فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایل پی جی مہنگی فروخت ، انتظامیہ کی ملی بھگت یا بے بسی

اقبال اعوان :
پیٹرول اور ڈیزل سے سستی ایل پی جی کو ڈیمانڈ بڑھنے پر منافع خوروں نے مہنگا کرنا شروع کر دیا ہے۔ سرد موسم کے آغاز میں ملک بھر میں ایل پی جی کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے لیے یہ سال بھر سونے کی چڑیا ثابت ہورہی ہے۔ اوگرا کے علاوہ سپلائی کمپنیاں بھی ریٹ بڑھاتی ہیں۔ دکاندار 240 روپے کلو سے 260 روپے کلو تک فروخت کررہے ہیں کہ ان کو مہنگی سپلائی ہورہی ہے۔ جبکہ سرکاری ریٹ 215 روپے کلو تک ہے۔

کراچی میں عام سیزن میں 1500 میٹرک ٹن اور سردیوں میں 2500 میٹرک ٹن کھپت ہوتی ہے۔ ایل پی جی ڈیلرز ایسوسی ایشن کے رہنما کا کہنا ہے کہ اوگرا اور دیگر ادارے ایل پی جی کے معاملے پر زیادہ توجہ نہیں دیتے کہ دکانوں پر فروخت ہوتی ہے اس لیے ریٹ بھی ڈیلرز مرضی سے طے کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ کراچی شہر میں پابندی کے باوجود ایل پی جی فلنگ کی دکانیں رہائشی علاقوں میں چل رہی ہیں۔ شہر میں گیس کا بحران پہلے ہی زیادہ تھا۔ سرد موسم کے شیڈول کے بعد ناشتے اور کھانے کے اوقات میں دو چار گھنٹے ملے گی۔

بوسیدہ اور پرانی لائنوں کی وجہ سے گیس کئی علاقوں میں آتی نہیں ۔ اس لیے شہریوں کی بڑی تعداد ایل پی جی اور لکڑیاں استعمال کرتی ہے۔ جبکہ رہائشی علاقوں میں آئے روز سلنڈر پھٹنے کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور ایل پی جی کی قیمت بڑھتی جارہی ہے جبکہ لکڑیاں ہزار بارہ سو روپے من سے مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔

سی این جی استعمال کرنے والے رکشے، ٹیکسی، سوزوکی کیری، ہائی روف کے علاوہ کاروں اور کمرشل گاڑیوں میں سی این جی سلنڈر کے اندر ایل پی جی بھری جاتی ہے۔ اس کے لیے خطرناک حد تک طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ دکانوں میں کمپریسر رکھے گئے ہیں اور سی این جی کٹس کے ذریعہ فلنگ کی جاتی ہے۔ اسی طرح پرانے اور نئے سلنڈر فروخت کرنے کے حوالے سے کوئی اجازت نامہ نہیں لیا جاتا ہے۔ اب ایل پی جی ہوٹل، تندور، کھانے پینے کی اشیا کے ٹھیلے والے، ریستورانوں میں زیادہ استعمال ہوتی ہے۔

ایل پی جی ڈیلرز ایسوسی ایشن کے رہنما فرحان ایاز نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اتنا بڑا شعبہ گزشتہ 50 سال سے دکانوں میں چلایا جارہا ہے۔ شہر کی اہم ضرورت پوری کی جاتی ہے۔ اب پابندی تو لگتی ہے تاہم عمل درآمد کرانے والے اپنا مفاد دیکھتے ہیں۔ ایران سے باوزر کے اندر ایل پی جی آتی ہے، اس میں وزن بڑھانے کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ مکس کرتے ہیں۔ وزن بڑھنے پر منافع خور سرگرمی سے رقم اضافی وصول کرتے ہیں۔ تاہم خطرناک معاملہ ہے۔ پانی کے جہاز ایل پی جی کے علاوہ ایل این جی بھی لارہے ہیں۔

شہریوں میں اکثریت مختلف وزن کے سلنڈر خرید کر استعمال کررہے ہیں۔ ایل پی جی وافر مقدار میں ہوتی ہے۔ گیس کمپنیاں جب دکانداروں کو ڈیلرز کے ذریعہ مہنگی دیں گی تو آگے مہنگی فروخت کریں گے۔ اسکول بسوں، ویگنوں، مسافر گاڑیوں میں پابندی ہے کہ استعمال نہ کریں، تاہم استعمال ہورہی ہے۔ دکانوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے کہ مقامی سطح پر اجازت نامہ مل جاتا ہے۔

ایران سے جو ایل پی جی آتی ہے اس کی کوالٹی چیک کرنے کے لیے داخلی راستوں پر چیکنگ یونٹ لگنے چاہئیں۔ آج کل 15 سے 17 سو میٹرک ٹن ایل پی جی استعمال ہورہی ہے اور کراچی میں سردیوں میں کھپت بڑھنے پر 25 سے 26 میٹرک ٹن تک استعمال ہوتی ہے۔ اس شعبے کے کرتا دھرتا مصنوعی قلت پیدا کر کے مرضی کی قیمت لگا دیتے ہیں کہ شہریوں کا انحصار زیادہ اس پر ہے۔ لکڑی کے ٹال انتہائی کم ہیں اور استعمال کے حوالے سے جگہ کھلی نہیں۔