عمران خان :
ایف بی آر نے ٹیکس چوری کے خلاف کمر کس لی۔ اس ضمن میں ملک بھر کی بڑی صنعتوں کی مسلسل نگرانی اور مانیٹرنگ کیلئے خصوصی کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ پاکستان میں ٹیکس نظام مسلسل دبائو کا شکار ہے۔ جہاں ہر سال کھربوں روپے کی ٹیکس چوری اور محصولات کی لیکیج معیشت کیلئے بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ انہی مسائل کے حل کیلئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی دفعہ 40B کے تحت ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کی ہے۔ جو فیکٹریوں اور مینوفیکچرنگ یونٹس میں پیداوار اور کلیئرنس کی نگرانی سے متعلق شکایات کا ازالہ کرے گی اور فیلڈ فارمیشنز کی کارروائیوں کا باقاعدہ جائزہ لے گی۔
ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سال تقریباً سات کھرب روپے کے قریب محصولات چوری یا لیکیج کی نذر ہو جاتے ہیں، جو مجموعی ترقیاتی بجٹ سے کہیں زیادہ ہے۔ ذرائع کے مطابق ٹیکس چوری کی سب سے بڑی وجوہات میں کمزور نگرانی، پیچیدہ قوانین، کرپشن اور جدید ٹیکنالوجی کے فقدان شامل ہیں۔
ایف بی آر حکام نے بتایا کہ ملک میں ٹیکس چوری کئی طریقوں سے کی جاتی ہے۔ درآمد کنندگان عموماً انڈر انوائسنگ کے ذریعے اصل مال کی قیمت کم ظاہر کرتے ہیں، تاکہ ڈیوٹی اور ٹیکس کم ادا کیا جا سکے۔ اسی طرح بڑی مقدار میں سامان اسمگلنگ کے ذریعے بغیر کسی ٹیکس یا ڈیوٹی کے ملک میں داخل ہو جاتا ہے۔
بعض کاروباری حلقے جعلی یا فرضی انوائسز کے ذریعے سیلز ٹیکس ریفنڈز کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق بڑی تعداد میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار ایسے ہیں جو ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں اور اپنی پیداوار پر کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ فیکٹریوں کی سطح پر بھی بعض ادارے اپنی اصل پیداوار کم ظاہر کر کے سیلز ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی میں کمی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ایف بی آر ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ دفعہ 40B کے تحت ان لینڈ ریونیو افسران کو فیکٹریوں اور پروڈکشن یونٹس میں تعینات کیا جاتا رہا تاکہ پیداوار کی براہِ راست نگرانی کی جا سکے۔ تاہم اس اقدام پر صنعتکاروں نے بارہا اعتراض کیا اور الزام لگایا کہ بعض افسران نے اس قانون کا غلط استعمال کیا اور رشوت یا دبائو کے ذریعے مسائل پیدا کیے۔ انہی شکایات کے ازالے کیلئے اب ایک نئی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ جس میں نہ صرف ایف بی آر کے اعلیٰ افسران شامل ہیں بلکہ تاجر برادری اور چیمبرز آف کامرس کے نمائندے بھی موجود ہیں۔
ایف بی آر کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق کمیٹی کے ارکان میں ڈاکٹر حامد عتیق سرور، ممبر آئی آر آپریشنز ایف بی آر میر بادشاہ خان وزیر، ممبر لیگل آئی آر ایف بی آر، اور جاوید اقبال، چیف ایس ٹی آپریشنز ایف بی آر و سیکریٹری کمیٹی شامل ہیں۔ تاجروں کی نمائندگی کیلئے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کے صدر عاطف اکرام شیخ، کراچی چیمبر کے صدر محمد جاوید بلوانی اور لاہور چیمبر کے صدر میاں عبدالرشید کو شامل کیا گیا ہے۔ ایف بی آر ذرائع کے مطابق کمیٹی فوری طور پر فعال ہو گی اور اس کا بنیادی ہدف فیکٹریوں میں تعینات افسران کی کارروائیوں کی نگرانی اور تاجروں کی شکایات کا بروقت ازالہ ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیٹی کا قیام صنعتکاروں اور تاجر برادری کے خدشات دور کرنے کیلئے ایک اہم قدم ہے۔ تاہم اصل کامیابی تب ہوگی جب ٹیکس نظام میں جدید ٹیکنالوجی کو شامل کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق معیشت کی مکمل دستاویزی شکل (Documentation of Economy) کے بغیر ٹیکس چوری کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اس مقصد کیلئے ڈیجیٹل مانیٹرنگ، آڈٹ کے جدید طریقے اور ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ آن لائن لنک کرنا ناگزیر ہے۔
ایف بی آر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو صرف نو سے دس فیصد ہے، جو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ بھارت کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو سترہ فیصد اور ترکی کا تقریباً پچیس فیصد ہے۔ ذرائع کے مطابق اس کمزور شرح کی وجہ سے حکومت کو ترقیاتی منصوبوں کیلئے بھاری قرضے لینے پڑتے ہیں اور بجٹ کا بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی پر صرف ہو جاتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی اور لاہور کے صنعتکاروں نے متعدد بار شکایات کیں کہ فیکٹریوں میں تعینات افسران کے رویے سے کاروباری ماحول متاثر ہوتا ہے۔ ان کے مطابق بعض سرمایہ کار بیرون ملک اپنی صنعتیں منتقل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اسی دبائوکو کم کرنے کیلئے تاجر نمائندوں کو نئی کمیٹی میں شامل کیا گیا تاکہ براہ راست شراکت داری کے ذریعے مسائل حل کیے جا سکیں۔
ذرائع کے مطابق اگر ٹیکس چوری پر قابو پا لیا جائے تو ملک کے محصولات کئی گنا بڑھ سکتے ہیں اور بجٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے آئی ایم ایف جیسے اداروں پر انحصار کم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ذرائع نے واضح کیا کہ کمیٹی کے ساتھ ساتھ نان فائلرز کے خلاف سخت کارروائی، ٹیکس ریٹرن کے نظام کو مزید آسان اور آن لائن بنانا، کاروباروں کی ڈیجیٹل رجسٹریشن اور ادارے کے اندر احتسابی نظام قائم کرنا بھی ضروری ہے۔
ذرائع کے بقول شکایات کے ازالے کیلئے قائم کی گئی کمیٹی صنعتکاروں کے خدشات دور کرنے اور ٹیکس نظام کو شفاف بنانے کی ایک بڑی کوشش ہے۔ تاہم یہ کمیٹی موثر تبھی ثابت ہوگی جب اسے عملی اقدامات اور ٹیکنالوجی کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا۔ بصورت دیگر، یہ بھی ماضی کی طرح محض وقتی انتظام ثابت ہو سکتی ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos