ڈاکٹر ظفر اقبال
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں پاکستان کے زیر اہتمام تیسری میڈ اِن پاکستان نمائش کا آغاز ہوگیا۔
5 روزہ نمائش انٹرنیشنل کنونشن سینٹر بشندھارا میں جاری ہے جس میں 100 سے زائد پاکستانی کمپنیاں مختلف مصنوعات کے ساتھ شریک ہیں۔ یہ اور اس طرح کی خبریں اب کچھ زیادہ آ رہی ہیں۔ آتی ہی جا رہی ہیں۔
ہاں تو کیا ہو گیا؟ ۔۔۔۔۔۔
ساری دنیا میں ملکوں اور اقوام کے تعلقات بنتے، بگڑتے، کم یا زیادہ ہوتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات اختلافات کے باوجود بھی تعلقات قائم رہتے ہیں۔ کسی بھی دو ملکوں کے تعلقات کا اثر لازمی طور پر ان کے علاوہ دوسرے ملکوں پر بھی پڑتا ہے، اور کچھ نہ کچھ تحفظات، مشاہدات اور خدشات ان کے بھی ہو سکتے ہیں۔ تعلقات خراب ہوں تو کچھ باہمی دوست بیچ میں پڑ کر اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
لیکن پاکستان کے پڑوس میں واقع بھارت کے عجیب معاملات ہیں۔ پاکستان کسی سے ایک دیا سلائی لے یا ماش کی دال، بھارت یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کو وہ کچھ کرنا چاہیے جو بھارت کہے یا جس پر اسے اعتراض نہ ہو۔اور بنگلہ دیش کو تو سانس کی رفتار بھی دلی سرکار سے پوچھ کر طے کرنی چاہئے۔ ہر مسئلے پر اس کی مرضی اور رضامندی کے بغیر کچھ بھی ہو تو چیخ چیخ کر شور مچانا اور اپنے میڈیا کو اس ایشو کے پیچھے لگا کر بھارت نے اپنی وہ کیفیت کر دی ہے کہ اس کے خلاف کسی اور کو کوئی پروپیگنڈا کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اس کے میڈیا کو کسی ساکھ کا حامل نہیں گردانا جاتا۔ اس کے تجزیہ نگاروں کو دانش سے تہی اور توازن سے محروم کرنے میں محض مودی اور بی جے پی ہی نہیں، اور عوامل بھی شامل ہو گئے ہیں۔
پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے تعلقات کی تکون میں یہ خصوصی انداز اور رد عمل کا یہ ناقابل مثال رویہ کیوں ہے؟ شاید اس کی وجہ ماضی بعید کی تاریخ اور اس کے بعد کے پیچ و خم میں ہمیں مل سکتی ہے۔
پاکستان کے قیام کے چھ ماہ بعد بنگال میں اردو اور بنگالی کا ایسا جھگڑا کھڑا ہوا کہ یہ آگے چل کر ایک تحریک کی بنیاد بنا۔ مسلم لیگ کا ایک بڑا حصہ مشرقی پاکستان میں عوامی مسلم لیگ اور پھر عوامی لیگ میں تبدیل ہوا۔ قائد اعظم کے ساتھ اردو کو قومی زبان قرار دینے کے حق میں دوسری سب سے بڑی توانا آواز خواجہ ناظم الدین کی تھی جو بنگال سے تعلق رکھتے تھے۔ کچھ ہی عرصے میں ایوب خان کے مارشل لاء سے پہلے کے نو سال ایک دھما چوکڑی کے رہے جن میں خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، اسکندر مرزا اور حسین شہید سہروردی اس میوزیکل چیئر میں یہ تاثر دینے میں ناکام رہے کہ وہ بنگال سے ہیں۔
قیام کے چھ ماہ بعد زبان کے مسئلے پر مقامی انتظامیہ کے ہاتھوں طلبہ کی ان فسادات میں ہلاکت کے واقعے سے شروع ہونے والے سلسلے کے حتمی نتیجے کے طور پر قیام پاکستان کے تئیس سال بعد مشرقی حصہ الگ ہو گیا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس بنگلہ زبان کی تحریک کے پیچھے بڑا کام کس کا تھا؟ یہ ایک کانگریسی دھیریندر ناتھ دتّا تھے جو پاکستان بننے کے بعد انڈین نیشنل کانگریس کے پاکستان میں تسلسل کی علامت تھے۔ انہوں نے مشرقی پاکستان میں بنگالی زبان کے حوالے سے حساسیت کو چھ ماہ میں اس قدر آتشیں کر دیا کہ صرف اردو کا نام لینے پر ایک طوفان مچ گیا جیسے بنگالی زبان کو دفن کرنے کے لیے محمد علی جناح اردو کا نام لے رہے ہوں۔ اردو کی کچھ وکالت شاید زیادہ ہو گئی ہو لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ بنگالی اس کے بعد بھی کسی فراموش کردہ زبان کی طرح نہیں دھکیلی گئی اور خواجہ ناظم الدین کیسے اسے دفن ہونے دیتے۔ بنگالی زبان اردو کے ساتھ پاکستان کے ہر نوٹ اور سکے پر موجود رہی، لیکن آگ لگائی جا چکی تھی اور اس ماحول سازی کا اصل مقصد کیا تھا، یہ دیکھنے والے دیکھ رہے تھے۔ یوں بنیاد رکھ دی گئی اور قیام پاکستان کے مخالف کانگریسی دھیریندر ناتھ دتّا اس تاسیس میں اور اپنے آپ کو مشرقی پاکستان کا اصل درد مند باور کروانے میں سو فیصد کامیاب رہے۔
پچاس کی دہائی میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لیے دہلی اور اگرتلہ میں مرکز اور ساٹھ کی دہائی کے شروع میں چواین لائی کی جانب سے ایوب خان کو مشرق میں بڑھتے مسئلے اور اس کے پیچھے کارفرما قوتوں کے بارے میں خبردار کر دیا گیا تھا اور قدرت اللہ شہاب نے اسے قلم بند بھی کیا ہے۔
بعد کی تاریخ میں بھارت کی مسلسل مہم اور مشرقی پاکستان کے مسائل پر کماحقہ توجہ نے دینے بے انصافی، بد انتظامی اور شدید غیر سنجیدگی مشرقی پاکستان میں وہ رنگ لے آئی کہ جو پھر مسلسل بھنور میں پھنسی پاکستان کی مقتدرہ کے فہم و فراست اور مینیج کرنے کی سکت سے باہر تھا۔ بھارت مسلح افواج اتار کر مشرقی پاکستان کو الگ کر چکا تو کچھ ہی عرصے بعد بنگلہ دیش کے شیخ مجیب الرحمٰن صرف تین سال بعد لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس میں شریک ہوئے۔
تعلقات استوار ہوئے لیکن عوامی لیگ پر بھارتی اثرات اس قدر زیادہ رہے کہ کٹھ پتلی سے زیادہ کی حیثیت نہ رہی۔ ظاہر ہے بی جے پی ذہنیت کے تسلط کے بعد عوامی لیگ سے جو کام لیا جانا چاہیے تھا اس میں پاکستان سے نفرت اور دشمنی کے سوا کیا ہو سکتا تھا؟
نئی صورتحال جس میں بنگلہ دیش فسطائیت کے دور سے بڑی جدوجہد کے بعد نئے آزاد دور میں داخل ہو رہا ہے اس میں معاشرے کی عمومی شمولیت اور مثبت ماحول ہے۔ مصنوعی اور ہذیانی ماحول اور ہر وقت کے جنونی اور تقسیم کاری کے چلن کی بجائے ہوش اور انسانیت چھائی ہوئی لگ رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں پاکستان کا نام ایک دوست اور بھائی کے طور پر پہچانا جا رہا ہے۔ جن لوگوں کو غدار اور پاکستان کا ایجنٹ اور ناقابل برداشت گردانا جا رہا تھا وہ مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہونا پر سکون محسوس کرتے ہیں۔
تو ان سب حقائق کے بعد بی جے پی کے وار سائیکوسس کے شکار صحافیوں اور بھارتی میڈیا کیسے وہ سب نہ کرے جو وہ کر رہا ہے، کہ پاکستان کے ساتھ دوستی کیوں؟ پاکستانی وزیر خارجہ کا دورہ کیوں؟ ہاتھ تک کیوں ملایا؟ ہم سے پوچھا ہوتا۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔
تو بھائی سنو !
بات دراصل یہ ہے کہ
؎ پورب کا دروازہ کھلا
ٹھنڈی ٹھنڈی چلی ہوا
جاگو جاگو صبح ہوئی
(ماموں وغیرہ کا اضافہ حسب ذائقہ لگایا جا سکتا ہے۔)
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos