گرفتاری سے بچنے کیلئے 5 کروڑ رشوت آفر کی گئی تھی ، فائل فوٹو
گرفتاری سے بچنے کیلئے 5 کروڑ رشوت آفر کی گئی تھی ، فائل فوٹو

راوی پر قبضہ کرنے والی مافیا بے نقاب

نواز طاہر:
لاہور کے تھیم پارک کا ذکر حالیہ سیلاب میں پندرہ سے بیس فٹ تک پانی سے بھر جانے کے بعد دریائے راوی کے بیڈ کی حیثیت سے سامنے آیا، جس پر ایک ریٹائرڈ پولیس اہلکار حوالدار خوشی محمد نے قبضہ کرکے رہائشی اسکیم بنائی اور دو، دو لاکھ روپے فی مرلہ اقساط میں پلاٹ بیچے تھے۔

خوشی محمد کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ زمینوں پر قبضے کرنے اور رئیل اسٹیٹ کا کروبار کرنے والے بروکروں کا فرنٹ مین ہے۔ لیکن گرفتاری کے بعد اس سے کی جانے والی پوچھ تاچھ کی تفصیلات سامنے نہیں لائی گئیں کہ اس کے اس فراڈ میں اس کا معاون کون کون تھا اور کس طرح اس نے غیر قانونی اراضی پر غیر قانونی رہائشی اسکیم بنائی اور وہاں پانی، بجلی اور سیوریج جیسی سہولیات حاصل کیں ؟

اسی دوران علاقے کے مفصل جائزے کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ملزم خوشی محمد کو سیلاب آنے سے پہلے ہی گرفتار کرلیا گیا تھا، کچھ متاثرین نے بتایا کہ ملزم خوشی محمد کو ان کے احتجاج اور بار بار دی جانے والی درخواستوں پر کارروائی کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔ متاثرین نے بتایا کہ ملزم کی گرفتاری کے وقت اس کے بیٹے کو بھی حراست میں لیا گیا تھا اور پاکستانی کروڑوں روپے کے ساتھ ساتھ بھاری مالیت کی غیر ملکی کرنسی بھی قبضے میں لی گئی تھی اور قانون کے تحت ضبط کرلی گئی تھی۔

گرفتاری کے وقت ملزم خوشی محمد کے بیٹے نے باپ کی رہائی کے عوض پانچ کروڑ روپے کی پیشکش بھی کی تھی جو رد کردی گئی۔ محکمہ اینٹی کرپشن کے ترجمان نے اس رقم کی برآمدگی کی نفی کی ہے تاہم یہ تصدیق کی ہے کہ ملزم کو سیلاب سے پہلے متاثرین کی درخواست پر گرفتار کیا گیا تھا اور اس کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جارہی۔ جبکہ متاثرین کی دوھکہ دہی سے زمین بیچ کر ہتھیائی گئی رقم بھی واپس کرائی جارہی ہے۔

تھیم پارک اسکیم کیلئے ملزم نے ملتان روڈ کے موضع بدوپورہ کے مقامی افراد کی ملکیتی زمین حاصل کی۔ لیکن بعض افراد سے پیسے لینے کے بعد بھی انہیں زمین فراہم نہیں کی گئی تھی۔ اس ضمن میں چوہنگ پریس کلب کے لیگل ایڈوائزر عرفان بھٹی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ’’ملزم خوشی محمد کیخلاف ہم نے نیب سمیت ہر فورم پر درخواستیں دی تھیں لیکن کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ اب متاثرین کی رقوم ادا کرنے پر تیار ہے اور ادائیگی کا شیڈول بنایاجارہا ہے، کیونکہ سرکاری اراضی کے ساتھ فراڈ ہوا ہے۔ باقی کرپشن کے معاملات نیب سمیت دیگر اداروں نے کرنے ہیں۔ محکمہ اینٹی کرپشن کا کام ملزم خوشی محمد کی غیر قانونی اراضی ہتھیانے اور شہریوں کو بیچنے پر کارروائی کرنا ہے اور وہ کارروائی جاری ہے۔

ملزم بیچی ہوئی زمین کے پیسے واپس کرنے پر بھی تیار ہے اس پر ابھی کام کیا جارہا تھا اور متاثرین کی تصدیق کا عمل شروع کیا گیا تو عدالت نے ہدایت کی ہے کہ شفاف طریقِ کار کیلئے پہلے متاثرین کا ڈیٹا مرتب کیا جائے۔ اس حکم کے بعد اب متاثرین کا ڈیٹا جمع کیا جارہا ہے۔ اس سوال پر کہ جب ملزم نے سرکاری اراضی جعلسازی سے فروخت کی تو اس وقت لاہور ترقیاتی ادارہ ایل ڈی اے اور محکمہ مال سمیت متعلقہ ادارں نے کارروائی کے بجائے چشم پوشی کی۔ کیا ان ذمہ داروں کے خلاف بھی کارروائی کی جارہی ہے؟ تو محکمہ اینٹی کرپشن کے ترجمان نے جواب دیا کہ یہ نیب جیسے اداروں کی ذمہ داری ہے۔

اس کے برعکس اس اسکیم میں رہائش پذیر ( متاثرین میں شامل ) چوہنگ پریس کلب کے لیگل ایڈوائزر عرفان بھٹی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ان کے والد کے انتقال کے بعد انہیں وہاں شفٹ ہونے پر صورتحال کا علم ہوا تو تمام متعلقہ اداروں سے رجوع کیا گیا تھا۔ لیکن کہیں سے شنوائی نہیں ہوئی تھی۔ عرفان بھٹی ایڈووکیٹ کے بقول ملزم کی منی لانڈرنگ کے معاملات بھی سامنے آئے ہیں۔ یہ شخص سینتالیس روپے فی یونٹ کے ساتھ ساتھ ایک ہزار ایک سو پینسٹھ روپے سروسز چارجز بھی وصول کرتا تھا اور لیسکو کا نادہندہ ہونے پر یہاں کی بجلی کاٹ دی گئی تھی۔

یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت بھی پورے علاقے میں بجلی کے کھمبوں کے بجائے دیواروں کے ساتھ کھلے تاروں کے ذریعے بجلی سپلائی کی جارہی ہے۔ اس مقام پر ماضی میں بھٹہ خشت کیلئے کچی اینٹیں تیار کرنے کے ساتھ ساتھ شہر میں مٹی بھی سپلائی کی جاتی تھی اور یہاں پر کچھ مقامات پر پانچ سے چودہ فٹ گہرے کے گڑھوں میں پانی بھرا پڑا ہے۔ متاثرین کیلئے پاکستان مرکزی مسلم لیگ اور الخدمت فائونڈیشن کی خیمہ بستیاں بھی موجود ہیں اور کچھ متاثرین پانی اترنے پر واپس اپنے گھروںکو جارہے ہیں۔