٹ پیش نہیں ہو گا‘‘۔ لیکن بجٹ پیش بھی کیا گیا اور منظور بھی ہوگیا۔ یہی وہ موقع تھا کہ جب علیمہ خان نے کہا ’’ان کے خیال میں آج عمران خان مائنس ہوگئے ہیں‘‘۔ اس کے بعد عمران خان نے پانچ اگست تک احتجاجی تحریک عروج پر پہنچانے کا حکم صادر فرمایا تو یہ علی امین گنڈا پور ہی تھے جنہوں نے اس ڈیڈ لائن کو سائیڈ کرتے ہوئے اپنا نوّے روز کا الٹی میٹم دے دیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ وہ بنیادی عوامل ہیں، جن کے سبب گنڈا پور اب عمران خان کی گڈ بک میں نہیں رہے ہیں۔ لیکن عدالتی پیشیوں پر میڈیا سے دنیا بھر کی باتیں کرنے والے عمران خان گنڈا پور کے معاملے پر دل کی بات کرنے سے اس لئے گریزاں ہیں کہ انہیں خوف ہے کہ اس کے نتیجے میں پہلے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار پی ٹی آئی کا بحران مزید سنگین ہو جائے گا۔ ذرائع کے بقول حتیٰ کہ ایک سے زائد بار پارٹی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران گنڈا پور کو ہٹانے کا معاملہ زیر غور بھی آیا۔ لیکن اس پر بعد کے سیناریو کا خوف غالب آگیا اور عمران خان نے اس خواہش پر عمل کا ارادہ فی الحال ملتوی کر رکھا ہے۔
ایسا نہیں کہ گنڈا پور پردے کے پیچھے ہونے والی ان سرگرمیوں سے لاعلم ہیں۔ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے ایک اہم انتظامی عہدے پر رہنے والے ایک ذریعے کے مطابق، اول تو گنڈا پور کو علم ہے کہ عمران خان انہیں ہٹانے کا رسک نہیں لیں گے اور اگر ایسی کوئی کوشش ہوتی بھی ہے تو اپنی وزارت اعلیٰ بچانے کے لیے گنڈا پور ہر ممکنہ حد تک جاسکتے ہیں۔ اس ذریعے کے بقول اس سلسلے میں گنڈا پور کی تیاری مکمل ہے۔ فی الحال وہ اتنی مضبوط پوزیشن میں ہیں کہ اگر عمران خان انہیں ہٹانے کا حکم دے بھی دیں تو یہ حکم بیک فائر کر جائے گا۔ ذریعے نے بتایا کہ گزشتہ عام انتخابات میں علی امین گنڈا پور نے پارٹی کے صوبائی صدر کے طور پر بیشتر ٹکٹ تقسیم کیے تھے۔
خاص طور پر ان میں سے پچیس تیس کے قریب موجودہ ارکان صوبائی اسمبلی ایسے ہیں جو خود بھی سمجھتے ہیں کہ اگر عمران خان جیل میں نہیں ہوتے تو انہیں الیکشن لڑنے کے لیے کبھی ٹکٹ نہیں ملتا۔ اس لئے وہ گنڈا پور کے مرہون منت ہیں اور اگر کوئی آزمائش کا موقع آیا تو وہ گنڈا پور کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ جبکہ ایسے میں پچاس سے زائد اپوزیشن ارکان میں سے جے یو آئی ارکان کو چھوڑ کر بیشتر گنڈا پور کا ساتھ دیں گے کہ اس وقت خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن برائے نام ہے۔ سب کو گنڈا پور نے خوش رکھا ہوا ہے۔
اسی طرح پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر خیبرپختونخوا اسمبلی میں پہنچنے والے پینتیس ارکان ایسے ہیں، جنہوں نے اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھی ہوئی ہے۔ یعنی اگر وہ کسی بھی پارٹی کا ساتھ دیتے ہیں تو ان پر نا اہلی کی تلوار نہیں لٹکے گی۔ یہ سب بھی اپنا وزن گنڈا پور کے پلڑے میں ڈال سکتے ہیں۔ یوں گنڈا پور اپنی حکومت آسانی سے بچاسکتے ہیں۔ ذریعے کے مطابق عمران خان اس ساری صورت حال سے واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکم عدولی کے باوجود وہ گنڈا پور کے آگے بے بس ہیں اور انہیں بخوبی علم ہے کہ اگر انہوں نے گنڈا پور کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تو الٹا لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
واضح رہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی اس وقت ایک سو پینتالیس ارکان پر مشتمل ہے۔ جس میں سے ترانوے ارکان کی حمایت وزیر اعلیٰ گنڈا پور کو حاصل ہے۔ جبکہ اپوزیشن کی پانچ جماعتوں کے باون ارکان ہیں۔ ایوان میں سادہ اکثریت کے لیے تہتر ارکان کی ضرورت ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos