چھوٹی بچی نے نا سمجھی میں ملزم کے گھر سے ڈیوائس چوری کی تو بھانڈا پھوٹا، فائل فوٹو
 چھوٹی بچی نے نا سمجھی میں ملزم کے گھر سے ڈیوائس چوری کی تو بھانڈا پھوٹا، فائل فوٹو

قیوم آباد سے گرفتار ملزم نے سینکڑوں بچوں سے زیادتی کی

کاشف ہاشمی:

کراچی کے علاقے قیوم آباد میں شربت فروش کے روپ میں درندہ صفت شخص کو ایک کم عمر بچی نے ناسمجھی میں بے نقاب کردیا۔ ملزم شبیر احمد کیخلاف اب تک پولیس نے 6 مقدمات درج کرلیے ہیں۔ جبکہ ابتدائی انٹروگیشن رپورٹ بھی مرتب کرلی گئی ہے۔
کراچی کے علاقے قیوم آباد کی ایک تنگ و تاریک گلی میں 10 اگست کی شب مشتعل لوگ ایک شخص کو دھکے دیتے ہوئے پولیس کے حوالے کر رہے تھے۔ یہ کوئی عام ملزم نہیں، بلکہ شربت فروش شبیر احمد تھا، جس نے معصوم بچوں کو اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھایا۔

اہل محلہ کے مطابق شبیر احمد ایک عام مزدور دکھائی دیتا تھا۔ کبھی پرچون کی دکان چلاتا، کبھی بچت بازار میں جیولری بیچتا اور پھر اس نے شربت اور پانی کی بوتلوں کا ٹھیلا لگا لیا۔ بچے اکثر اس کے ٹھیلے پر آتے جاتے تھے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ شخص ان ہی بچوں کو انعام کا لالچ دے کر اوپر اپنے کمرے میں لے جاکر ان کی زندگی برباد کرتا ہے۔ ایک عینی شاہد نے بتایا ’’ہمیں لگا یہ ایک مزدور آدمی ہے۔ لیکن جب اس کے موبائل اور گھر سے ایک بچی کی جانب سے چوری کی جانے والی یو ایس بی سے سینکڑوں ویڈیوز برآمد ہوئیں تو ہم سب کانپ اٹھے۔ یہ ہمارے ہی محلے کی بچیاں تھیں، جو اس کی درندگی کا نشانہ بنیں‘‘۔

پولیس کے مطابق شبیر احمد کے موبائل فون سے 350 سے زائد نازیبا ویڈیوز اور تصاویر برآمد ہوئیں۔ بعض ویڈیوز میں ایک ہی بچی کو بار بار زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ دو بہنوں سمیت 7 متاثرین سامنے آچکے ہیں۔ جس میں چھ لڑکیاں اور ایک لڑکا شامل ہے۔ جبکہ مزید متاثرین کی تلاش جاری ہے۔ پولیس نے ان بچیوں کے میڈیکل چیک اپ کرائے ہیں۔ شبیر کے خلاف 11 اگست کو چار مقدمات درج کرائے گئے۔ جبکہ 13 اگست کو مزید دو مقدمات درج کیے گئے۔ ڈیفنس انویسٹی گیشن پولیس نے درندہ صفت ملزم شبیر احمد تنولی ولد محمد شفیق کی ابتدائی انٹروگیشن رپورٹ مرتب کرلی ہے۔ انٹروگیشن رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملزم شبیر احمد تنولی کے خلاف 748/25.749/ 25.750/ 25.754/ 25.763/ 25 اور 762/25 مقدمات درج کیے گئے۔

انٹروگیشن رپورٹ کے مطابق ملزم کا نام شبیر احمد تنولی عرف علی ہے۔ تعلیم مڈل اور غیر شادی شدہ ہے۔ آبائی تعلق ایبٹ آباد ٹھنڈی کھئی جھنڈا گلی سے ہے۔ رپورٹ میں اس کے دوست نہیں بتائے گئے اور نہ کسی شریک جرم کا نام بتایا گیا۔ ملزم کے دو بھائی نصیر احمد اور دل ویز ہیں۔ جبکہ دو بہنیں نمرہ اور صبا ہیں۔ تفتیشی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ ملزم 2011ء میں ایبٹ آباد سے کراچی آیا اور کلفٹن شاہ رسول کالونی میں رہائش اختیار کی۔ ایک سال ملک نذیر ہوٹل واقع شاہ رسول کالونی میں نوکری کی۔

اس کے بعد تین سال چیز اپ سپر مارکیٹ کلفٹن میں ملازمت کرتا رہا۔ ایک سال مارکاٹو اسٹور میں صفائی کا کام کیا۔ 2016ء میں وہ قیوم آباد بی ایریا میں منتقل ہوگیا۔ اس نے مختلف بچت بازاروں میں آرٹیفیشل جیولری کے اسٹال لگائے۔ پھر سی ایریا قیوم آباد میں 2017ء سے 2019ء تک پرچون کی دکان کی۔ جس میں گارمنٹس اورکنفیکشنری کا سامان بھی رکھا تھا۔ دکان پر زیادہ تعداد میں چھوٹی عمر کے بچے خریداری کیلئے آتے تھے۔ اس کے بعد اس نے ٹھیلے پر بوتل اور جوس فروخت کرنا شروع کر دیا۔ رپورٹ میں طریقہ واردات کے بارے میں ملزم نے بتایا کہ وہ بچوں کو پیسوں کا لالچ دے کر اور بہلا پھسلا کران سے زیادتی کرتا تھا۔

اس نے 5 برس سے 12 سال تک کے بچوں اور بچیوں کو ہوس کا نشانہ بنایا اور ان کی ویڈیوز بھی بنائیں۔ 10 ستمبر 2025ء کو پکڑے جانے سے پہلے تک وہ تقریبا ایک سو بچوں کے ساتھ زیادتی کرچکا تھا۔ جن کی ویڈیوز اس کے موبائل فون اور یو ایس بی میں محفوظ ہیں۔ جبکہ ملزم نے ایک ڈائری میں 286 بچیوں کی لسٹ بنا رکھی تھی، جن سے وہ زیادتی کرچکا ہے۔ ان کی نازیبا ویڈیوز بھی شامل ہیں۔ ملزم کی زیادتی کا شکار بننے والی سینکڑوں بچیاں علاقہ چھوڑ کر جاچکی ہیں۔

علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ ملزم شبیر احمد تنولی کے ساتھ ساتھ اس کے مالک مکان کے خلاف بھی مقدمہ درج کرنا چاہیے۔ جب ملزم علاقے میں کرائے پر مکان لے کر رہنے لگا تو علاقہ مکینوں نے کافی اعتراض کیا کہ اس کے ساتھ فیملی نہیں۔ اس کو فارغ کیا جائے۔ لیکن مالک مکان نے کہا کہ یہ ملزم اس کا جاننے والا ہے اوراس کی فیملی جلد آجائے گی۔ علاقہ مکینوں نے دو کم عمر بچیوں کو اس کے گھر میں دیکھ کر ملزم سے پوچھا تو اس نے ان بچیوں کو اپنا رشتے دار قرار دیا تھا۔

علاقہ مکینوں نے کہا کہ ایک (ک) نامی کم عمر بچی اس کے گھر سے یو ایس بی چوری کرکے اگر دکاندار کو فروخت کرنے نہ گئی ہوتی تو اس کی حرکتیں آشکار نہ ہوتیں۔ جس بچی نے اس کے گھر سے یو ایس بی چوری کی، اس کے اور اس کی بہن کے ساتھ بھی ملزم متعدد بار زیادتی کرچکا ہے۔ ایک متاثرہ بچی کی والدہ نے روتے ہوئے بتایا ’’میری بیٹیاں تو صرف خریداری کیلئے بازار گئی تھیں۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ ان کا پیچھا ایک بھیڑیا کر رہا ہے۔ وہ شخص بار بار ان کو بہلا پھسلا کر اپنے گھر لے جاتا رہا اور ہم لاعلم رہے۔ اب جب حقیقت سامنے آئی ہے تو زمین تنگ لگتی ہے اور آسمان بھی‘‘۔ یہ کہانی صرف ایک مجرم کی نہیں، بلکہ پورے معاشرے کی غفلت کی بھی عکاس ہے۔

برسوں تک یہ شخص کھلے عام محلے میں بچوں کو اپنا شکار بناتا رہا، مگر نہ کسی نے دیکھا اور نہ کسی نے سوال کیا۔ پولیس حکام کے مطابق ملزم کے خلاف تفتیش جاری ہے کہ وہ یہ ویڈیوز کس مقصد کیلئے بناتا تھا۔ کیا وہ انہیں کسی گروہ کو بیچتا تھا یا بلیک میلنگ کیلئے استعمال کرتا رہا؟ اگر ایسا ہے تو یہ معاملہ ایک سنگین نیٹ ورک کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔

شبیر احمد کی گرفتاری بظاہر ایک کامیابی ضرور ہے، لیکن یہ واقعہ معاشرتی اور قانونی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ جب تک ایسے مجرموں کو عبرت ناک انجام تک نہیں پہنچایا جاتا اور بچوں کے تحفظ کیلیے مضبوط نظام نہیں بنایا جاتا، تب تک ہر گلی محلے میں کوئی نہ کوئی درندہ چھپا بیٹھا یہ حرکت کر رہا ہو ہوگا۔