تحریر: غلام حسین غازی
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے حالیہ بیانات میں واضح کیا ہے کہ پارٹی میں اختلافات اور گروپ بندی کا سبب انکی ذات نہیں بلکہ یہ ایک پرانی روش اور معروضی حالات کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کارکنان اور رہنماؤں کو پیغام دیا کہ باہمی رنجشوں میں الجھنے کے بجائے اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دیں کیونکہ یہی پارٹی اور عوام دونوں کے مفاد میں ہے۔ یہ بات محض سیاسی وضاحت نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت کی جانب اشارہ ہے۔ پارٹی میں اختلافات کے بیج برسوں پہلے بوئے گئے تھے اور آج محض ان کے اثرات سامنے آ رہے ہیں۔
علی امین گنڈاپور کی معصومیت کا پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اختلافات کی موجودگی تسلیم کی مگر اس کا ذمہ دار خود کو نہ ٹھہرایا۔ یہ کہنا بجا ہے کہ سیاسی رابطوں میں کمی، رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں اور قید و بند کی صعوبتوں، قائدِ جماعت پر دباؤ اور مرکزی فیصلوں میں غیر شفافیت جیسے عوامل نے کشیدگی کو بڑھایا۔ یہ سب موجودہ کھٹن حالات کا نتیجہ ہے نہ کہ کسی فردِ واحد کی سازش۔کارکنوں کو اتحاد کی تلقین کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بحران کو ہوا دینے کے بجائے سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انہوں نے صوبہ کی باگ ڈور نہایت نازک وقت میں سنبھالی۔ مرکز اور دیگر صوبوں میں مخالف جماعتیں برسرِ اقتدار ہیں۔ پارٹی کی مرکزی قیادت مشکلات کا شکار ہے اور سیاسی ماحول بے یقینی سے لبریز ہے۔ ایسے حالات میں وزیراعلی نے محض کرسی اقتدار پر بیٹھ کر گلچھرے اڑانے کی بجائے عوامی خدمت اور عملی اصلاحات کو اپنی ترجیح بنایا۔ ان کے دور میں تقریباً تمام محکموں میں ترقیاتی عمل شروع ہوا۔ ہیلتھ کارڈ سکیم کو مزید بہتر بنایا گیا تاکہ غریب شہری اپنی مرضی کے ڈاکٹر اور ہسپتال سے علاج کروا سکے۔ یہ سہولت دیگر صوبوں کی نسبت نمایاں فرق رکھتی ہے جہاں یہ عوامی سہولت بالکل ختم کر دی گئی ہے۔ صوبہ کے جائز حقوق اور مالی وسائل کے حصول کیلئے بھی مرکز سے بامقصد رابطے کئے گئے۔
اسی طرح وزیراعلی کی زیرنگرانی ترقیاتی منصوبوں کی رفتار تیز کی گئی۔ پسماندہ اضلاع میں سڑکوں، سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر و بحالی پر خصوصی توجہ دی گئی۔ حکومتی معاملات میں شفافیت لانے کیلئے ای گورننس کا آغاز کیا گیا تاکہ عوام کو براہِ راست سہولتیں میسر آ سکیں۔ زراعت کے شعبے پر توجہ دی گئی۔ کاشتکاروں کیلئے بیج اور کھاد کی فراہمی بہتر بنائی گئی، کسانوں کو سبسڈی دی گئی اور جدید زرعی ٹیکنالوجی کی ترویج کی گئی۔ سیاحت کے میدان میں صوبہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے جس سے مقامی آبادی کیلئے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے۔ ماحولیاتی بہتری کیلئے اقدامات بھی دیگر صوبوں سے بدرجہا بہتر ہیں۔ امن و امان کے حوالے سے پولیس کو اضافی وسائل اور جدید آلات فراہم کئے گئے تاکہ عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ حالیہ تباہ کن سیلابوں نے ملکی معیشت کا بٹہ بٹھا دیا مگر خیبرپختونخوا میں وزیراعلی کی بروقت مساعی سے اس کے اثرات کافی حد تک کم کئے گئے۔
یہ تمام اقدامات ثابت کرتے ہیں کہ علی امین گنڈاپور ٹک ٹک اور شوبازیوں پر یقین نہیں رکھتے۔ انہوں نے صوبے کی حکومت کو محض ذاتی تشہیر یا وقتی سیاست کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ عوامی خدمت کو اولین ترجیح دی۔ وہ ایک طرف سیاسی دباؤ اور جماعتی اختلافات کا سامنا کر رہے ہیں تو دوسری جانب ترقیاتی اور اصلاحاتی اقدامات کو بھی رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جو ان کے طرزِ حکمرانی کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔
جہاں تک پارٹی اختلافات کا تعلق ہے، ان کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ سب سے پہلا عنصر عہدوں اور وسائل کی تقسیم ہے۔ کابینہ کے قلمدان، سرکاری فنڈز اور ٹکٹوں کی تقسیم ہمیشہ سے جماعت کے اندر رسہ کشی کا باعث رہے ہیں۔ دوسرا سبب سیاسی اثرورسوخ کی جنگ ہے کہ کون سا رہنما صوبے میں زیادہ طاقتور ہے۔ تیسری وجہ مرکزی اور صوبائی قیادت کے درمیان توازن ہے جہاں بعض رہنماؤں کو شکایت رہی ہے کہ فیصلے ایک محدود دائرے میں ہوتے ہیں اور وہ خود کو نظرانداز محسوس کرتے ہیں۔
اسی تناظر میں حال ہی میں پارٹی صدارت کی تبدیلی ہوئی جب عمران خان نے علی امین گنڈاپور کو صوبائی صدارت سے ہٹا کر جنید اکبر کا تقرر کیا۔ وزیراعلی نے یہ فیصلہ خوش دلی سے قبول کیا البتہ اس تبدیلی کے بعد بعض حلقوں میں ناراضگی اور حسد کے امکانات ضرور بڑھے۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی شکوک و شبہات پیدا ہوئے اور کچھ رہنماؤں نے عدم شفافیت پر آواز بلند کی۔ اطلاعات کے مطابق بعض ناراض رہنماؤں نے "فارورڈ بلاک” بنانے کی دھمکی دی تاکہ حکومتی فیصلوں پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ ایسے حالات میں اختلافات کا بڑھنا غیر فطری نہیں۔ ان سب کی ذمہ داری وزیراعلی پر تھوپ دینا ناانصافی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ گرفتاریوں، مقدمات اور مسلسل سیاسی دباؤ نے پارٹی میں رابطہ کاری کو مشکل بنا دیا ہے۔ میڈیا بھی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے جس سے جماعت کا اندرونی خلفشار اصل سے زیادہ بڑا دکھائی دیتا ہے۔ وزیراعلیٰ کا مؤقف یہی ہے کہ وہ خود کسی گروپ بندی میں شامل نہیں اور جو بھی فیصلے ہوئے وہ پارٹی قیادت کے کہنے پر تسلیم کئے گئے۔ یہ موقف اس بات کی علامت ہے کہ وہ ذاتی خواہشات پر نہیں بلکہ اجتماعی فیصلوں پر یقین رکھتے ہیں۔
لہٰذا پی ٹی آئی کے اختلافات کی اصل جڑیں اقتدار کی رسہ کشی، وسائل کی تقسیم اور فیصلہ سازی کے محدود دائرے میں تلاش کی جا سکتی ہیں نہ کہ وزیراعلیٰ کے اقدامات میں۔ آج اگر پارٹی رہنما اپنے گریبان میں جھانکیں تو انہیں جواب بآسانی مل جائے گا۔
ایسے حالات میں جبکہ مرکز اور دیگر صوبوں میں مخالف جماعتیں برسراقتدار ہیں اور وہ خیبرپختونخوا کی حکومت کو بھی ختم کرنے کے درپے ہیں، پارٹی کے اندر جھگڑے اور گروپ بندی خودکشی کے مترادف ہے۔ تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیئے۔ ماضی کے بغداد میں عوام اور دانشور طبقے چھوٹے بڑے فروعی جھگڑوں اور مناظروں میں الجھے رہے اور اچانک چنگیز خان نے یلغار کرکے پورے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ آج اگر پی ٹی آئی نے اپنی صفوں میں اتحاد قائم نہ کیا تو نتیجہ مختلف نہ ہوگا۔
چنانچہ پی ٹی آئی کے رہنما اور کارکن اگر واقعی تبدیلی کے علمبردار ہیں تو آپس میں لڑ جھگڑ کر توانائی ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس موقع پر شاعر کے یہ تین بند واضح پیغام کی حیثیت رکھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اتحاد ہی اصل طاقت ہے:
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے، ادھر نکلے، ادھر ڈوبے، ادھر نکلے
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
جہاں میں اہلِ ایماں کی یہ پہچان باقی ہے
تری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں
(حفیظ جالندھری)
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos