اقبال اعوان :
کراچی میں ڈانسر (رقاص) گھوڑے مشہور ہونے لگے ہے۔ شادی میں بارات کے آگے گھوڑے کا ڈانس کرایا جاتا ہے۔ 6 سے 7 لاکھ روپے مالیت کے سفید گھوڑے ٹھیک طرح ایک سال میں ڈانس کا موومنٹ سیکھتے ہیں۔ زیادہ تر لسبیلہ پل کے قریب اور سولجر بازار میں رکھے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ کراچی میں شادی کے ایونٹ میں دولہا کے گھر سے شادی ہالز جانے یا دلہن کے گھر واپس آنے کے دوران وقت کے ساتھ ساتھ مختلف ایونٹ کیے جاتے ہیں اور ان میں تبدیلی آتی جارہی ہے۔ چند سال قبل تک دولہا گھوڑے پر دلہن کے گھر یا شادی ہال میں جاتا تھا۔ چند پٹاخے چلائے جاتے اور دوست قریبی رشتے دار روایتی رقص کرتے ساتھ چلتے تھے۔ اس کے بعد کار میں آنے جانے لگے۔ تاہم پھولوں سے سجی کار مہنگی پڑنے لگی۔ سوشل میڈیا کا دور آیا تو نئے نئے مختلف ایونٹ جنم لینے لگے۔
گھر میں بارات میں فائرنگ، آتش بازی کا سلسلہ شروع ہوا اور دولہا کو بگھی میں لے جایا جانے لگا۔ یہ شاہانہ انداز اب بھی چل رہا ہے۔ تاہم مہنگا ہونے پر کم ہے۔ اب بعض آبادیوں میں بارات کے آگے دولہا کی بگھی کے ساتھ سفید گھوڑے کا ڈانس کراتے ہوئے جاتے ہیں۔ سفید گھوڑے کو پائوں میں گھونگھرو پہناتے ہیں۔ آنکھوں پر مختلف ماسک لگاتے ہیں اور وہ کبھی پچھلی ٹانگوں پر ناچتا ہے، کبھی اگلی ٹانگوں پر ادھر ادھر کر کے جھومتا ہے اور لوگ داد دیتے ہیں۔ بعض باراتی نوٹ نچھاور کرتے ہیں۔
لسبیلہ پل کے قریب بگھی والوں کا قدیم ڈیرہ ہے ڈانسر گھوڑے کو سکھانے اور بارات میں ہینڈل کرنے والے نوجوان محمد شبیر کا کہنا تھا کہ اس نے بچپن سے بگھی اور ڈانسر گھوڑے رکھنے کا کام شروع کیا تھا۔ اس کے پاس تین گھوڑے ہیں۔ ڈانسر گھوڑے سفید رنگ اور اچھی نسل کے ہوتے ہیں۔ ڈانس کرنے والے گھوڑے اگلی ٹانگوں کا ڈانس میں استعمال کرتے ہیں اس لیے تین چار سال میں لنگڑا کر چلنے لگتے ہیں۔ اور یوں سات لاکھ کے گھوڑے کی قیمت بمشکل چار پانچ لاکھ روپے رہ جاتی ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ سولجر بازار میں اس کے کزن اکبر نے بھی دو گھوڑے رکھے ہیں۔ یہ تین ماہ کے بعد قابو آتے ہیں اور روزانہ ان کو دو تین گھنٹے تربیت دیتے ہیں۔ خوش رکھنے کے لیے برش کی جسم پر رگڑائی کرتے ہیں اور کوشش کر کے بینڈ باجے، گاڑیوں کے شور، بارات مع موجود افراد کے رش سے ڈرنا ختم کراتے ہیں۔ انہوں نے اچھی قیمتی لکڑی کی بگھیاں رکھی ہی۔ دولہا کو گھر سے فاصلے تک اور شادی ہال کے قریب سے ہال تک لے جانے کے 30 ہزار روپے کرایہ، ڈانسر گھوڑے کے 15 ہزار روپے لیتے ہیں، اب فائرنگ کرو یا آتش بازی کرو، گھوڑا خوف زدہ نہیں ہو گا۔
شبیر کا کہنا ہے کہ وہ گھوڑے کی گردن پر باندھی گئی فینسی رسی کو ہلا جلا کر ڈانس کے موومنٹ کراتے ہیں۔ آج کل لوگ اس کے ساتھ کم سفید گھونگھرو پہنے اور سجے ہوئے گھوڑے کے ساتھ سیلفی لیتے ہیں۔ سال کے چند ماہ محرم، صفر، رمضان میں کام نہیں ہوتا۔ لہٰذا جانور کا تو خیال کرنا پڑتا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ بگھی، گھوڑے کو چوری سے بچانے کے لیے راتوں کو قریب چارپائی کر کے سوتے ہیں۔ جانور کو سکھانے کے لیے خود بار بار موومنٹ کر کے دکھاتے ہیں۔ شاہ فیصل کالونی ایک نمبر لسبیلہ پل کے قریب، سولجر بازار میں بگھی والے زیادہ نظر آتے ہیں۔ آج کل چائنا کی رنگ برنگی جھالر لائٹس زیادہ لگانے پر زیادہ سجاوٹ ہوتی ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos