ارشاد کھوکھر:
پنجاب اور کے پی کے میں بڑی تباہی مچانے کے بعد حکومت سندھ کا امتحان لینے سیلاب سندھ میں داخل ہوچکا ہے۔ سیلاب کی صورت حال سے نمٹنے کے ساتھ حکومت سندھ کی جانب سے کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن تیز کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ بھی کسی امتحان سے کم نہیں جبکہ این ڈی ایم اے اور دیگر اداروں کی جانب سے سندھ میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کی گئی پیشن گوئیاں غلط ثابت ہوئی ہیں۔ تاہم گدو اور سکھر بیراج کے مقام پر اب بھی اونچے درجے کے سیلاب کی صورت حال ہے، جہاں سے مذکورہ دونوں بیراجز سے بڑا سیلابی سیلا گزر چکا ہے جو اب کوٹری بیراج کی طرف بڑھ رہا ہے۔
سندھ کے مختلف بچائو بند کے تقریباً 44 مقامات کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔ دریائے سندھ پر بنائے گئے مواصلاتی پل دریا کے پانی کے بہائو میں رخنہ ڈال رہی ہیں۔ جس کے باعث بڑے سیلابی ریلے کو ڈیلٹا میں سمندر تک پہنچنے میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ 10 ربیع الثانی کے بعد ڈیلٹا تک پانی پہنچنے کی صورت میں ضلع ٹھٹھہ اور سجاول کے لئے خطرہ بن سکتا ہے کیونکہ چاندنی راتوں میں سمندر کی لہریں بڑھ جاتی ہیں جس کے باعث دریا کا پانی تیزی سے سمندر میں داخل نہیں ہوتا۔
رپورٹ کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) سندھ کے محکمہ آب پاشی سمیت مختلف ادارے یہ پیشن گوئی کر رہے تھے کہ پنجاب کے دریائوں میں سپر فلڈ کی جو صورت حال تھی اس کے پیش نظر سندھ میں بھی گدو بیراج کے مقام پر 7 لاکھ کیوسک سے زیادہ پانی آمد کی توقع ہے جس کے باعث سندھ میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کی صورت حال پیدا ہوگی۔ یہ تمام تر دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں۔
ایک ہفتہ قبل پنجند کے مقام سے 6 لاکھ 84 ہزار کیوسک سے زائد کا سیلابی ریلا دریائے سندھ کی طرف بڑھا تھا اور اس دوران دریائے سندھ کے اپنے سسٹم میں بھی تقریباًٰ 2 لاکھ کیوسک پانی موجود تھا، جس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ دعویٰ کیا جارہا تھا۔ لیکن پنجاب کے اضلاع رحیم یار خان ، راجن پور وغیرہ کے کچے کے علاقے میں پانی پھیل جانے کے باعث سندھ میں سب سے بڑا سیلابی ریلا 14 اور 15 ستمبر کے درمیان گزرا جو 6 لاکھ 35 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔
گزشتہ روز اپ اسٹریم گدو بیراج میں پانی کی مقدار 5 لاکھ 51 ہزار 851 کیوسک ریکارڈ کی گئی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں سے بڑا سیلابی ریلا گزر چکا ہے۔ اس طرح سکھر بیراج کے مقام سے بھی 16 ستمبر کو بڑا سیلابی ریلا گزر چکا جہاں پر پانی کی مقدار 5 لاکھ 71 ہزار کیوسک ریکارڈ کی گئی تھی۔ لیکن گزشتہ روز سے سکھر بیراج کے مقام پر بھی پانی کی مقدار کم ہونا شروع ہوگئی ہے۔
گزشتہ رات مذکورہ بیراج پر اپ اسٹریم پانی کی مقدار 5 لاکھ 69 ہزار 890 کیوسک ریکارڈ کی گئی۔ اس طرح اب بڑا سیلابی ریلا ضلع خیرپور، لاڑکانہ، نوشہروفیروز، دادو، بینظیرآباد، جامشورو ، مٹیاری اور حیدرآباد ضلع سے گزر کر کوٹری بیراج پہنچے گا۔ گزشتہ روز کوٹری بیراج کے مقام پر نچلے درجے کا سیلاب تھا۔ جہاں پر پانی کی مقدار 3 لاکھ 4 ہزار 388 کیوسک ریکارڈ کی گئی۔
گھوٹکی اور کشمور اضلاع سے لے کر ٹھٹھہ اور سجاول اضلاع تک دریائے سندھ کے مختلف بند کے 102 مقامات کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ جن میں سے سیلاب کی صورتحال میں اکثر 44 مقامات انتہائی حساس رہتے ہیں جن پر پانی کا دبائو شدید ہوتا ہے۔ ان مقامات کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے۔ اس صورت حال میں آئندہ تین چار دن کے اندر ضلع کشمور، گھوٹکی اور سکھر کے بندوں پر پانی کا دبائو زیادہ کم ہوجائے گا۔ اس طرح سکھر بیراج سے نیچے والے اضلاع کے بندوں پر دبائو بڑھتا جائے گا۔
حکومت سندھ کا دعویٰ ہے کہ تمام بندوں کے چوبیس گھنٹے نگرانی کی جارہی ہے جہاں پر پتھر اور دیگر مشینری پہنچائی گئی ہے۔ تاہم محکمہ آب پاشی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بند مٹی سے بنے ہوئے ہوتے ہیں جن کا سیلاب کی صورت حال میں خطرہ موجود ہوتا ہے لیکن موجودہ صورت حال میں کسی بھی مقام پر بند ٹوٹنے وغیرہ کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔ ماسوائے اس کے کہ محکمہ آب پاشی وغیرہ کے عملے یا افسران کی اپنی غفلت سامنے نہ آئے۔ اس صورت حال میں کچے کا تقریباً 80 فیصد علاقہ زیر آب آچکا ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ کچے کے علاقے سے ایک لاکھ 80 ہزار لوگوں کو انہوں نے منتقل کیا ہے۔ تاہم کچے کے بیشتر علاقوں سے لوگ نقل مکانی کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جس کے مختلف اسباب ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ انتہائی اونچے درجے کا سیلاب نہیں ۔ نقل مکانی کرکے وہ دربدر ہوجائیں گے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ کئی لوگوں کو یہ خدشہ ہوتا ہے کہ نقل مکانی کی صورت میں ان کی زمینوں پر قبضہ ہوسکتا ہے یا ان کے گھروں میں چوری بھی ہوسکتی ہے۔ اس صورت حال میں اکثر بچے ، بوڑھوں اور خواتین کو پکے کے علاقے میں منتقل کرکے بیشتر مرد حضرات گھروں میں موجود رہتے ہیں۔
16 ستمبر کو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت اجلاس میں سیلاب کی صورت حال کے ساتھ امن و امان کی صورت حال کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ کچے کا علاقہ زیر آب آنے کے باعث خصوصاً گھوٹکی، کشمور، سکھر، خیرپور و دیگر اضلاع کے کچے کے علاقے سے ڈاکو مختلف شہروں میں منتقل ہوچکے ہیں۔ جن کے خلاف انٹیلی جنس بیس آپریشن کرنے کا بھرپور موقع ہے۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ان ڈاکوئوں کے خلاف اس صورت حال میں آپریشن کتنا کامیاب ہوتا ہے ، اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اکثر ڈاکو اپنے رشتہ داروں اور قبائلی سرداروں کے ہاں جاکر پناہ لیتے ہیں۔ دیگر افراد کے ساتھ کچے کے ڈاکو بھی اپنی آماجگاہیں مکمل خالی نہیں چھوڑتے۔ ان کے ساتھ وہاں بھی نگرانی کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ سکھر ملتان موٹر وے پر ان کی لوٹ مار کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔ اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ پنجاب کا علاقہ ختم ہوتے ہی موٹر وے پر کشمور انٹر چینج کے مقام پر تمام گاڑیوں کو روک دیا جاتا ہے جہاں سے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی میں کانوائے کی صورت میں ضلع گھوٹکی اور سکھر سے گزارا جاتا ہے۔
آب پاشی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلے کے مقابلے میں سکھر بیراج سے سمندر تک پانی کو پہنچنے میں تاخیر ہوتی ہے جس کا سبب لاڑکانہ اور خیرپور کے درمیان دریائے سندھ کی چوڑائی کو کم کرکے جو پل بنایا گیا ہے اس سے اور کوٹری بیراج سے نیچے دریائے سندھ کے تعمیر کئے گئے ملا کاتیار پل دریائے سندھ کے پانی میں رخنہ ثابت ہورہی ہیں۔ تاہم اس سے قبل دادو مورو پل کی بھی یہی صورت حال تھی لیکن پل بڑھنے کے باعث دریا کے قدرتی گزرگاہ زیادہ متاثر ہورہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں سکھر بیراج سے جو بڑا سیلابی ریلا گزرا ہے ، توقع کی جارہی ہے کہ وہ پانی ضلع ٹھٹھہ اور ضلع سجاول میں 10 ربیع الثانی کے بعد بھی پہنچ سکتا ہے۔ 10 تاریخ کے بعد ہر ماہ 17 تاریخ تک چاندنی راتیں ہوتی ہیں۔ قدرتی طور پر چاندنی راتوں میں سمندر کی لہریں بڑھ جاتی ہیں۔ جس کے باعث سمندر میں دریا کے پانی کا اخراج شدید متاثر ہوتا ہے۔ اس صورت حال میں ضلع ٹھٹھہ اور سجاول کے بچائو بندوں پر پانی کا دبائو خطرے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔جس پر ابھی سے توجہ دینا چاہیے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos