عمران خان :
ایف آئی اے نے یورپی ممالک کو خراب چاول ایکسپورٹ کرکے قیمتی قومی زر مبادلہ کو خطرے میں ڈالنے والے تاجروں کیخلاف اسکینڈل میں حتمی چالان پر تیزی سے کام شروع کردیا ہے۔ جلد ہی اس مقدمہ میں مزید تاجروں کے خلاف ثبوت اور شواہد شامل کرکے حتمی چالان رپورٹ متعلقہ حکام کی منظوری کے بعد عدالت میں پیش کردی جائے گی۔
اب تک کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ یورپ کو چاول برآمد کرنے والے متعدد ایکسپورٹرز کسٹمز کلیئرنس کیلئے جعلی لیبارٹری رپورٹس بھی جمع کرواتے رہے۔ تحقیقات میں سرٹیفکیٹ دینے والے سرکاری سہولت کار بھی شامل کر لئے گئے ہیں۔ مزید یہ کہ خراب چاول برآمد کرنے والے چاولوں کے کارخانے قومی اسمبلی میں بیٹھی اہم سیاسی شخصیات کے ہیں، جنہوں نے آگے فرنٹ مین رکھے ہوئے تھے۔
ایف آئی اے نے ان کے بیانات قلمبند کرنے کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔ اسی دوران آل پاکستان رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے بھی کئی عہدیدار اس اسکینڈل کی زد میں ہیں۔ جنہوں نے خود کو بچانے کیلئے اپنی سہولت کار سیاسی شخصیات کے ذریعے ملک کے اعلیٰ دفاتر سے سفارشیں کروانے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ اس ضمن میں ’’امت‘‘ کو اہم ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ابتدا میں جس اعلیٰ حکومتی شخصیت کی ہدایات پر اس اسکینڈل پر تحقیقات شروع کی گئیں اور مقدمہ درج کرکے پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے اعلیٰ افسران کو گرفتار کیا گیا۔ اب بعض چاولوں کے تاجروں پر ہاتھ ہلکا رکھنے کی سفارش بھی اسی دفتر سے آنے لگی ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق مذکورہ اسکینڈل پر گزشتہ برس ماہ اکتوبر میں ایف آئی اے نے اس وقت کام شروع کیا جب مختلف یورپی ممالک کے حکام کی جانب سے یورپی یونین میں موجود ایک پاکستانی بیوروکریٹ سے رابطہ کیا گیا کہ پاکستان سے جی ایس پی پلس سہولت کا فائدہ اٹھا کر چاولوں کی سینکڑوں ایسی کھیپیں بھجوادی گئی ہیں، جو مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں۔ بلکہ ان میں پھپوندی اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کی مقدار زیادہ پائی گئی ہے اور ان کا معیار بھی ناقص ہے۔ یہ رپورٹیں وزیراعظم ہائوس تک پہنچیں۔ جس کے بعد وزارت داخلہ کو ایف آئی اے کے ذریعے اس اسکینڈل پر تحقیقات کرنے اور ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔
بعدازاں مختلف ممالک میں ناقص اور غیر معیاری چاولوں کی ایکسپورٹ کے حوالے سے ایف آئی اے نے تحقیقات کا آغاز کردیا۔ غیرمعیاری چاولوں کی ایکسپورٹ کی کھیپوں کے بر آمدکنندگان کا ریکارڈ کسٹمز اور اور دیگرمتعلقہ محکموں سے حاصل کیا گیا۔ جس میں معلوم ہوا کہ اس عرصہ میں یہ کھیپیں ملک بھر کے 72 رائس ملز اور ان کے کلیئرنگ ایجنٹس کی جانب سے بھیجی گئیں۔ جس پر تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر ایف آئی اے حکام نے اسلام آباد، لاہور، گوجرانولہ، ملتان، فیصل آباد، کراچی، حیدرآباد، کوئٹہ، پشاور اور کوہاٹ کی ڈائریکٹر ایف آئی اے زونز کو مراسلہ ارسال کیا گیا تھا۔ جس کے مطابق مختلف ممالک میں 72 رائس ملز کی جانب سے ایکسپورٹ کی گئی چاولوں کی کنسائمنٹس مسترد یا ضبط کی گئیں۔ مراسلے میں ہدایات جاری کی گئیں کہ چاول ایکسپورٹ کرنے والے ایکسپورٹرز اور کمپنیوں سے ریکارڈ حاصل کرکے انکوائری آفیسر کو بھجوایا جائے۔ ریکارڈ میں مسترد شدہ کھیپ کی ایل سی، پری لوڈنگ انسپیکشن سرٹیفکیٹ، کھیپ کے مسترد کیے جانے کا ریکارڈ، مسترد کی گئی کھیپوں کے ٹیسٹ سرٹفیکٹ حاصل کیے جائیں۔
مراسلے میں مسترد شدہ کنسائنمنٹس کو تلف کرنے کی تفصیل، کیا وہ واپس پاکستان لائی گئیں یا کسی دوسری منزل پر پہنچائی گئیں؟ مذکورہ کنسائمنٹس تیسرے ملک کو کیوں اور کیسے بھجوائی گئیں اور وہ کن کن کو بھجوائیں گئیں، ان سب سمیت دیگر تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔ جبکہ وزارت فوڈ سیکورٹی، پلانٹ پروڈکشن اور کسی متعلقہ رائس مل کے خلاف انکوائری یا کیس رجسٹرڈ ہو تو اس کی تفصیلات بھی مانگی گئیں۔
اس سلسلے میں حتمی کارروائی میں گزشتہ برس کے آخر میں ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل کراچی میں باقاعدہ مقدمہ درج کیا گیا۔ جس میں پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کراچی کے 17 افسران کو بھی نامزد کیا گیا۔ جس میں ڈی جی طارق مروت بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 16 افسران ایسے ہیں جو سالانہ کنٹریکٹ پر بھرتی کیے گئے ہیں۔ ان میں سے 10 ملزمان کو ایف آئی اے نے گرفتار کرلیا ہے اور ان سے مزید تفتیش جاری ہے۔ جبکہ ڈی جی اپنے بعض ساتھیوں سمیت منظر عام سے غائب ہوگئے تھے، جنہوں نے بعد ازاں ضمانتیں حاصل کرلی تھیں۔ ایف آئی اے نے اسی اسکینڈل میں ڈی پی پی کے آفس پر چھاپہ مار کر متعلقہ ریکارڈ بھی تحویل میں لیا تھا۔
دستیاب معلومات کے مطابق جب تحقیقات میں مذکورہ بیورو کریٹ کو خطوط لکھ کر مزید تفصیلات طلب کی گئیں تو انہوں نے اب تک ان کا جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کی تاکہ اس کو وقت کے ساتھ دبایا جاسکے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ پاکستان سے جانے والی جتنی کھیپوں کو ناقص قرار دیا گیا ان کا حجم پاکستان سے یورپ جانے والے مجموعی چالوں کا ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت جو پاکستان سے آدھے سے بھی کم چاول یورپ بر آمد کرتا ہے، ان کے چاولوں میں ناقص کھیپوں کی مقدار 6 فیصد سے بھی زائد ہے۔
یہی نہیں بلکہ امریکہ سے یورپ کو ایکسپورٹ ہونے والے چالوں میں سے ناقص نکلنے والی مقدار بھی پاکستانی چالوں سے کہیں زیادہ ہے۔ تاہم اب تک ان ممالک میں اپنے چالوں کے تاجروں اور ایکسپورٹرز کمپنیوں کے خلاف ایسی کارروائیاں اور تحقیقات نہیں کی گئیں۔ جبکہ پاکستانی حکام کی جانب سے خوامخواہ بات کا بتنگڑ بنا کر نہ صرف پاکستان کو بدنام کیا گیا، بلکہ پاکستانی چالوں کے ایکسپورٹرز کے گرد بھی گھیرا تنگ کرکے ان کو نقصان پہنچایا گیا۔
بعد ازاں چاولوں کے برآمدکنندگان اور پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے خلاف شروع ہونے والے اسکینڈل میں اس وقت اہم موڑ آیا۔ اس ضمن میں مزید سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے کہ یورپ میں موجود ایک پاکستانی سرکاری افسر نے صرف اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے جلد بازی کی اور پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کردیا۔ جس کے نتیجے میں یورپ میں چاولوں کی بر آمد میں پاکستان سے کہیں پیچھے بھارت کو فائدہ پہنچنے کے اندیشوں نے جنم لینا شروع کردیا۔
پاکستان میں بھی حکام نے صورتحال کے دور رس نتائج کو پرکھے بغیر تحقیقات کا حکم دے کر معمولی بات کو اسکینڈل بنا ڈالا۔ اس ضمن میں ’’امت‘‘ کو چاولوں کی ایکسپورٹ مارکیٹ اور یورپ میں موجود نمائندوں سے اہم معلومات ملی ہیں۔ جن کے مطابق اس وقت پاکستان سے یورپ کو بھیجے جانے والے چاولوں کا حجم یورپ کو مجموعی طور پر پوری دنیا سے آنے والی کھیپ کا 35 فیصد سے زائد ہے۔ جبکہ بھارت جو دنیا میں چاول برآمد کرنے والا ایک بڑا ملک ہے، اس کی یورپ کو چاولوں کی بر آمدات 15 فیصد سے بھی کم ہے۔ حیرت انگیز طور پر گزشتہ تین برس میں بھارت یورپ کو چاول بر آمد کرنے کی دوڑ سے ہی باہر رہا ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos